حکومت سیاسی طور پر تنہا ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں
پہلے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اتحادی سیاسی حمایت سے ہٹ رہے ہیں۔ ایم کیو
ایم اور قاف لیگ کے بعد جی ڈی اے نے حکومت سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے
علحدہ ہونے کی دھمکی دی ہے۔ تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ دھرنے کے بعد
وزیراعظم کے ہاتھوں سے چیزیں پھسلتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔
پی ٹی آئی نے عوام کو خواب دکھائے، ایسے خواب جن میں سے کسی ایک کی تعبیر
ممکن ہی نہیں ہوسکی ۔ اگر صرف احتساب کو ہی لے لیں، وہ بھی غیرجانبدارانہ
نہ ہو سکا، نہ کوئی پیسہ ملک میں آیا۔ آئی ایم ایف کی مشکل ترین شرائط پر
سمجھوتہ کرنا پڑا۔ جس کے اثرات اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے
کہ حکومت اپنی ناکامی کا ملبہ عدلیہ پر ڈالناچاہتی ہے۔ یہ بھی زبان زد عام
ہے کہ تمام مقتدر حلقوں کی حمایت کے باوجود وزیراعظم عمران خان کارکردگی نہ
دکھا سکے، ان کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوگیا۔
یہ درست ہے کہ سندھ میں منتخب ایوانوںمیں تحریک انصاف کے اپنے نمائندے بھی
ہیں لیکن وہ بطور سیاسی پارٹی کبھی اپنا قد نہیں بناسکی ہے، جس کی کبھی
سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی گئی۔ لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پیر پگاڑا کی
قیادت میں بنائے گئے جی ڈی اے اتحاد کا سندھ میں پی ٹی آئی سے زیادہ سیاسی
اثر ہے۔ سندھ میںپی ٹی آئی کو نشستیں کیسے ملیں؟ پیپلزپارٹی کے مخالفین کو
ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا گیا۔ سندھ میں پیپلزپارٹی اور دیگر عوامل کی
وجہ سے پی ٹی آئی حکومت کو ویسے بھی سیاسی حمایت حاصل نہیں تھی۔ جی ڈی اے
کی ناراضگی سے یعنی اب پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعد ایک اور
صوبہ حکومت سے دور ہو گیا۔
جی ڈی اے کی حکومت سے مایوسی کے وہی اسباب ہیں جو قاف لیگ ، ایم کیو ایم،
صادق سنجرانی اور دیگر چھوٹے اتحادیوں کے ہیں۔ یہ سب اتحادی فیصلہ سازی سے
دور ہیں لہٰذاخود کو حکومت میں شریک نہیں سمجھتے۔ اور حکومت سے فاصلہ کرنے
لگے تھے۔ جب اتحاد میں شامل جماعتیں پروگرام سے متاثر ہو کر شامل ہونے کے
بجائے شرکت اقتدار کے لئے یا ’’کسی کے مشورے‘‘ شامل ہوئی ہوں، اب وہ انہی
کے مشورے پر علیحدہ ہونے یا فاصلہ رکھنے جارہی ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران یہ مظہر بھی دیکھنے کو ملا کہ ستر کے عشرے سے
تقریباً دس سویلین حکومتیں برسر اقتدار آئیں لیکن عمران خان واحد حکومت ہے
کہ جس کے پندرہ ماہ کے دور میں کم از کم تین مرتبہ فوج کے ترجمان یہ بیان
دے چکے ہیں کہ وزیراعظم اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔ فوج وفاقی حکومت کی
حمایت کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات کے
بعد یہ بیان جاری کیا گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ماضی میں سول اور آئینی
حکومتوں کے درمیان اتفاق یا اختلافات کے حوالے سے بڑی بڑی افواہیں اور
تھیوریز چلتی رہیں۔ لیکن فوج کی جانب سے ان کی کبھی نہ تردید کی گئی نہ
تصدیق۔ دوسری طرف اپوزیشن سیلیکٹیڈ وزیراعظم کا الزام لگارہی ہے ۔ بلاشبہ
ہمارے ملک میں فوجی اسٹبلشمنٹ ایک مضبوط ادارہ ہے۔ جس کی جانب سے عمران خان
حکومت کی حمایت میں واضح اعلانات یقینا خان حکومت کی تقویت کا باعث بنیں
گے۔ لیکن ماضی کے تجربے کی روشنی میں دیکھا جائے توسیاسی استحکام کے لئے یہ
اچھی علامت نہیں۔ ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق بھی سیاستدانوں اور سیاسی
جماعتوں کے خلاف رہے، لیکن بعد از خرابی بسیار انہیں سیاسی جماعتوں کی طرف
آنا پڑا۔
ابھی یہ سیاسی معاملات چل ہی رہے تھے کہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید
اقبال کا بدلا ہوا لہجہ بھی سامنے آیا اُنہوں نے کہا ہے کہ ہوائوں کا رخ
بدل رہا ہے اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ حکمراں جماعت بری الذمہ ہے۔ یہ بھی بتا
دیا کہ دوسرے محاذ کی طرف یعنی حکومتی جماعت کی طرف جا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ
اب وہ حکومت کے اراکین پر ہاتھ ڈالنے والے ہیں۔ عمران خان نے پہلے اپوزیشن،
پھر میڈیا اور اب عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی شروع کردی ہے۔ چیف جسٹس آف
پاکستان آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ ججوں پر اعتراض کرنے والے تھوڑی
احتیاط کریں، طاقتوروں کا طعنہ ہمیں نہ دیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی 18
نومبر کی تقریر پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان آصف
سعید کھوسہ نے ایک بیان میں کہا کہ جس کیس پر وزیرِ اعظم نے بات کی ان کو
پتہ ہونا چاہیے کہ کسی کو باہر جانے کی اجازت وزیرِ اعظم نے خود دی۔ سنجیدہ
حلقوں کاکہنا ہے کہ وزیراعظم کو ایسا بیان نہیں دینا چاہئے تھا۔ عمران خان
اور ان کی پارٹی کا لہجہ بھی سخت ہو گیا ہے جس سے ان کی پریشانی عیاں ہوتی
ہے۔
تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ سب تبدیلی کے اشارے ہیں۔اس بحران کا حل کیا ہے؟
نئے انتخابات یا ان ہائوس تبدیلی؟ انتخابات بہت بڑی مشق ہیں، جن میں نئے
سرے سے صف بندیاں پیدا ہونگی، جن سے ہم آہنگی پیدا کرنا مختلف قوتوں کے
لئے مشکل ہوگا۔ جلدی میں نئی قوتوں کو ایڈجسٹ اور اکموڈیٹ کرنا بھی مسئلہ
ہوگا۔ بظاہرحاوی رجحان موجودہ صف بندی کے ذریعے ہی معاملات کو چلانا ہے۔ جس
کو ان ہائوس تبدیلی کا نام دیا جارہا ہے۔ کیا ایک بار پھر کٹھ پتلی حکومت
موجودہ حکومت کا نعم البدل شاید ہوسکتی ہے لیکن اس کا ملک اور عوام کو کوئی
فائدہ نہیں ہوگا ۔ بعض مبصرین کے مطابق بلدیاتی انتخابات کو بھی ٹیسٹ کیس
کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد کسی نہ کسی طور پر موجودہ اسمبلی کو
چلانے کی کوشش کی جائے۔
|