حضرت عمر فاروقؓ کا دور خلافت تھا۔بحرین کے علاقے میں ایک
جگہ بچے کھیل رہےتھے۔کھیل کے دوران ”گیند نما“ گولا ایک پادری کے قریب جاکر
لگا۔پادری اس پر آگ بگولا ہوگیا۔اس نے بچوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔بچوں نے بہت
معزرت چاہی،مگر پادر انتہاٸی متعصب تھا۔اس نے مسلمان بچوں کی معزرت قبول نہ
کی وہ ان پر برس رہاتھا۔وہ اس کے آڑ میں اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا
تھا۔بچوں میں سے ایک بچہ پادری کے سامنے آیا۔اس نے انتہاٸی معصومانہ انداز
میں کہا: ”میں آپ کو اپنےرسولﷺ اور قرآن کا واسطہ دے کر کہتا ہوں ہمیں معاف
کردیں اور ہماری یہ گیند ہمیں واپس کردیں۔“متعصب پادری نے بچے کی بات نہ
سنی تو آپے سے باہر ہوگیا۔ایسے مسلمانوں کے رسولﷺ اور قرآن سے ویسے ہی بغض
اور نفرت تھی چنانچہ اس کی زبان پر جو آیا، بک دیا۔یہ بچے مسلمان گھرانوں
میں پیدا ہوٸے تھے۔دینی حمیت سے سرشار تھے۔انہوں نے رسول اللہ ﷺ قرآن اور
اسلام کے بارے میں گستاخانہ الفاظ سنے تو حمیت جاگ اٹھی۔ایک نے اپنی لاٹھی
اٹھاٸی اور ہٹے کٹے پادری کے سر پہ دے ماری۔دوسرے بچوں نے بھی اپنی اپنی
لاٹھیاں پادری کے جسم پر برسنا شروع کردیں۔کچھ ہی دیر میں پادری ٹھنڈا
ہوگیا۔اس واقعے کا مقدمہ حضرت عمر فاروقؓ کی عدالت میں پیش ہوا۔بچوں نے
پادری کی گستاخی عدالت کے سامنے دہرادی۔انہوں نے بتایا کہ کس طرح پادری نے
ہمارے سامنے نبی کریمﷺ اور اسلام کے بارے میں گستاخانہ الفاظ کہے۔حضرت
عمرفاروقؓ نے دوسرے فریق کی بھی پوری بات سنی۔جب دونوں اپنی گفتگو ختم
کرچکے تو حضرت عمرؓ کا چہرہ خوشی سے تمتما رہاتھا۔آپؓ نے فرمایا:”مجھے کسی
انسان کے قتل کی خوشی نہیں، مگر ایک گستاخ کےقتل سے مجھے آج اتنی خوشی
ہورہی ہےکہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ “آپ نے مزید فرمایا” آج اسلام کو عزت
نصیب ہوٸی ہے۔جس کی وجہ یہ بچے ہیں۔یہ چھوٹے بچے وقعی مبارک باد کے مستحق
ہیں۔ مجھے ان پر فخر ہے۔میں ان کی اسلامی حمیت کو سلام کرتاہوں۔“ پھر آپ نے
فیصلہ سنادیا۔” پادری کے علم میں یہ بات تھی کہ مسلمانوں کے مذہب میں ایسی
ہرزہ سراٸی کی سزا کیا ہوسکتی ہے مگراس کے باوجود اس نے احتیاط نہیں کی۔اس
نے مسلمانوں کے نبیﷺ اور شعاٸر کے خلاف زبان درازی کی۔بچوں نے اپنے نبیﷺ
قرآن اور اسلام کی محبت میں اس پادری کو قتل کیاہے،چنانچہ ایسے شخص کا قتل
جاٸز ہے اور ان بچوں پر کوٸی مواخذہ نہیں۔
(حوالہ۔۔کتاب الحروف الزہبیہ، عبدالمالک مجاہد)
جب دجالی انتہا پسندوں کے سامنے ایسے واقعات بیان کٸے جاٸیں تو وہ کہتے ہیں
تم انتہا پسندی کو پھیلا رہےہو تم اسلام کو بدنام کررہےہو۔ تم اسلام کا
