پاکستان میں ٹریفک حادثات،سڑک یا موت کا میدان؟
(Ghulam Murtaza Bajwa, Lahore)
|
پاکستان اس وقت ایک سنگین مگر نظر انداز کیے گئے بحران کا سامنا کر رہا ہے، جو روزانہ درجنوں قیمتی جانیں نگل رہا ہے۔ یہ بحران کسی بیماری یا قدرتی آفت کا نہیں بلکہ سڑکوں پر ہونے والے ٹریفک حادثات کا ہے، جن کی شدت اور تسلسل نے انہیں ایک ”خاموش قاتل“ بنا دیا ہے۔ ایشین ٹرانسپورٹ آبزرویٹری کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر چھ منٹ بعد ایک جان سڑک حادثے کی نذر ہو جاتی ہے۔ گویا روزانہ کم از کم 240 افراد زندگی کی بازی ہار رہے ہیں یا ناقابلِ تلافی زخمی ہو رہے ہیں۔سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان حادثات کا شکار ہونے والوں میں بڑی تعداد کم عمر بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں 20 فیصد سے زائد وہ بچے ہیں جو ابھی چودہ سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچے، جبکہ 60 فیصد اموات نوجوانوں اور درمیانی عمر کے افراد کی ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف ہولناک نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی، انتظامی اور قانونی نظام کی سنگین ناکامی کی نشان دہی کرتے ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کے اسباب متنوع اور پیچیدہ ضرور ہیں، لیکن ان میں چند عناصر انتہائی نمایاں اور واضح ہیں۔ہمارے ہاں ٹریفک کے قوانین یا تو ناقص ہیں یا ان پر عملدرآمد محض کاغذی کارروائی کی حد تک محدود ہے۔ قانون کی خلاف ورزی پر معمولی جرمانہ یا رشوت کا چلن خلاف ورزیوں کو فروغ دیتا ہے۔ ملک میں ڈرائیونگ لائسنس کا حصول انتہائی غیر پیشہ ورانہ اور بسا اوقات غیر قانونی طریقوں سے ہوتا ہے۔ تربیت اور امتحان کی جگہ سفارش یا رشوت سے لائسنس لینا ایک معمول بن چکا ہے۔ لاکھوں گاڑیاں، خاص طور پر پبلک ٹرانسپورٹ، ایسی ہیں جو تکنیکی طور پر سڑک پر چلنے کے قابل نہیں۔ بریک فیل ہونا، ٹائروں کی حالت خراب ہونا اور گاڑیوں کا تکنیکی معائنہ نہ ہونا حادثات کا بڑا سبب ہے۔ کئی علاقوں میں سڑکیں یا تو ٹوٹی پھوٹی ہیں یا ان پر سگنلز، لین مارکنگ اور دیگر حفاظتی اقدامات کا فقدان ہے۔ دیہی علاقوں میں تو سڑکیں گاڑیوں کے قابل ہی نہیں۔یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔ والدین کا لاپرواہ رویہ، قوانین کی نرمی اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کے رجحان نے بچوں کو موٹر سائیکل اور کار چلانے کی”مہم جوئی“ پر آمادہ کیا ہے۔ٹریفک حادثات کی یہ شرح صرف انتظامی ناکامی کی غماز نہیں بلکہ یہ معاشرتی لاپروائی اور قانون کو نظر انداز کرنے کی علامت بھی ہے۔ ہمارے ہاں ٹریفک قوانین کو صرف ”مشورہ“ سمجھا جاتا ہے، ان پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ یہ رویہ والدین سے بچوں تک اور ڈرائیور سے راہگیر تک سب میں سرایت کر چکا ہے۔جب ایک باپ اپنے دس سالہ بیٹے کو موٹر سائیکل تھما کر فخر محسوس کرتا ہے، جب کوئی شخص بغیر ہیلمٹ اور بغیر لائسنس کے شاہراہوں پر فراٹے بھرتا ہے، اور جب پولیس اہلکار معمولی جرمانے یا رشوت لے کر خلاف ورزی کرنے والوں کو جانے دیتا ہے، تو وہ سب اس قاتلانہ نظام کے مجرم ہوتے ہیں۔ ٹریفک حادثات صرف جانوں کے ضیاع تک محدود نہیں۔ ان کا ایک بڑا معاشی پہلو بھی ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد معذور ہو کر معیشت پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ ہسپتالوں پر دباؤ، انشورنس کمپنیوں کے نقصانات، گھریلو کفیل کی موت یا معذوری سے متاثر خاندان، یہ سب اس بحران کے وہ پہلو ہیں جو نظر انداز کیے جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی نفسیاتی اثرات بھی شدید ہوتے ہیں۔ حادثے کا شکار ہونے والے یا ان کے اہل خانہ طویل عرصے تک صدمے کا شکار رہتے ہیں۔ یہ اثرات نہ صرف فرد بلکہ پورے سماج کی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جرمانے کی شرح بڑھانے کے ساتھ ساتھ خلاف ورزی کرنے والوں کو فوری سزا دینی چاہیے۔ بار بار خلاف ورزی پر لائسنس منسوخی، گاڑی ضبطی، یا عارضی قید کی سزائیں ہونی چاہئیں۔ ڈرائیونگ لائسنس کے نظام کو مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ اور شفاف بنایا جائے۔ تربیت کے بغیر لائسنس جاری نہ ہو۔والدین کو جوابدہ بنایا جائے۔ اگر کسی بچے کو ڈرائیونگ کرتے پکڑا جائے تو والدین یا سرپرست کو بھاری جرمانہ اور سماجی خدمات کی سزا دی جائے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سڑکوں کی تعمیر و مرمت پر مسلسل سرمایہ کاری کرنی چاہیے، خاص طور پر ہائی ویز اور شہری چوراہوں پر حفاظتی اقدامات میں اضافہ کیا جائے۔میڈیا، اسکولز اور سوشل پلیٹ فارمز پر مسلسل آگاہی مہمات چلائی جائیں۔ ہیلمٹ، سیٹ بیلٹ، اسپیڈ لِمٹ، اور دیگر قواعد پر عملدرآمد کو فخر کا نشان بنایا جائے۔ ٹریفک پولیس کو جدید تربیت، ٹیکنالوجی، اور اخلاقی احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔ باڈی کیمرا سسٹم، موبائل چالان ایپ اور خودکار مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرائے جائیں۔ اگر ہم نے ٹریفک حادثات کی سنگینی کو اب بھی معمول کی بات سمجھا تو آنے والے وقت میں یہ بحران ایک اور قومی المیہ بن جائے گا۔ سڑکیں قوم کی رگِ جاں ہوتی ہیں، لیکن جب ان پر خون بہنے لگے، تو یہ رگیں قوم کی زندگی کا نہیں بلکہ موت کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم بحیثیت قوم جاگ جائیں، قانون پر عمل کریں، اور سڑکوں کو محفوظ بنانے کے لیے اپنے حصے کی ذمے داری نبھائیں۔ ہر چھ منٹ بعد ایک جان ضائع ہو رہی ہے۔کیا اب بھی ہم خاموش رہیں گے؟۔
|