لینڈ ریکارڈ سنٹرز ملازمین اور دھرنا

لینڈ ریکارڈ کا محکمہ 2007 میں اس وقت کے وزیر اعلی پرویز الہی نے قائم کیا اور سب سے پہلے قصور اور حافظ آباد کے اضلاع میں پرائیویٹ کمپنیوں ابیکس، اے او ایس اور سسٹم لمیٹڈ نے پرت پٹوار کو سکین کرکے کمپیوٹرز میں اپ لوڈ کیا بعد ازاں اس سسٹم میں ضلع لودھراں کو بھی شامل کرلیا گیا شہباز شریف نے2010-11 میں اس نظام کو بہتر بنانے اور فعال کرنے کیلئے اپنی کاوشوں کا آغاز کیا اور چھ رکنی کمیٹی بنا کر سٹاف کی بھرتی کا عمل شروع کرایا ۔تقرری ناموں کی وصولی کے بعد ایس سی اوز کو ہیڈ آفس میں چھ ماہ کی تربیت دی گئی اور پھر انہیں متعلقہ جگہوں پر بھیج دیا گیا ۔اپنے علاقوں میں اپنے فرائض سنبھالنے کے بعد2011-14 تک ایس سی اوز اور دیگر عملے نے ویری فیکیشن کے عمل کو مکمل کیا او کم و بیش تمام مواضعات کو کمپیوٹرائزڈ کردیا گیا۔لینڈ ریکارڈ سنٹرز کے قیام میں آنے کے بعدپٹواریوں نے بہت شوور مچایا طرح طرح اور مختلف حیلے بہانوں سے اس کو مفلوج اور ناکام بنانے کی کوششیں ہوئی احتجاج، ہڑتال، دھرانے سیمینارز کا انعقاد کیا گیا لیکن حکومتی سختی سے اپنے موقف پر کاربند رہی اور یہ نظام اپنی افادیت اور بہتر کارکردگی کی وجہ سے عوام الناس میں مقبول ہوگیا اور اس کی شفافیت کی بنا پر اس کو مزید جلا ملی جبکہ روایتی پٹواری کلچر سے چھٹکارا بھی ملا۔ جس سے روایتی زمیندار، جاگیردار اور وڈیرے بھی جو کہ پٹواریوں کو اپنے گھر کی باندی اور لونڈی بنا کر رکھتے تھے اپنے ڈیروں پر بلا کر گھنٹوں بٹھا کر راتوں کو بلا کراپنی مرضی کی تقسیم کراتے تھے اس کا بھی خاتمہ ہوا محکمہ ریوینو کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا نام نہاد وڈیروں اور جاگیرداروں بھی یہ عمل انتہائی برا لگا لیکن مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق آخر کار حکومتی رٹ کے سامنے سر خم تسلیم کرتے ہوئے اس نظام کا حصہ بننا پڑا اور اراضی ریکارڈ سنٹر پر آکر اپنے امور سرانجام دینے پڑے جس سے ناانصافی اور کرپشن انتہائی حد تک کم ہوئی۔ 2017 میں اس ادارے کو باقاعدہ اتھارٹی کا درجہ دے دیا گیا اور 2017 میں ہی اس کی شفافیت کام کی برق رفتاری اور عوام الناس کو ملنے والے ریلیف کو دیکھتے ہوئے ورلڈ بنک نے اسے تعریفی سرٹیفیکیٹ سے بھی نوازا۔

معاملات میں خرابی اس قوت پیدا ہوئی جس 2016 سے اب تک ایس سی اوز کو سالانہ انکریکمنٹ نہ دی گئی جبکہ اسی دوران مختلف میٹنگز اور مذاکرات میں ہر مرتبہ لولی پاپ دے کر ٹرخادیا گیا ۔آخر کار یہ معاملہ شدت اختیار کرگیا اور دس بارہ سالہ سروس کرنے والے ملازمین نے اپنے حقوق کیلئے انتہائی اقدام اٹھانے کافیصلہ کیا اور لاہور میں اس سلسلے میں مختلف اوقات میں احتجاجی مظاہرے کئے اور آخری احتجاجی و دھرنا11 نومبر 2019 سے مال روڈ پرشروع ہوا جو کہ تا حال جاری ہے جس میں پنجاب بھر کے ایس سی اوز اور دیگر عملہ نے اپنے مطالبات کے حق میں دھرنے کے دوران اپنے مطالبات کے تسلیم کئے جانے کے حوالے سے تقاریر کیں اپنے مسائل بیان کئے مذاکرات کیلئے آنے والوں اور مذاکرات میں جاکر اپنے آئینی و قانونی حقوق کو ماننے کی درخواست کی یہ کہ انہیں سروس سٹرکچر دیا جائے جو کہ اتنے عرصہ کے بعد ان کا قانونی و جائز حق ہے ۔ تین سال سے نہ ملنے والی سالانہ انکریمنٹ کا اجرا کیا جائے ۔ملازمت پر مستقل کیا جائے ۔ جس طرح پٹواریوں کو فرد ملکیت پر 1/4 حصہ دیا جاتا ہے وہ ہمیں بھی دیا جائے ۔میوٹیشن کے معاملات میں بھی حصہ دیا جائے میڈیکل الاؤنس دیا جائے یہ وہی مطالبات ہیں جو کہ جنوری2019 میں ریونیو منسٹر ملک انورکے سامنے رکھے گئے تھے اور ان کو مانتے ہوئے تین ماہ میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کا وعدہ کیا گیا جو کہ وفا نہ ہوگا بلکہ چیئرمین لینڈ ریکارڈ اتھارٹی احمد علی دریشک ڈی جی حافظ شوکت و دیگر کی جانب سے ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کیا گیا اور مختلف انداز میں دھمکایا بھی گیا لیکن یہ ڈیڈ لا ک برقراررہا جس بنا پر 11 نومبر سے مستقل بنیادوں پر دھرنا اور احتجاج جاری ہے اور دوران ا حتجاج ہی تنظیم کے سر کردہ پانچ افراد میاں شاہد محمود قمر ابراہیم زین العابدین حسن میر اور حسنین بلال چیمہ کو ملازمت سے برخاستگی کے لیٹرز بھی جاری کردیئے جبکہ متعدد ایس سی اوز کو شوکاز بھی جاری کئے گئے ۔اس صورت حال پر سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی نے نوٹس لیتے ہوئے اپنی سرپرستی اور راجہ بشارت کی نگرانی میں یاور عباس ملک انور احمد علی دریشک حافظ شوکت سجاد احمدزین العابدین محمد طیب اور میاں شاہد پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی ہے جو کہ آج سے ہی اس ڈیڈ لاک کو ختم کرکے معاملہ کے حل کی کوئی بہتر راہ نکالے گی۔

واضح رہے کہ پنجاب بھر میں لینڈ ریکارڈ سنٹر پر عملہ کی ہڑتال اور آفس کی تالہ بندی کی وجہ سے حکومت کے خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے اسی طرح عوام الناس کو بھی شدید ذہنی و جسمانی اذیت کے ساتھ ساتھ مالی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے بہت سے لوگوں کے لین دین کاروبار ضمانتیں حتی کہ شادیاں کی التوا کا شکار ہوگئیں دیکھئے اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔
 

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211542 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More