یہ محض اتفاق ہی ہے کہ امام حرم
الشیخ عبدالرحمٰن السدیس کی ہند تشریف آوری سے چار روز قبل (۰۲ مارچ کو )
فلوریڈا کے ایک پادری ٹیری جانس نے مبینہ طور قرآن کو نذر آتش کر کے دین
اسلام کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالی جس کی دنیا بھر میں عیسائی بھی مذمت
کر رہے ہیں۔ ٹیری جانس نے گزشتہ سال،۹نومبر کو نیویارک ورلڈ سنٹر کی نویں
سالگرہ کے موقع پر قرآن کو جلانے کی دھمکی دی تھی جس کی مشتہری سے پریشان
ہوکر امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو مداخلت کرنی پڑی تھی اور ٹیری
جانس کو یہ بتانا پڑا تھا کہ ایسا کرنا امریکی مفادات کے منافی اور مسلم
مملک پر قابض امریکی افواج کے لئے خطرہ ہے۔ چنانچہ اس وقتی طور سے وہ اپنے
اس ناپاک ارادے سے باز آ گیا۔ یورپی معاشرے نے اس طرح کی حرکت کو رواداری
کی اس روایت کے خلاف قرار دیا جس کو وہ اپنی شناخت تصور کرتا ہے۔ ٹیری جانس
مدت سے پادریوں کے درمیان ایک متنازعہ شخصیت ہے اور اپنی بد اعمالیوں کی
بدولت معتوب بھی ہوا ہے۔ اب وہ جس خود ساختہ چرچ کا سربراہ ہے اس کے ممبران
کی تعداد پچاس سے زیادہ نہیں ۔ اپنی ان حرکتوں کے ذریعہ وہ شہرت حاصل کرنا
چاہتا ہے ۔ اس کو شہرت تو ملی مگر لعنت ملامت کے ساتھ۔
اس مرتبہ اس کی اس حرکت نازیبا کو میڈیا نے سابق کی طرح اچھالا نہیں۔اگرچہ
جانس نے اعلان کیا تھا کہ اس نے قرآن جلانے کا ارادہ ہمیشہ کے لئے ترک
کردیا مگر کم ہی لوگوں نے اس کا یقین کیا۔ اب ۰۲ اپریل کو اس نے چرچ میں
ایک عدالت لگانے کا ڈرامہ کیا جس میں خود جج بنا۔ کتاب اللہ پر قتل، زنا
اور دہشت گردی جیسے الزامات عائد کر کے گویا مقدمہ چلایا۔ چھ گھنٹے کے
ڈرامہ کے آخر میں اس نے اعلان کیا کہ قرآن کے خلاف سارے جرم ثابت ہوتے ہیں
اس لئے اس کو خاکستر کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک کتاب کو جلایا
گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ کتاب قرآن حکیم تھی۔اب اس نے یہ ارادہ ظاہر
کیا ہے کہ ایسا ہی مقدمہ خود رسول رحمت پر بھی چلایا جاسکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ یہ واقعہ ایک پاگل پن کے سوا کچھ نہیں اور اسکا ایک اثر یہ
ہوا ہے کہ یورپ میں اسلام کی طرف توجہ بڑھی ہے اور بڑی تعداد میں لوگ
اسلامی تعلیمات سے اس کے باوجود متاثر ہورہے ہیں کہ ہم مسلمان اپنے کردار
سے ان تعلیمات کو پیش کرنے میں ناکام ہیں ۔ لیکن بہر حال اس کی اس حرکت کی
غیر مسلم بھی مذمت کر رہے ہیں لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے
جن سیاست گزیدہ بزرگوں نے ’عظمت صحابہ ‘ کا بکھان کرنے کے لئے کروڑوں روپیہ
خرچ کر کے لاکھوں افراد کو رام لیلا میدان میں جمع کیا ان کو اس شنیع حرکت
پر اظہار ناگواری تک کا خیال نہیں آیا۔اگر آیا بھی تو اس طرح کہ اخباروں
میں مطلق کوئی ذکر نہیں۔اس مصلحت آمیز خاموشی کا مطلب سمجھنے سے ہم قاصر
ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام کی عظمت ان دلوں میںکیسے راسخ ہوسکے
گی جن کی زندگیوں سے شعوری طور سے عظمت قرآن اور فہم قرآن کی روایت کو خارج
