اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے

 وطن عزیز کا ہر وہ شخص جومنہ کھول اور بامعنی لفظ بول سکتا ہے، بنا کسی ناپ تول کے اپنے اپنے ذوق اور ذاتی پسند نا پسند اپنی دانش کا بوجھ دل کھول کر ہمارے کانوں میں ’’رس ‘‘کی طرح گھول رہا ہے ۔
جسے دیکھو برقی میڈیا پر
’’ میرے مطابق ‘‘
کے بینر تلے، خطابت کی بجلیاں گراتا اور علم وعرفان کے دریا بہاتا دکھائی دیتا ہے۔

مذہب کی طرح اس کارِخیر میں بھی بنیادی اہلیت محض اتنی سی ہے کہ انسان کو بس بولنا آتا ہو(اچھا بولنا بھی ضروری نہیں ۔بلکہ یہی خامی جلد مقبولیت اور ہر دل عزیزی کی کلید ہے اور آج کل بہت اِن بھی ) ۔اس لایعنی بحث مباحثے کے ماہرین گھروں ،چائے کے ہوٹلوں،تھڑوں،سیاسی و غیرسیاسی ڈیروں،نجی محفلوں،بیٹھکوں،دفاتر الغرض ہر جگہ باافراط پائے جاتے ہیں۔جو کسر باقی تھی وہ ٹی وی کے’’ کرنٹ چھوڑتے ‘‘کرنٹ افئیرز کے پروگرامز نے پور ی کر دی ہے۔ اب وہاں ہر روز ایک میلے کا سا سماں ہوتا ہے اور ہر وہ منظر صاف دکھائی دیتا ہے جوکسی بھی اچھے میلے کا بنیادی وصف گردانا جاتا ہے۔ان سب کی خوش نصیبی دیکھئے کہ قریبی لوگوں کو ہر روز زچ اور بور کرنے کا یہ عمل جو پہلے مفت میں سر انجام دیا کرتے تھے اب اسکا تگڑا سا’’ محنتانہ ‘‘بھی وصولتے ہیں ۔اس بات نے جہاں ان باتونیوں میں بجلی سی بھر دی ہے وہیں انکے قریبی روفقاء کو بھی سجدہ شکر بجا لانے کا موقع فراہم کیا ہے ۔وہ تو واقعی اس بات پر ایمان کی حد تک یقین کئے بیٹھے تھے کہ یہ عذاب ان سب کی جان لئے بنا ٹلنے والا ہرگز نہیں۔ایسے میں انکا بارگاہِ ایزدی میں شکر بجا لانا تو بنتا ہی ہے (ان لوگوں کو اس کی پرواہ ہی کب ہے کہ وہ تو بچ گئے لیکن اب پوری قوم کی جان عذاب میں ہے )۔ یہ ’’ بڑبولے سیاپا فروش ‘‘شام کو ’’اوور ٹائم ‘‘ لگانے کیلئے کسی ٹی وی کا رخ کرتے ہیں(اور ایسے ٹی وی اسٹیشن اب ہر گلی محلے میں پائے جاتے ہیں) اور پرائم ٹائم بڑے پریم سے ناس کرتے ہیں۔سینئر کالم نویس،نامور تجزیہ نگار،دفاعی امور کے ماہر،مشہور دانش ور،چنگ چی پارٹی کے مرکزی رہنما اور جنرل سیکریٹری ،ممتازسوشل ورکر،سابقہ جسٹس صاحب،ریٹائرڈجنرل صاحب ۔۔کے جیسے دیہاڑی دار مزدوروں کے بارے میں ایک مشہور کالم نگار کچھ زیادہ ہی عاجز آ گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ سینئر اس لئے ہیں کہ جوانی میں فوت نہیں ہو گئے(ہماری ’’خوش بختی‘‘)۔بس جناب ان سے فرار کی ’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘اور نہ ان سے جان چھوٹنے کی ’’کوئی امید بر آتی‘‘ ہے۔
بعض دفعہ’’ ارتھ‘‘کے باعث نوبت ہاتھا پائی تک بھی جا پہنچتی ہے ۔سو سیانے ہاتھ ذرا ہولا رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ دوچار بندے بطور گارڈ ہمراہ لانا ہرگز نہیں بھولتے۔دور ازکار خدشات،واہمات اور خیالات و نظریات برداشت کرنا یقیناً غیر معمولی بات ہے ۔
ایسے میں مخالف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے دیکھا تو راہِ فرار میں عافیت جانی۔ اسے بزدلی کا نام دینا آپ کی مصلحت نا اندیشی سمجھا جائے گا۔