سوفٹ امیج یعنی جدت پسندوں کا اسلام کیوں نہیں دکھلاتے لکین ناروے کے ایک
مسلم اکثریتی علاقے میں کرسٹینڈ سینڈ میں کچھ سال پہلے اسلام کے خلاف ایک
تنظیم بناٸی،جس کا نام سیان SIAN(stop the islamisation of Norway)
نامی ایک متعصب تنظیم کے ایک رکن ستاسی سالہ ملحد ”(آرنے تھومیر Arne
Tumyr)
نے سرعام آج قرآن کریم کو جلانے(نعوزبااللہ) کی کوشش کی جس پر ہجوم میں
موجود عمر الیاس نامی نوجوان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا اس متعصب ارنے
تھومیر پر نہتا حملہ آوار ہوگیا۔پولیس کی موجودگی میں یہ عمل سرانجام دیا
جارہا تھا اس لے مسلم نوجوان عمر الیاس کو گرفتار کرکے متعصب ملحد
”ارنےتیھومر“ کو بچا لیا گیا۔اس دجالی انتہا پسند نے قرآن کی بے حرمتی کرکے
اسلام کا ”سافٹ امیج“یا نرم پہلو دکھانے والوں کے سب سے پہلے طمانچہ مارا
ہے کیونکہ دجالی انتہا پسند جانتا ہےکہ جدت پسند مسلمان تو اس کا کچھ نہیں
بگاڑ سکتے لکین انتہا پسندوں سے بہر حال خطرہ لاحق ہے۔
آج پوری دنیاٸے کفر دجال کے سپاہی بن کر اسلام کے مخالف آن کھڑے
ہیں۔اکیسویں صدی کو دجال کےبیٹے دجال کے غلبے کی صدی سمجھ رہےہیں اور وہ
ایسی حرکتات وسکنات کررہےہیں کہ دجال کی آمد کے لیے میدان ہموار
ہوسکے۔دجالی قوتیں متحد ہوکر نت نٸے انداز میں اسلام پر حملہ آوار ہیں۔کھبی
وہ ہمارے پیغمبر ﷺ کے(معازاللہ) خاکے اور کارٹون بناتےہیں تو کھبی اسلام
مخالف فلمیں بناکر اسلام کے اصل چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کرتےہیں حال ہی
میں دجال کے سپاہیوں نے قرآن مجید کو (معازاللہ) نزر آتش کرکےشہید کرنے کی
کوشش کی اور عالم اسلام کو ہر آن ہر کروٹ تڑپا کر رکھ دیا۔یہ بڑی فکر کی
گھڑی ہے کہ ہمارے سامنے اتنا بڑا سانحہ پیش آیا اور ہم میں سے کتنے مسلمان
اس پر دل آزردہ ہیں اور کتنے نہیں؟
ہر کوٸی خود اپنے گریبان میں جھانکے۔کیونکہ اسی آسمانی کتاب پر ایمان کی
بدولت ہم مسلمان ہیں اور اگر آج یہ کتاب ظالموں کے ہاتھوں شہید ہوتی ہے اس
کی گستاخی کی جاتی ہے تو یہ ہم سب مسلمانوں کے کلمے کی گستاخی ہے۔
21نومبر 2019 کو ملعون ”ارنے تھومیر“ نے اپنے مزموم ارادے کو عملی جامہ
پہناتے ہوٸے اپنے تنظیم کے زریعے قرآن پاک کے نسخہ شہید کرنے کی کوشش کی۔
دنیا کو مزاہبی آزادی اور انسانی حقوق کا درس دینے والے ناروے کی حکومت اس
ناپاک فعل کو روکنے میں یکسر ناکام رہی۔
اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ سے مغرب کی دشمنی کا کھلا اظہار ہے۔مگر سوال یہ ہے
کہ اس دشمنی میں دشمنی کے سوا اور کیا کچھ ہے؟ اس سلسلے میں درجہ زیل نکات
اہم ہیں۔
(1) مغرب جنگ،تشدد، فکری وسیاسی یلغار کے زریعے ایسا اسلام ایجاد کرنا