کیا جارہا ہے؟ مساجد میں ترجمہ قرآن کی یہ کہہ کر حوصلہ شکنی کی جارہی ہے
کہ قرآن فہمی سے گمراہ ہوجانے کا اندیشہ ہے۔استغفراللہ۔ پہلے یہ صورتحال
اصلاح کی طالب ہے اور ترتیب یوں ہونی چاہئے کہ پہلے عظمت قرآن ، اس کی
تعلیمات اور سنت نبوی کے روشنی میں اس پر عمل ، بعد میں کچھ اور۔عظمت صحابہ
کی بنیاد بھی قرآن پر ان کا غیرمتزلزل ایمان(صرف عقیدت نہیں) اور اس پر
پورا پورا عمل کے سوا کیا ہے؟قرآن کی تعلیمات کا فہم عام کئے بغیر اور اللہ
سے مضبوط تعلق پیدا کئے بغیر محض فضائل کے بیان سے گوہر مقصود کیونکر ہاتھ
آئیگا؟
اس کانفرنس کے ظاہری کروفر کو دیکھ کر بھی یہ کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ اس
کے لائق صد احترام داعیان کرام نے اس بنیادی حقیقت کو پس پشت ڈال دیا کہ
صحابہ کی عظمت کی شاہ کلید حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہما کی سیرت مبارکہ میں سادگی اور تواضع میں تلاش کی جانی چاہئے ، اس
شاہانہ کروفر میں نہیں جو خلفائے راشدین کے مبارک دور کے خاتمہ کے بعد مسلم
حکمرانوں کا وطیرہ بن گیا تھا ۔ عظمت صحابہ کا بیان اور ان کے فضائل برابر
مساجد میں بیان ہوتے ہیں لیکن سب بے سود۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ بیان کرنے
والا اپنے قول و عمل میں اس کا نمونہ پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے۔غور کیجئے
حضرات صحابہ کرام ؓ اقتدار وقت کے سامنے بے خوف تھے اور ہم ہر صاحب اقتدار
کے سامنے سرنگوں۔
امام حرم کا رتبہ یقیناً بڑا عظیم ہے۔حرم کی امامت بہت بڑی سعادت ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ لاکھوں فرزندان توحید ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے ، ان کا خطاب
سننے اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیتاب اپنا کام کاج چھوڑ کر گھروں
سے نکل پڑے اور دور دراز کا سفر کر کے دہلی یا دیوبند تشریف لائے۔اللہ ان
کے اخلاص کو قبول کرے اور اس کی برکت سے ملت کو سرفراز فرمائے ۔ لیکن یہ
سوال بہرحال اپنی جگہ ہے کہ ایسے تناظر میں جب کہ پورا عالم اسلام شدید
خلفشار اور خون خرابے میں گرفتار ہے، اسلامی دنیا کو شیعہ اور سنی میں
تقسیم کر کے کمزور کرنے کی صہیونی سازش عروج پر ہے،اور پورا اسلامی خطہ
استعماریت کی زد پر ہے، اس وقت ہندوستان میں’عظمت صحابہ ‘کے عنوان کانفرنس
کے انعقاد کی کیا مصلحت اور کیا حکمت تھی؟اس جلسے کے مخاطبین میں آخر ایسا
کون تھا جو عظمت صحابہ کا قائل نہیں تھا؟
اسی کانفرنس کے لئے لائق صد احترام امام حرم الشیخ عبدالرحمٰن السدیس دام
برکاتہم ہندستان تشریف لائے۔ دہلی کے کئی پرہجوم جلسوں کو اپنے خطاب سے
نوازا۔جمعہ کی نماز پڑھانے دیوبند تشریف لے گئے اور ہر جگہ اتحاد امت کی
تلقین فرمائی۔ لیکن اس تلقین کے ساتھ جس حسن تدبیر کی ضرورت تھی وہ کہیں
نظر نہیں آئی۔ ان مصروفیات کے درمیان اہمیت کے ساتھ کچھ وقت ایسا نکالا
جانا چاہئے تھا جس میں تمام مسلکوں (شیعہ ، سنی ،دیوبندی بریلوی، اہل حدیث
وغیرہ )کے نمائندے مدعو ہوتے اور ان سے اتحاد امت کے امکانات پر تبادلہ