اور یہ بھی کہ آپ دور اندیشی سے ابھی خاصے دور بلکہ دور دور پائے جاتے ہیں ۔آپ ہی بتائیں ہتھ چھٹ قسم کے لوگوں سے بچنے کا اس سے موثر طریقہ اور کون سا ہو سکتا ہے ؟۔
آپکا اسے راہِ فرار کی بجائے’’ وقتی سیز فائر‘‘
تصور کرنا سب پر آپکی دانش مندی عیاں کر دے گا۔
اس سلسلہ میں مختلف ’’سیاہ سی‘‘ جماعتوں کے رہنماؤں ، تجزیہ کاروں اور صاحبانِ صحافت کا طرزِ عمل خاص طور پر نا قا بل ذکر ہے ۔لیکن ذکر کیا جانا ہماری مجبوری سمجھئے کہ ان کے کارناموں کا پردہ چاک کرنا محض اسی صورت میں ممکن ہے کہ کھل کر اس پر بات کی جائے ۔جہاں آپ نے اتنے بہت سے لوگوں کی باتیں سن لیں وہیں اس ناچیز کی بھڑاس سننے میں آخر قباحت کیاہے؟
اور ویسے بھی تو اب آپ لوگ سننے سنانے اور سنی سنائی پر کان دھرنے کے عادی سے ہو چلے ہیں۔
جب یہ نسیان زدہ دانش ور اپنی کسی بات کا بڑے زور سے دفاع کرتے ہوئے شور مچا رہے ہوتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے جس ’’کامل‘‘ نظریے کی وہ سب سے تائید چاہ رہے ہیں اس کو بیان فرماتے ہوئے تھوڑی دیر قبل ہی انہوں نے اپنی بات کی شروعات ’’ریاکارانہ بلکہ عیارانہ انکساری‘‘ سے کچھ یوں کی تھی ’’دیکھیں جناب میری ناقص رائے میں یہ بات کچھ یوں ہے‘‘۔کوئی پوچھے، صاحب ابھی توآپ خود اعتراف کر چکے ہیں کہ یہ میری ناقص رائے ہے تو پھر اب اس پر اتنا اصرار کیوں ؟
اور اس طرح آگ بگولہ ہونا چہ معنی دارد۔
کیا اکثر دانش وروں میں ذہنی و قلبی کشادگی اور حلیمانہ لچک کی بجائے مغرورانہ ہٹ دھرمی اور ضدی پن انکی محدود و ناقص ذہنیت کی عکاسی نہیں کرتا ۔اور پھر ہمارے سیاسی رہنما ؤں(جو کم و بیش ہر ایک سیاسی ورکر کو کہہ دیا جاتا ہے) کی حالت تو اور بھی گئی گزری ہے ۔کسی دوسری سیاسی پارٹی کی نااہلی ثابت کرتے ہیں تو اسکا واحد مقصد محض اپنی نا لائقی چھپانا اور سابقہ غلطیوں کا جواز تراشنا ہوتا ہے کہ ہم اگر ناکام رہے تھے تو موجودہ حکومت نے کونسا تیر مار لیا ہے ۔کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہو جائے تو ان کے چہروں سے پھوٹتی خوشی کی چمک قوم کا دل جلانے کو کافی ہوتی ہے ۔سیاسی پوائنٹ سکورنگ انکے دلی جذبات عیاں کر دیتی ہے کہ انہیں قوم کا کتنا درد ہے؟اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب کسی پارٹی کا کوئی ورکر کسی واقعے میں جاں بحق ہو جائے یا گرفتار کر لیا جائے تو اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتاہے کہ ہمارے ورکرز چن چن کر مارے جا رہے ہیں انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ۔۔اس وقت مجھے اپنی قوم کے باقی تمام افراد بے توقیر و بے مول لگنے لگتے ہیں۔اب جہاں انکے لئے دل میں بے پناہ محبت پیدا ہوتی ہے وہیں ان ’’سیاہ سی‘‘جماعتوں کے لئے شدید ترین نفرت آمیز غصہ جنم لیتا ہے اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ غصے کا یہ بوجھ کہاں اتاروں؟ان دھواں چھوڑتے پروگراموں کے نوجوان اینکررز نے بطور خاص مجھے بہت مایوس کیا ہے۔