قسمت ، مقدر ، تقدیر اور نصیب دراصل سب امنگوں اور حسرتوں
کا نام ہے ۔ حقیقت میں ہم یہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کے حصے کی تمام تر خوشیاں
ہمیں حاصل ہو جائیں کیونکہ کسی دوسرے کی ہانڈی لوٹنے کا مزا ہی کچھ اور ہے
۔ لیکن معاملہ اگر ان کے دکھوں کے تبادلے کا ہو تو یہاں ہمارا رویہ بالکل
مختلف ہونے لگتا ہے ۔
..ہماری سوچ کہ یار ان کا تو نصیب ہی ماٹھا ہے تک محدود ہونے لگتی ہے اور
جہاں ہم خود کامیابی حاصل کر لیتے ہیں وہیں اپنی محنت کو اسکا کریڈٹ دے
دیتے ہیں ۔ تاہم دست شناسی کل بھی مقبول تھی اور آج بھی اسکی مقبولیت کا
کوئی ثانی نہیں کیونکہ ہر کوئی اپنی محنت سے زیادہ مقدر پر اور اللہ تعالی
سے زیادہ دست شناسوں پر یقین کرنے لگا ہے ۔
شادی بیاہ کی بات ہو یا کاروبار کی بندش ، بے اولادی ہو یا طبی مسائل ،
تعلیم میں رکاوٹ ہو یا کند ذہنی کا مسئلہ آج کل ان سب مسائل کا حل دست
شناسوں کے پاس ہے ۔ لوگوں کی ضعیف الاعتقادی نے پامسٹ خواتین و حضرات کی
ایک طرح سے چاندی کر دی ہے اور وہ بھی دھڑا دھڑ اشتہارات اور ویڈیوز بنا کر
بہت مالدار ہو رہے ہیں ۔
بہرحال مانیں نہ مانیں دست شناسی پھر بھی ایک مکمل اور حقیقی علم ہے اور
اسکے بارے میں چند دلچسپ نظریات موجود ہیں جن کا حقیقت سے بھی تعلق ہے ۔
دست شناسی کے علم کا باقاعدہ آغاز بھارت سے ہوا اسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ
بھارت میں قدیم ادوار سے ہی توہم پرستی زیادہ پائی جاتی تھی ، پھر یہ علم
یونان اور قدیم مصر سے پھیلتا ہوا جاپان تک بھی جا پہنچا ، چنانچہ اس علم
کی ترویج میں ان ممالک کا بہت ہاتھ رہا ۔
اکثرپامسٹ حضرات کا یہ ماننا ہے کہ ہمارا بایاں ہاتھ ہمارے ماضی کے بارے
میں بتاتا ہے جبکہ دائیں ہاتھ سے ہم اپنے حال کے بارےمیں جانتے ہیں تاہم جو
بھی ہاتھ زیادہ متحرک ہو اسے ہی پڑھا جاتا ہے ، بائیں ہاتھ کو زیادہ
استعمال کرنے والوں کا بایاں ہاتھ دیکھا جاتا ہے اور دائیں والوں کا دایاں
۔
ہاتھ کی لکیروں کا تعلق ہماری سوچ سے ہوتا ہے ، ہمارے ہاتھوں کی لکیریں ہر
چھ ماہ بعد بدلتی ہیں لیکن انگوٹھے کی لکیریں کبھی نہیں بدلتیں اور مرتے دم
تک ایک سی ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے فنگر پرنٹس میں انگوٹھے کا اہم کردار ہے
۔
۔ ہاتھوں کی چھوٹی لکیریں جتنا آپ مثبت سوچتے ہیں اتنی تیزی سے مثبت بننے
لگتی ہیں ، لہذا منفی سوچنا ان لکیروں کی نشوونما پر بہت برا اثر ڈالتا ہے۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہمارے دونوں ہاتھوں میں صرف بارہ لکیریں
ہوتی ہیں لیکن ان میں سے صرف تین اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ، ایک دل کی ،
دوسرے دماغ کی اور تیسری انسان کی زندگی کی لکیر اور زیادہ تر یہی پڑھی
جاتی ہیں ۔
انگلیوں کی لمبائی ، چوڑائی اور ہاتھوں کی جسامت کا بھی دست شناسی میں اہم
کردار ہے ، جن لوگوں کے ہاتھ سائز میں بڑے ہوتے ہیں وہ سوچنے میں کافی وقت
لگاتے ہیں جبکہ چھوٹے ہاتھوں والے متحرک اور بے چین طبعیت کے مالک ہوتے ہیں
،جن کی انگلیاں لمبی ہوتی ہیں وہ کاملیت پسند ہوتےہیں اور کوئی بھی ٹاسک
آسانی سے پورا کر لیتے ہیں اور جنکی انگلیاں چوڑائی والی ہوں تو وہ ایک
کام کرنے کے بعد ہی دوسرا کام مکمل کر سکتے ہیں ۔
باقی رہا کہ ہاتھ کس عمر میں دکھانا چاہیے تو اسکے لئے ۱۸ سال کے بعد کی
عمر بہتر ہوتی ہے کیونکہ اس سے پہلے ہاتھ کی لکیریں واضح نہیں ہوتیں ،تاہم
ناشتہ سے پہلے اور جاگنے سے کچھ دیر بعد ہاتھ دکھانے کا وقت بہترین ہوتا ہے
، کیونکہ ہاتھ آپ کے بارے میں سب کچھ بتا دیتے ہیں آپ کی پیدائش ، شادی
بیاہ ، نوکری ، بچے ، بیماری اور حتی کہ موت کے بارے میں بھی پیش گوئی ہو
سکتی ہے ۔لہذا ضروری یہ ہے کہ ایسے افراد کو ہاتھ دکھایا جائے جو اس اہل
بھی ہوں تاکہ آپ اپنی زندگی پرسکون بسر کریں اور کبھی توہمات کا شکار نہ
ہوں۔
دست شناسی کے مطابق جن لوگوں کے ہاتھ میں کم سے کم لکیریں ہوتی ہیں وہ بہت
خوش قسمت ہوتے ہیں تو کیا آپ اب یہ سب جاننے کے بعد ہاتھ دکھانا پسند کریں
گے ؟
|