آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے

بابری مسجد کی اراضی کو حاصل کرنے کے لئے ہماری رہنماء تنظیموں کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریویو پیٹیشن ڈالنے کی تیاری ہورہی ہے ، ملک کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموںنے اعتراف کرلیا ہے کہ ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت میں بابری مسجد اراضی کے تعلق سے فیصلہ تو ہوچکاہے لیکن انصاف نہیں ہواہے ۔یہ بات نہ صرف غیرت مند مسلمان کہہ رہے ہیں بلکہ انصاف پسند غیرمسلم بھی تسلیم کررہے ہیں ۔ بابری مسجد کی اراضی کو حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کی جانب سے آخری مرحلے تک لڑنے کی اشد ضرورت ہے ۔ دوسری طرف مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کو اب اپنے طور طریقوں میں تبدیلی بھی لانے کی اشد ضرورت ہے ، بابری مسجد کے زمین کا فیصلہ آنے سے قبل مسلمانوں کے عمائدین ، قائدین ، علماء و سیاستدانوںنے جس طرح سے اعلان کردیا تھاکہ مسجد کے فیصلے کے تعلق سے جو بھی فیصلہ آئیگا اس فیصلے کو ہم مسلمان مانیں گے ، احترام کرینگے ، قبول کرینگے جیسی باتیں خود یہ معنی رکھتے تھے کہ مسلمانوں کے ساتھ جیسا بھی کھلواڑکیا جائے مسلمان سہمے ہوئے ہیں اور ڈرنے کی بات نہیں تھی ۔ کل کے مسلمان اور آج کے مسلمان میں اتنا ہی فرق تھا کہ جنگ آزادی ہو یا پھر میدان جہاد ، مسلمانوںنے مصلحت کے بعد شجاعت و بہادری کا طریقہ ہی اپنایا تھا اوروہ اپنےاس طریقے پر جب تک قائم تھے اس وقت انہوںنے کامیابی حاصل کی تھی ۔ لیکن جب سے مصلحت ، صبر و استقلال کا دامن پکڑا اس کے بعدسے غیر مسلمانوں پر حاوی ہوتے گئے ۔ آج بابری مسجد کے فیصلے کو ماننے کے لئے ہم مسلمانوںنے جس طرح سے نرمی کا مظاہرہ کیا ہے اس نرمی کے بجائے مسلمانوںنے یہ اعلان کردیا ہوتا کہ اگر مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا تو ہندوستان کی حکومت ایک اور انقلاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوجائے ۔ پچھلا انقلاب انگریزوں کے ساتھ تھا اور اب جوانقلاب ہوگا وہ فسطائی طاقتوں اور سنگھ پریوار کے غیر منصفانہ ایجنڈوں کے خلاف شروع ہوگا۔ جس طرح سے انگریزوں کے خلاف ڈانڈی مارچ ، نمک سیتیہ گرہ اور تحریک ریشمی رومال میں مسلمانوں نے قیادت کو قبول کیا تھا اب دوبارہ اس ملک میں انصاف کی خاطر ، جمہوریت کی بقاء کی خاطر تحریک چلانے کی بات ہی کردی ہوتی تو آج یہ دن ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھنا نہ پڑتا۔ ملک کے مسلمانوں کو جس طرح سے ڈرانے اور دھمکانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اس پر مسلمانوں کو سخت رویہ اختیار کرنا ہوگا ۔ جب موت آتی ہی ہے تو ایسی موت کا کیا فائدہ جو خوف کے سائے میں ہو اورظالم کے ظلم سے ہو۔ اگر مرنا ہی تو شہادت کو قبول کرلیں جس سے دونوں جہانوں میں کامیابی ہوگی ۔ ہمارے یہ الفاظ بھلے ہی جوشیلے ہوں لیکن ہمارے قائدین چاہیں تو اس پر عمل کرتے ہوئے تبدیلی دیکھ سکتے ہیں ۔ آج جتنے مسلمان حکمت اور صبر کے نام پر بزدلی کا دامن پکڑے ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ مسلمان اپنی قوم کی بقاء کے لئے قربانیاں دینے کے لئے تیار ہیں ۔ آج شروع ہونے والا انقلاب بھلے ہی آج ہی پھل نہ دے لیکن آنے والی نسلوں کے لئے تو ہمارے انقلاب کاپھل ملے گا۔ مسلمان وہ قوم ہے جو ٹیپو کی شہادت ، مولانا شبلی ؒ کی حکمت اورسلطان صلاح الدین ایوبی کی شجاعت پر یقین رکھتی ہے ۔ ریویو پیٹیشن کے ساتھ ساتھ ہمارے اکابرین اگر اپنی زبان میں بھی کچھ سختی لاتے ہیں تو حکومتوں کو بہت کچھ سوچنا پڑسکتاہے اسکے عوض میں اگر حکومتیں مسلمانوں کو جیلوں میں ٹھونستی ہے تو ٹھونسے ، مقدمے عائد کرتی ہے تو کرے ۔ کتنے دن تک یہ مسلمانوں کو جیلوں میں بھرتی رہیں گی ، کتنے دن تک یہ مسلمانوں کو نظر بند کرینگے ۔ آج حکومتیں اور عدالتیں مسلمانوں کو اپنی ایک مسجد کی زمین چھوڑنے کے لئے کہہ رہے ہیں کل ہندوستان کی 50 ہزار مسجدوں کو چھوڑنے کے لئے کہیں گے پھر مسلمانوں کو انکے چھوڑنے کے لئے کہیں گے اور آخر میں ملک چھوڑنے کے لئے مجبور کیا جائیگا اور نہ چھوڑیں گے تو جان سے ماردیا جائیگا جس طرح سے آج برما میں کیا جارہاہے تو کیا مسلمان اس ظلم کو سہہ پائیں گے ۔ مسلمانوں کو اب تاخیر نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی مصلحت کے نام پر خاموشی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ بابری مسجد کے فیصلے کے بعد مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پھر ایک مرتبہ اعلان کیاہے کہ پورے ملک میں ین آر سی نافذ کیا جائیگا تو کیا اس ملک کے مسلمانوں کو پھر ایک مرتبہ نفسی نفسی کا شکارہوکر اپنے وجود کو اور اپنی شہریت کو ثابت کرنے کے لئے کمربستہ ہونا پڑیگا ؟۔ اگر ایسے حالات پیدا نہیں ہونے چاہئے توہمارے علماء و اکابرین اپنی روش میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنی لائحہ عمل میں جارحانہ رخ اختیار کیا جائے تو ہی کچھ تبدیلی آسکتی ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کررہے وہ تمام علماء چاہے وہ کسی بھی مسلک یا مکتب فکر ہو انہیں اگر اپنا وقار بچانا ہے تو منافقوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملک کے سیکولر طاقتوں کے ساتھ مل کر آواز اٹھانے کے لئے فیصلہ لینا ہوگا ۔ہماری یہ باتیں جوشیلی ہی صحیح لیکن صدفیصد ضروری ہیں ۔ اگر اب ایسارخ اختیار نہ کیا جائے تو کل ان باتوں کو سوچنے کے لئے بھی موقع نہ دیا جائے گا ۔ ملک کے حالات بسمل کی نظم کا وہ شعر بار بار یاد دلاتے ہیں جس میں رام پرساد بسمل نے کہا تھاکہ
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار
آئیں وہ شوقِ شہادت جن کے جن کے دل میں ہے