زور زور سے بولنا ،بات کاٹنا،حفظ مراتب کی پرواہ نہ کرنا ،خود ایک پارٹی بن جانا،کج بحثی کرنا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مہمانوں کیلئے کمرہ عدالت کا سا ماحول بنا دینا ایسی باتیں ہیں کہ جنہیں کبھی بھی خوش آئند قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس ساری کارگزاری کا حاصل یہ ہے کہ قوم ہر ایشو پر شش و پنج میں مبتلا دکھائی دیتی ہے ۔میری نظر میں ہم’’ دی موسٹ کنفیوزڈ نیشن آف دی ورلڈ‘‘ قرار دئیے جا سکتے ہیں ۔ہم معاشرے میں روا داری ،بردباری اوربرداشت ناقابل یقین حد تک کم ہو چکی ہے۔با الفاظِ دیگر اب ہم متوازن سوچ کے حامل نہیں رہے ( سوشل میڈیا کے مجاہدین کا اخلاقی معیار اس تاثر کی ایک روشن مثال ہے) ۔جب توازن بگڑتا ہے تو بات بھی بگڑتی ہے ۔ٹھوکر بھی ضرور لگتی ہے ۔آج دانش وروں کی شبانہ روز’’ کاوشوں‘‘ کے سبب ’’ٹھیک آپ بھی کہہ رہے ہیں اور غلط میں بھی نہیں کہتا‘‘ کی سی صورت پیدا ہو گئی ہے ۔آج کے اہم ترین ایشو یعنی طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے ہمارا قومی رویہ اسی سوچ کا عکاس ہے جسکا ذکر ابھی اوپر ہو اہے۔پہلے کہا گیا دشمن قوتیں مذاکراتی عمل کو تباہ کرنے پر تلی ہیں پھر جب فوجیوں پر حملہ ہوا اور پشاور کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا تو مذاکراتی عمل کو ہی امریکی سازش اور بزدلی سے تعبیر کیا جانے لگا ۔اکثر حلقے جواے پی سی کے متفقہ اعلامیے کے حق میں نظر آتے تھے،ایک دم بپھر سے گئے ۔اب صورت حال یہ ہے کہ ہر آواز مذاکرات کا ٹھٹھہ اڑاتی اور اسے ملک دشمنی قرار دیتی دکھائی دیتی ہے۔جلتی پر تیل کا کام کپتان کے کچھ انوکھے بیانات نے کیا ہے سو کیفیت یہ ہے کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ جیسی کوئی دعا مانگنے کی بھی ضرورت باقی نہیں رہی کہ بنا مانگے یہ ’’دعا‘‘ قبول ہو چکی ہے۔نا معقولیت کے اس شور شرابے میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی کہ سارے اپنی اپنی ہانک رہے ہیں اور صرف اپنی بات کے معقول ہونے پر مصر ہے۔مانا سیز فائر کے بغیر مذاکراتی فیصلہ مایوس کن ہے ۔یہ بھی تسلیم کہ گرفتار دہشت گردوں کی رہائی ریاستی اداروں کی ناکامی ہے۔ اب مذاکرات کے تمام مخالفین سے میرا بھی ایک سوال ہے کہ آپ دس سال تک کیا کرتے رہے رہے ہیں ؟کیا آپ کی فوج نے جنگ نہیں کی؟کیا اب تک وہ طالبان کو ہار پہناتے رہے ہیں؟یہ سارا عرصہ آپ ان سے لڑتے ہی رہے ہیں جناب۔اب آپ کونسی نئی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں جو پہلے سے جاری جنگ سے کچھ مختلف ہوگی ؟جناب جھگڑے تو مذاکراتی عمل سے نمٹائے جاتے ہیں ۔جنگ کی طرح یہ بھی قیام امن کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔اگر طالبان آئین کو تسلیم نہیں کرتے تو یہی بات ہر آئین شکن وطن عزیز کاہر وہ شخص جومنہ کھول اور بامعنی لفظ بول سکتا ہے، بناکسی ناپ تول کے اپنے اپنے ذوق اورذاتی پسند نا پسند کے مطابق اپنی دانش کا بوجھ دل کھول کرہمارے کانوں میں ’’رس ‘‘کی طرح گھول رہا ہے ۔