باپ کی حیثیت کسی بھی گھر میں ایک مرکز ایک چھت جیسی ہوتی
ہے ۔ باپ وہ ہستی ہوتا ہے جو گھر کے دیگر افراد کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو
خود کڑی دھوپ برداشت کرتا ہے مگر اپنے بچوں کو زمانے کی سختیوں سے بچا کر
ایک آرام دہ زندگی دینے کا خواہاں ہوتا ہے- مگر گزشتہ کئی سالوں سے جیسے
جیسے ہمارے طرز معاشرت میں تبدیلی آئی ہے گھروں میں باپ کے کردار میں بھی
واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے جس کا اثر ان کو پکارنے کے انداز پر بھی پڑا
ہے جس باپ کو ماضی میں ابو جی کے نام سے پکارا جاتا تھا وہ پہلے تو ڈيڈی
میں تبدیل ہوا اور اب بابا کہلایا جاتا ہے ان ناموں نے اس کے کردار پر کیسے
اثر ڈالا آج ہم آپ کو اس بارے میں ہی بتائيں گے-
|
|
1: ابو جی
ابو جی کا نام ذہن میں آتے ہی ریڑھ کی ہڈی میں ایک خوف کی لہر سے دوڑ جاتی
ہے ابو جی گھر کے وہ انسان ہوتے تھے جن کی گھر میں آمد کا مطلب ہوشیار باش
ہو جانا ہے ۔امی کے ساتھ ساتھ سارے بچے اپنے سارے کام چھوڑ کر ابو جی کو
سلام کرنے حاضر ہوتے امی بھی سر پر دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے ابو جی کے پاس
بیٹھ جاتیں ان کے لائے ہوئے سامان کے تھیلے سے سامان نکال کر سب چیزوں کو
ٹھکانے لگایا جاتا ان کو ٹھنڈا پانی پیش کیا جاتا اور سارے بچے کونے کھدروں
میں گھس کر بیٹھ جاتے یا بستہ کھول کر پڑھائی شروع کر دی جاتی ۔ ابو جی کے
ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے بھی تمام اصول و ضوابط کا خیال رکھا جاتا
کھانا کھاتے ہوئے انگلیاں سالن میں تر نہیں ہونی چاہیے ہیں پلیٹ میں چمچ کی
آواز نہیں آنی چاہیے ہے- ابو جی کو رپورٹ کارڈ دکھانا بھی اور اس پر ان کے
سائن لینا بھی جوۓ شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا گھر کے ہر بڑے چھوٹے کام کی
اجازت ابو جی سے لینا ضروری ہوتا تھا اور ابو جی کے جوتوں کی مار سال میں
ایک بار کسی ایک بچے کو پڑتی تھی مگر اس کا اثر ساری زندگی کے لیے ہوتا تھا-
|
|
2: ڈیڈی
زمانہ بدلا تو ابو جی ڈیڈی میں بدل گئے اور امی جی ممی بن گئیں اور یہاں
صرف نام ہی نہیں بدلا بلکہ پوری شخصیت ہی بدل گئی اب ڈیڈی وہ شخص ہے جو کہ
صرف حکمرانی پر یقین نہیں رکھتا بلکہ مساوات کا قائل ہے ڈيڈی گھر کے
معاملات میں یک طرفہ طور پر فیصلے کرنے کے بجائے ممی کی رائے کو بھی اہمیت
دیتے تھے اور بچوں کے ساتھ بھی مشاورت کے قائل تھے اور فیصلہ باہمی مشاورت
سے کرتے ۔ وہ اولاد کے اوپر حاکم بننے کے بجائے ان کے دوست کی حیثیت رکھتے
تھے اور براہ راست جوتا اتار کر مارنے کے بجائے بچوں کو اپنی صفائی کا موقع
بھی دیتے تھے- ڈیڈی کھانے پینے کے معاملے میں بھی نرمی کا مظاہرہ کرتے تھے
اور کھانا پسند نہ آنے کی صورت میں ابو جی کی طرح پلیٹ صحن میں اچھالنے کے
بجائے نرمی سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے اور ممی ان کو کچھ اور
بنا دیتی تھیں یا وہ کم ہی کھا کر ٹیبل سے اٹھ جاتے تھے-
|
|
3: بابا
زمانے نے اب جب کروٹ لی تو ڈیڈی بابا میں اور ممی ماما میں بدل گئيں اس دور
میں حقیقی معنوں میں ماما اور بابا کی حیثیت صرف اولاد کی دیکھ بھال کرنے
والوں تک محدود ہو گئی جن کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ انہوں نے ان بچوں کو
پیدا کیا ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ ان کے تمام اخراجات پورے کریں ۔ بابا
کی حیثیت اب صرف ایک اے ٹی ایم کارڈ کی رہ گئی جو کہ سارا دن کام کرنے کے
بعد جب گھر داخل ہوتا ہے تو گھر کے تمام افراد اس پر ایک اچٹتی سی نظر
ڈالنے سے زيادہ کچھ نہیں کرتے ہیں- یہی بابا جب کھانا مانگتا ہے تو ماما جو
کہ کسی ڈرامے میں مصروف ہوتی ہیں بابا کو انتظار کرنے کا کہہ دیتی ہیں کہ
صبر کریں ڈرامے میں وقفہ ہو تو دیتی ہوں جب کہ بچے موبائل فون یا اپنی دیگر
سرگرمیوں میں بدستور مصرف رہتے ہیں اور ان کو بابا صرف اسی وقت یاد آتے ہیں
جب ان کو کوئی فرمائش کرنی ہوتی ہے-
|
|
وقت اور زمانے کی یہ تبدیلی کس کروٹ بیٹھتی ہے اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں
سکتے مگر اپنے گھروں میں ہونے والی ان منفی تبدیلیوں کو ہونے سے روکنے کی
کوشش ضرور کر سکتے ہیں-
|