یقین جانئے جب مسلمان ان اشعار کے مطابق ذرا برابر بھی اپنےوجود کو جنبش دیگا تو ہندوستان میں ایک انقلاب برپا ہوگا اور یہ انقلاب نہ صرف مسلمانوں کے حق میں درست ثابت ہوگا بلکہ دلتوں ، غریبوں، مزدوروں کے حق میں بھی ایک نئی طاقت بن جائیگا ۔ کیوں ہم ہمارے ماضی کو بھلا رہے ہیں ۔ 1857 کے سے پہلے بھی مسلمانوںنے جنگ آزادی کا اعلان کیا تھا اور 1857 کے بعد بھی سب سے زیادہ مسلمانون نے ہی شہادت قبول کی ہے ، آخر وہ کونسی حرس مسلمانوں کو لئے ڈوبی جاری ہے جو آج شہادت و شجاعت سے مسلمانوں کو دور رہنے کے لئے مجبور کررہی ہے ۔ سوچئے ، فکر کیجئے اور اعلان کیجئے کہ اب انقلاب لانا ہی تو یقیناََاس سماج سے مرد مجاہد آگے بڑھیں گے ، بہت آگے بڑھیں گے اور ملک کو بچانے کے لئے اہم کردار اداکرینگے ۔


 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174996 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.