جسے دیکھو برقی میڈیا پر ’’ میرے مطابق ‘‘ کے بینر تلے، خطابت کی بجلیاں گراتا اور علم وعرفان کے دریا بہاتا دکھائی دیتا ہے۔مذہب کی طرح اس کارِخیر میں بھی بنیادی اہلیت محض اتنی سی ہے کہ انسان کو بس بولنا آتا ہو(اچھا بولنا بھی ضروری نہیں ۔بلکہ یہی خامی جلدمقبولیت اور ہر دل عزیزی کی کلید ہے اور آج کل بہت اِن بھی ) ۔اس لایعنی بحث مباحثے کے ماہرین گھروں ،چائے کے ہوٹلوں،تھڑوں،سیاسی و غیرسیاسی ڈیروں،نجی محفلوں،بیٹھکوں،دفاتر الغرض ہر جگہ باافراط پائے جاتے ہیں۔جو کسر باقی تھی وہ ٹی وی کے’’ کرنٹ چھوڑتے ‘‘کرنٹ افئیرزکے پروگرامز نے پور ی کر دی ہے۔ اب وہاں ہر روز ایک میلے کا سا سماں ہوتا ہے اور ہر وہ منظر صاف دکھائی دیتا ہے جوکسی بھی اچھے میلے کا بنیا دی وصف گردانا جاتا ہے۔ان سب کی خوش نصیبی دیکھئے کہ قریبی لوگوں کوہر روز زچ اور بور کرنے کایہ عمل جو پہلے مفت میں سر انجام دیا کرتے تھے اب اسکا تگڑا سا’’ محنتانہ ‘‘بھی وصولتے ہیں ۔اس بات نے جہاں ان باتونیوں میں بجلی سی بھر دی ہے وہیں انکے قریبی روفقاء کو بھی سجدہ شکر بجا لانے کا موقع فراہم کیا ہے ۔وہ تو واقعی اس بات پر ایمان کی حد تک یقین کئے بیٹھے تھے کہ یہ عذاب ان سب کی جان لئے بنا ٹلنے والا ہرگز نہیں۔ایسے میں انکا بارگاہِ ایزدی میں شکر بجا لانا تو بنتاہی ہے (ان لوگوں کو اس کی پرواہ ہی کب ہے کہ وہ تو بچ گئے لیکن اب پوری قوم کی جان عذاب میں ہے )۔ یہ ’’ بڑبولے ‘‘شام کو ’’اوور ٹائم ‘‘ لگانے کیلئے کسی ٹی وی کا رخ کرتے ہیں(اور ایسے ٹی وی اسٹیشن اب ہر گلی محلے میں پائے جاتے ہیں) اور پرائم ٹائم بڑے پریم سے ناس کرتے ہیں۔سینئر کالم نویس،نامور تجزیہ نگار،دفاعی امور کے ماہر،مشہور دانش ور،چنگ چی پارٹی کے مرکزی رہنما اور جنرل سیکریٹری ،ممتازسوشل ورکر،سابقہ جسٹس صاحب،ریٹائرڈجنرل صاحب ۔۔کے جیسے دیہاڑی دار مزدوروں کے بارے میں ایک مشہور کالم نگار کچھ زیادہ ہی عاجز آ گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ سینئر اس لئے ہیں کہ جوانی میں فوت نہیں ہو گئے(ہماری ’’خوش بختی‘‘)۔بس جناب ان سے فرار کی ’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘اور نہ ان سے جان چھوٹنے کی ’’کوئی امید بر آتی‘‘ ہے۔بعض دفعہ’’ ارتھ‘‘کے باعث نوبت ہاتھا پائی تک بھی جا پہنچتی ہے ۔سو سیانے ہاتھ ذرا ہولا رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ دوچار بندے بطور گارڈہمراہ لانا ہرگز نہیں بھولتے۔دور ازکار خدشات،واہمات اور خیالات و نظریات برداشت کرنا یقیناًغیر معمولی بات ہے۔ایسے میں مخالف کے صبر کاپیمانہ لبریز ہوتے دیکھا تو راہِ فرار میں عافیت جانی۔ اسے بزدلی کا نام دینا آپ کی مصلحت نا اندیشی سمجھاجائے گا۔اور یہ بھی کہ آپ دور اندیشی سے ابھی خاصے دور بلکہ دور دور پائے جاتے ہیں ۔آپ ہی بتائیں ہتھ چھٹ قسم کے لوگوں سے بچنے کا اس سے موثر طریقہ اور کون سا ہو سکتا ہے ؟۔آپکا اسے راہِ فرار کی بجائے’’ وقتی سیز فائر‘‘تصور کرنا سب پر آپکی دانش مندی عیاں کر دے گا۔