خیال ہوتا۔ ہے تو گستاخی مگر یہ عرض کئے بغیر چارہ نہیں کہ اتحاد امت کے
داعی کو صرف اپنے ہی مسلک کو حق جتانے سے گریز لازم ہے۔امام کعبہ کا مقام
یقیناً اس احتیاط کا زیادہ متقاضی ہے۔ہمیں اس سے غرض نہیں کہ وہ کس مسلک کے
عامل ہیں ،ہماری غرض اس سے ہے وہ مسجد حرام کے امام محترم ہیں اور خانہ
کعبہ سارے مسلمانوں کا قبلہ ہے ، سب کی عقیدت کا محور ہے ،سب کے لئے محترم
ہے،چاہے کوئی شیعہ ہو، سنی ہو، دیوبندی ہو یا بریلوی ہو یا کچھ اور ہو۔
اختلاف اور افتراق میں شدت کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہر مسلک کا ماننے والا اس
خوش گمانی میں گرفتار ہے اس سے تعبیر و تشریح کی چوک ہو ہی نہیں سکتی۔
حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ میں اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے بھی یہ گمان
رکھوں کہ رائے دوسرے فقیہ کی بھی درست ہوسکتی ہے۔ باہمی احترام اور رواداری
کے بغیر اتحاد امت کا تصور ناممکن ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ امام محترم کی اس تلقین کا خود داعیان کانفرنس نے
کیا اثر قبول کیا؟ ممکن ہے اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے ہمیں اس وعظ و تلقین
اور اس زحمت سفر کا ثمرات سوائے اخباروں کی سرخیوں اور غیر ضروری فوٹوﺅں کے
سوا کچھ اور نظر نہ آرہا ہو۔لیکن امت مسلمہ بجا طور پر اس گھڑی کی منتظر ہے
جب یہ خوش خبری سننے کو ملے کہ محترم میزبانان امام حرم نے ان کی نصیحتوں
کو رائیگاں نہیں جانے دیا ہے اور ان کے جواب میں خود اپنے گھر، اپنے خاندان
، اپنے قرابت داروں اور اپنی جماعت کو متحد کر کے اتحاد امت کی منزل کی طرف
پہلا قدم بڑھا دیا ہے۔اس کے لئے جو قربانی مطلوب ہے اس کے لئے اپنے نفس کو
آمادہ کرلیا ہے اور سیرت صحابہ ؓ کا نمونہ پیش کرتے ہوئے تمام خود غرضیوں
اور خود ستائیوں کی جگہ بے غرضی، تواضع اور انکساری کا قائم کرلیا ہے۔اگر
ایسا نہیں ہوتا ہے تو دنیا ہم پر ہنسے گی کہ جو عالی مرتبت شخصیتیں چھوٹی
چھوٹی منفعتوں کے لئے خود اپنی قرابت داریوں تک کو منقطع کرنے میں بے دریغ
ہیں،وہ کس مقام سے قوم کے اتحاد کی نصیحت فرماتی ہیں۔امام محترم کو تو جو
کہنا تھا کہہ کر چلے گئے ، اب ان کے مقام و احترام کا تقاضا ہے کہ انہوں نے
ہماری مجلسوں میں جو کچھ فرمایا اس کو عملی جامہ پہنانے کی سبیل کریں۔
ان جلسوں کے تعلق سے ایک سوال اور گردش کر رہا ہے۔ان کے لئے اخباروں میں
اشتہارات، وال پوسٹرس، ہنڈ بلس اور گاﺅں گاﺅں، قصبہ قصبہ لاﺅڈ اسپیکرس کے
ذریعہ اعلانات پر بے دریغ دولت خرچ کی گئی۔ کئی کئی لاکھ افراد کو دہلی اور
دیوبند لانے اور واپس پہنچانے کے لئے ہزار ہا بسوں کے انتظام کیا گیا۔ امام
حرم کو ہیلی کاپٹر سے دیوبند لیجایا گیا۔ان کے خصوصی طیارے کی پروازوں اور
تین چاردن ہوائی اڈے پر ٹھہرے رہنے سمیت جملہ انتظامات پر جو کروڑہا روپیہ
خرچ ہوا اس کا ذریعہ کیا ہے ؟ ایک ایسی ملت جو سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق
نکبت و افلاس کی ماری ہے اس کو ان مصارف سے کیا فیض حاصل ہوا یا ہونے کی
امید ہے؟ ایک فرد کے لئے راجیہ سبھا کی ممبری یا کچھ اور؟ |