’’ڈرامہ میرے پاس تم ہو‘‘ کی کہانی اور ڈائیلاگز نے ہر
شخص کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیا ہے۔۔۔کچھ لوگوں نے اس کہانی سے اور اس
کہانی کے چند جملوں سے اختلاف کیا اور کچھ نے اسے حقیقت کے بہت قریب
جانا۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ اس ڈرامہ نے دیکھنے والوں کے دلوں پر حکومت کرنا
شروع کردی ہے اور وہ چاہ کر بھی اسے نظر انداز نہیں کرسکتے۔۔۔
|
|
اس ڈرامے کو تحریر کرنے والے خلیل الرحمن قمر ایک صاف دل کے کھرے انسان ہیں۔۔۔
دو ٹوک بات کرتے ہیں اور اپنے دل میں خواتین کے لئے ایک بہت اونچا مقام
رکھتے ہیں۔۔۔ہماری ویب نے ان سے کچھ باتیں کیں اور ان کے بارے میں بہت کچھ
جاننے کو ملا۔۔۔
پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے خلیل الرحمن قمر۔۔۔جن کا بچپن بھی ذہانت
اور پر اعتمادی سے بھرپور تھا۔۔۔بہت چھوٹی عمر میں قلم سے دوستی کرلی اور
صرف چھٹی جماعت میں ہی تھے کہ ایک کہانی لکھ ڈالی جس کا عنوان تھا۔۔۔’’چھوٹے
میاں سبحان اﷲ‘‘۔۔۔یہ کہانی روزنامہ ’’بچوں کا امروز‘‘ میں شائع بھی ہوئی
اور پذیرائی بھی ملی۔۔۔اس کے بعد بیش بہا کہانیوں کا سلسلہ چل نکلا۔۔۔ان کی
لکھی گئی ہر تحریر حالات اور زندگی کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔۔۔
جب چھوٹے تھے اس وقت سے ہی ان کا غصہ بہت تیز تھا اور وہ ان لوگوں سے سخت
خائف رہتے تھے جن کے دو چہرے ہوتے ہیں۔۔۔کم عمری سے لے کر آج تک سب کی ذمہ
داریاں نبھا رہے ہیں اور یہ فرائض وہ بہت دل اور بہت شوق سے انجام دیتے ہیں۔۔
|
|
ہم نے خلیل صاحب سے پوچھا کہ آخر انہوں نے کبھی محبت میں دھوکہ کھایا ۔۔۔تو
انہوں نے جواب دیا کہ دھوکا ہم کس چیز کو مانتے ہیں۔۔۔اگر وہ عشق ہے تو اس
میں تو دھوکہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔لیکن زندگی میں دو یا تین بار آپ کو
محبت کا گمان ہوتا ہے اور آپ یہ جانتے ہیں کہ وہ صرف ایک وقت تک قائم رہنے
والی ہے اور اس کو زندگی میں ہمیشہ کے لئے شامل نہیں ہونا۔۔۔لیکن عشق چاہے
سالوں بعد بھی ملے تو اس کی شدت میں کمی نہیں آتی۔۔۔اور وہ اپنی زندگی کی
ان محبتوں کو دھوکے کا نام نہیں دینا چاہتے۔۔
ہم نے انہیں بتایا کہ خواتین آپ سے کافی خفا ہیں۔۔۔آپ نے تو انہیں بڑے ہی
جذباتی الفاظ میں دو ٹکے کا کہہ دیا۔۔۔خلیل صاحب نے جواب دیا کہ مجھ سے
زیادہ کوئی خواتین کی عزت کر نہیں سکتا۔۔۔آپ میرے سارے ڈرامے دیکھ لیں۔۔۔ان
میں ہمیشہ خواتین کو بہت معتبر دکھایا ہے۔۔۔لیکن میں عورت ہی اس کو مانتا
ہوں جو باوفا ہوتی ہے۔۔۔اور میں مرد و عورت کی برابری کو مانتا ہی
نہیں۔۔۔کیونکہ عورت مرد سے کہیں زیادہ اونچا مقام رکھتی ہے۔۔۔آپ نے کبھی
غور سے ان خواتین کی شکلیں دیکھی ہیں جو حقوق نسواں کی ترجمان ہیں لیکن ان
کے اپنے چہروں پر بیزاری اور سختی ہے۔۔۔ہم سب کے اندر ایک اچھا انسان اور
ایک برا انسان چھپا ہوتا ۔۔۔لیکن جب برا انسان حاوی ہوجائے تو پھر چہرے بھی
اچھے نہیں لگتے۔۔۔میں صرف خواتین کے حق میں بات کرتا ہوں۔۔۔میں ہر عورت کو
برابری پر نہیں رکھ سکتا کیونکہ یہ ان عورتوں کی توہین ہے جو محنت مشقت اور
وفاؤں سے معاشرے کو سنوار رہی ہیں۔۔۔جو غلط کر رہی ہیں انہیں بھی ان کے
برابر لا کر بٹھادوں تو یہ نا انصافی ہے۔۔
خلیل الرحمن قمر کا کہنا ہے کہ جب میں لکھتا ہوں تو اتنا دل سے لکھتا ہوں
کہ مجھے بعض دفعہ خود رونا آجاتا ہے۔۔۔یعنی ’میرے پاس تم ہو‘ کے دانش کے
لئے جتنا ہم روئے ہیں اتنا ہی خلیل صاحب بھی دکھی ہوں گے۔۔۔
جب ہم نے ان سے پوچھا کہ زندگی میں کتنی محنت اور struggle کی اور کیا
سوچتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا ۔۔مشکل وقت کو ہمیشہ ہنس کر دیکھتا ہوں
کیونکہ میرا ایمان بہت مضبوط تھا اور ہے۔۔۔میں نے بہت محنت کی۔۔۔struggle
تو دو نمبر لوگ کرتے ہیں۔۔۔آپ کا ایمان اگر پکا ہے تو منزل آپ کی ہے۔۔۔
|
|
ویسے تو انہیں اپنے لکھے ہر ڈائیلاگ سے محبت ہے لیکن ’’میرے پاس تم ہو‘‘
میں دو ایسے ہیں جو ان کے دل سے قریب ہیں۔۔۔
پہلا : یہ مرد اور عورت کا رشتہ بھی عجیب ہوتا ہے شہوار صاحب۔۔۔وہ نظر بھر
کر دیکھ لے تو خدا کردیتی ہے، اور نظر پھیر لے تو خدا سے جدا کر دیتی ہے۔۔۔
دوسرا: عورت فطرتاً بے وفا نہیں ہوتی اور جو بے وفا ہوتی ہے وہ فطرتا عورت
نہیں ہوتی۔۔۔
الفاظ کی طاقت ، مشاہدات پر عبور اور تحریر میں گہرائی رکھنے والے شخص کو
پاکستانی تاریخ میں خلیل الرحمن قمر کہتے ہیں۔۔۔جنہوں نے پنجابی گھرانے میں
پیدا ہوتے ہوئے بھی اردو پر اپنی خداداد صلاحیتوں سے عبور حاصل کیا اور
انگریزی سیکھنے کے لئے انتھک محنت کی۔۔۔آج وہ اپنی ہر کامیابی کا سہرا اپنے
یقین اور اپنے ایمان کو دیتے ہیں۔۔۔
|