اس سلسلہ میں مختلف ’’سیاہ سی‘‘ جماعتوں کے رہنماؤں ، تجزیہ کاروں اور صاحبانِ صحافت کا طرزِ عمل خاص طور پر نا قا بل ذکر ہے ۔لیکن ذکر کیا جانا ہماری مجبوری سمجھئے کہ ان کے کارناموں کا پردہ چاک کرنا محض اسی صورت میں ممکن ہے کہ کھل کر اس پر بات کی جائے ۔جہاں آپ نے اتنے بہت سے لوگوں کی باتیں سن لیں وہیں اس ناچیز کی بھڑاس سننے میں آخر قباحت کیاہے؟اور ویسے بھی تو اب آپ لوگ سننے سنانے اور سنی سنائی پر کان دھرنے کے عادی سے ہو چلے ہیں۔جب یہ نسیان زدہ دانش ور اپنی کسی بات کا بڑے زور سے دفاع کرتے ہوئے شور مچا رہے ہوتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے جس ’’کامل‘‘ نظریے کی وہ سب سے تائید چاہ رہے ہیں اس کو بیان فرماتے ہوئے تھوڑی دیر قبل ہی انہوں نے اپنی بات کی شروعات ’’ریاکارانہ بلکہ عیارانہ انکساری‘‘ سے کچھ یوں کی تھی ’’دیکھیں جناب میری ناقص رائے میں یہ بات کچھ یوں ہے‘‘۔کوئی پوچھے، صاحب ابھی توآپ خود اعتراف کر چکے ہیں کہ یہ میری ناقص رائے ہے تو پھراب اس پر اتنا اصرار کیوں ؟اور اس طرح آگ بگولہ ہونا چہ معنی دارد۔کیا اکثر دانش وروں میں ذہنی و قلبی کشادگی اور حلیمانہ لچک کی بجائے مغرورانہ ہٹ دھرمی اور ضدی پن انکی محدود و ناقص ذہنیت کی عکاسی نہیں کرتا ۔اور پھر ہمارے سیاسی رہنما ؤں(جو کم و بیش ہر ایک سیاسی ورکر کو کہہ دیا جاتا ہے) کی حالت تو اوربھی گئی گزری ہے ۔کسی دوسری سیاسی پارٹی کی نااہلی ثابت کرتے ہیں تو اسکا واحد مقصدمحض اپنی نا لائقی چھپانا اور سابقہ غلطیوں کا جواز تراشنا ہوتا ہے کہ ہم اگر ناکام رہے تھے تو موجودہ حکومت نے کونسا تیر مار لیا ہے ۔کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہو جائے تو ان کے چہروں سے پھوٹتی خوشی کی چمک قوم کا دل جلانے کو کافی ہوتی ہے ۔سیاسی پوائنٹ سکورنگ انکے دلی جذبات عیاں کر دیتی ہے کہ انہیں قوم کا کتنا درد ہے؟اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب کسی پارٹی کا کوئی ورکر کسی واقعے میں جاں بحق ہوجائے یا گرفتار کر لیا جائے تو اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتاہے کہ ہمارے ورکرز چن چن کر مارے جا رہے ہیں انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ۔۔اس وقت مجھے اپنی قوم کے باقی تمام افراد بے توقیر و بے مول لگنے لگتے ہیں۔اب جہاں انکے لئے دل میں بے پناہ محبت پیدا ہوتی ہے وہیں ان ’’سیاہ سی‘‘جماعتوں کے لئے شدید ترین نفرت آمیز غصہ جنم لیتا ہے اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ غصے کا یہ بوجھ کہاں اتاروں؟ان دھواں چھوڑتے پروگراموں کے نوجوان اینکررز نے بطور خاص مجھے بہت مایوس کیا ہے۔زور زور سے بولنا ،بات کاٹنا،حفظ مراتب کی پرواہ نہ کرنا ،خود ایک پارٹی بن جانا،کج بحثی کرنا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مہمانوں کیلئے کمرہ عدالت کا سا ماحول بنا دینا ایسی باتیں ہیں کہ جنہیں کبھی بھی خوش آئند قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس ساری کارگزاری کا حاصل یہ ہے کہ قوم ہر ایشو پر شش و پنج میں مبتلا دکھائی دیتی ہے ۔