آیت نمبر 1 تا 7 میں قرآن کی حقانیت اور توحید باری تعالی
پر کائناتی دلائل کا ذکر ہے آسمان بغیر ستونوں کے بلند ہیں ، سورج اور چاند
ایک ضابطے کےپابند ہیں، زمین کی وسعت ، پہاڑوں کا ٹھراؤ ، دریاؤں کی روانی
، نظام لیل و نہار میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
آیت نمبر 8 تا 12 میں بتایا گیا ہے کہ اللہ ہر ظاہر اور پوشیدہ چیز کا
جاننے والا ہے اور مادہ کے حمل اور رحم کے حالات کو جاننے والا ہے۔۔ وہ
ہونے والی سرگوشیوں اور بلند آواز سے ہونے والی گفتگو کو بھی جانتا ہے ۔۔۔
آگے چل کے قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ قوموں کے
حالات اس وقت بدلا کرتے ہیں جب وہ خود چاہیں۔
آیت نمبر 13 میں رعد کا ذکر ہے ایک حدیث کی رو سے رعد اس فرشتے کا نام ہے
جو بادلوں کو چلانے پر مامور ہے یا پھر رعد اجسام فلکی یا بادلوں کی رگڑ سے
جو آواز پیدا ہوتی ہے کو کہتے ہیں ۔۔چنانچہ فرمایا گیا یسبح الرعد بحمدہ۔۔
آیت نمبر 16 تا 17 میں مذکور ہے کہ کافر باطل معبودوں کی پرستش کرتے ہیں
اللہ کو چھوڑ کر حالانکہ وہ اپنے نفع و نقصان کے بھی مالک نہیں، کیا بینا
اور نابینا ، ظلمت اور نور برابر ہوسکتے ہیں؟۔۔ پھر آگے باطل اور اہل باطل
کو سیلابی جھاگ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ باطل بظاہر ہر چیز پر چھایا ہوتا ہے
لیکن آخر میں زائل ہوجاتا ہے۔۔ آگے حق اور اہل حق کو سونے چاندی سے تشبیہ
دی گئی ہے کہ جو زمین پر ٹھہرا رہتا ہے پھر آگ میں تپ کر بالکل خالص ہوجاتا
ہے ۔۔
آیت نمبر 19 تا 26 میں متقین کی آٹھ صفات مذکور ہیں ۔۔ پھر بدبخت کی تین
صفات مذکور ہیں۔۔
آیت نمبر 27 تا 31 میں اطمینان قلب کو ذکر اللہ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے کہ
اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔۔ پھر آگے مشرکین کے بے جا
مطالبات کا جواب دیا گیا کہ سب اللہ کے اختیار مخں ہے ۔۔ پھر مسلمانوں کو
حوصلہ دیا گیا ہے کہ کافروں کی باتوں سے افسردہ نہ ہوں۔ اگر اللہ چاہتا تو
سب اطاعت گزار ہوتے لیکن اس نے اختیار دیا اوع اس میں حکمت یہ ہے کہ سب کو
ان کے کیے مطابق جزاء و سزاء ملے۔
آیت نمبر 38 تا 43 میں ہے کہ انبیاء کرام سب کے سب جو آپ سے پہلے مبعوث
ہوئے بشر ہیں انکی بیویاں بھی تھیں اور بچے بھی تھے آگے چل کر بتایا کہ محض
کفار کی فرمائش پر نہیں بلکہ اللہ کے اذن سے معجزات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔۔
• تعداد رکوع، آیات، حروف اور کلمات:
6 رکوع ،43 آیات ، 854 کلمات، 3450 حروف
• وجہ تسمیہ:
ا س سورت کا نام آیت نمبر 13 میں مذکور لفظ ’’اَلرَّعْدُ‘‘ کی مناسبت سے
رکھا گیا ہے۔
• سورة الرعد کی فضیلت:
حضرت جابر بن زیدرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب کسی انسان
کی موت کا وقت قریب آ جائے تو مستحب یہ ہے کہ ا س کے پاس سورۂ رعد پڑھی
جائے کیونکہ یہ مرنے والے کیلئے آسانی کا اوراس کی روح قبض ہونے میں تخفیف
کا سبب ہو گی ۔ (در منثور، سورۃ الرعد)
|