میری نظر میں ہم’’ دی موسٹ کنفیوزڈ نیشن آف دی ورلڈ‘‘ قرار دئیے جا سکتے ہیں ۔ہم معاشرے میں روا داری ،بردباری اوربرداشت نا قابل یقین حد تک کم ہو چکی ہے۔با الفاظِ دیگراب ہم متوازن سوچ کے حامل نہیں رہے ( سوشل میڈیا کے مجاہدین کا اخلاقی معیار اس تاثر کی ایک روشن مثال ہے) ۔جب توازن بگڑتا ہے تو بات بھی بگڑتی ہے ۔ٹھوکر بھی ضرور لگتی ہے ۔آج دانش وروں کی شبانہ روز’’ کاوشوں‘‘ کے سبب ’’ٹھیک آپ بھی کہہ رہے ہیں اورغلط میں بھی نہیں کہتا‘‘ کی سی صورت پیدا ہو گئی ہے ۔آج کے اہم ترین ایشو یعنی طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے ہمارا قومی رویہ اسی سوچ کا عکاس ہے جسکا ذکر ابھی اوپر ہو اہے۔پہلے کہا گیا دشمن قوتیں مذاکراتی عمل کو تباہ کرنے پر تلی ہیں پھر جب فوجیوں پر حملہ ہوا اور پشاور کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا تو مذاکراتی عمل کو ہی امریکی سازش اور بزدلی سے تعبیر کیا جانے لگا ۔اکثر حلقے جواے پی سی کے متفقہ اعلامیے کے حق میں نظر آتے تھے،ایک دم بپھر سے گئے ۔اب صورت حال یہ ہے کہ ہر آواز مذاکرات کا ٹھٹھہ اڑاتی اور اسے ملک دشمنی قرار دیتی دکھائی دیتی ہے۔جلتی پر تیل کا کام کپتان کے کچھ انوکھے بیانات نے کیا ہے سو کیفیت یہ ہے کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ جیسی کوئی دعا مانگنے کی بھی ضرورت باقی نہیں رہی کہ بنا مانگے یہ ’’دعا‘‘ قبول ہو چکی ہے۔نا معقولیت کے اس شور شرابے میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی کہ سارے اپنی اپنی ہانک رہے ہیں اور صرف اپنی بات کے معقول ہونے پر مصر ہے۔مانا سیز فائر کے بغیر مذاکراتی فیصلہ مایوس کن ہے ۔یہ بھی تسلیم کہ گرفتار دہشت گردوں کی رہائی ریاستی اداروں کی ناکامی ہے۔ اب مذاکرات کے تمام مخالفین سے میرا بھی ایک سوال ہے کہ آپ دس سال تک کیا کرتے رہے رہے ہیں ؟کیا آپ کی فوج نے جنگ نہیں کی؟کیا اب تک وہ طالبان کو ہار پہناتے رہے ہیں؟یہ سارا عرصہ آپ ان سے لڑتے ہی رہے ہیں جناب۔اب آپ کونسی نئی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں جو پہلے سے جاری جنگ سے کچھ مختلف ہوگی ؟جناب جھگڑے تو مذاکراتی عمل سے نمٹائے جاتے ہیں ۔جنگ کی طرح یہ بھی قیام امن کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔اگر طالبان آئین کو تسلیم نہیں کرتے تو یہی بات ہرآئین شکن مجرم کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے ۔ قوم کو مزید کنفیوز اور نیتوں پر شک کرنے کی بجائے خود بھی اپنے حصہ کام کیجئے اور دوسروں کو بھی یہی کرنے کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے ۔ قوم کو مزید کنفیوز اور نیتوں پر شک کرنے کی بجائے خود بھی اپنے حصہ کام کیجئے اور دوسروں کو بھی یہی کرنے دیجیے -

Safdar Ali
About the Author: Safdar Ali Read More Articles by Safdar Ali: 77 Articles with 63202 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.