چاہتا ہےجو ظاہر میں اسلام ہو مگر باطن میں اسلام نہ ہو۔ اصول ہے کہ اگر تم
اپنے دشمن کو مار نہ سکو تو اسے اندر سے بدل ڈالو۔ اس کے بعد آپ کادشمن
جیتے جی مرجاٸے گا۔ مغرب اسلام اور ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں کوختم نہیں
کرسکتا۔ چنانچہ وہ اسلام کی ” تعبیر“ کو بدلنے کی سازش کررہاہے۔ تعبیر کی
تبدیلی کے زریعےمغرب ایک ایسا اسلام عام کرناچاہتا ہے مغرب کے آگے سر
جھکاٸے کھڑا ہو بلکہ عالمی اسٹیج پر مغرب کے آلہ کار کا کردار ادا اور اسے
اپنے لیے باعث فخر سمجھے۔ مغرب کی فکری کوشش ہےکہ مسلمانوں کے مساٸل کا حل
تو مغربی ہو مگر اس پر مہر اسلام کی لگی ہوٸی ہو۔مغرب جب روشن خیال اسلام
کی بات کرتا ہے تو اس سے اس کی یہی مراد ہوتی ہے۔
(2) یہ حقیت راز نہیں کہ قرآن کی بےحرمتی اور توہین رسالتﷺ کے زریعے مغرب
نہ صرف یہ کہ شعوری طور پر مسلمانوں کی روحانی اور جزباتی اذیت کی راہ
ہموار کرتاہے بلکہ اس میں اس کےلیے ایک نفسیاتی تسکین کا پہلو بھی موجود
ہوتاہے۔
(3) قرآن کی بےحرمتی اور توہین رسالت ﷺ کے حوالے سے مغرب امت مسلمہ کو
پیغام دیتاہے کہ مغرب کی تخلیق کردہ دنیا میں رہنا ہے تو اپنے نبیﷺ کی
توہین برداشت کرکے رہنا ہوگا۔بصورت دیگر ہماری دنیا میں تم غیر مہذب اور
تاریک خیال کہلاوگے۔
(4) مغرب قرآن کی بےحرمتی کے زریعے یہ اندازہ کرتاہے کہ مسلمانوں کے جزبہ
ایمانی میں کتنی جان باقی ہے؟
(5)مغرب قرآن کی بے حرمتی اور توہین رسالتﷺ کو بار بار دہرا کرمسلمانوں کو
روحانی،نفسیاتی اور جزباتی طور پر تھکانے اور رسواللہ ﷺ سے ان کی محبت کے
احساس کو کند کرنے کےلیےکوشاں ہے۔
مغرب انشإاللہ اپنے اہداف میں سے کوٸی ہدف بھی حاصل نہیں کرسکے گا، اس کی
وجہ یہ ہےکہ اسلام خود بدلنے نہیں، دنیا کو بدلنے کےلیے آیا ہے۔
یورپی اقوام کے اسلام کے خلاف صلیبی تعصب کی واضح ترین مثال مصری خاتون
”مروہ شیر بینی“کی شہادت کا واقعہ ہے۔یکم جولاٸی 2008 کو جرمنی کی عدالت
میں 32 سالہ خاتون کو سر عام خنجر سے وار کرکے شہید کردیا گیا، جب شہیدہ
”مروہ شیر بینی“ اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کررہی تھیں تو عدالت میں ”
منصف“ بھی موجود تھا، سیکورٹی اہلکار اور میڈیا بھی، سب کے سامنے انہیں
اسکارف پہننے کے جرم میں قتل کردیا گیا۔ اس موقع پر شہیدہ چار ماہ کی حاملہ
تھیں،ان کا تین سالہ بیٹا ماں کو خوف ناک انداز میں قتل ہوتا دیکھ ریاتھا،
شہیدہ کے خاوند علوی عکاظ مدد کےلے لپکا تو سیکورٹی گارڈ کی گولی کا نشانہ
بن گٸے۔ عدالت کا کمرہ لمحوں میں بےگناہ کے خون سے سرخ ہوگیا اور ایک پاک
باز خاتون نے حجاب کی خاطر جان قربان کرکے مغرب کا بھیانک چہرہ بےنقاب
کردیا۔
”اس سے اب خون کی لت بھی نہیں چھوڑی جاتی
تمغہ امن بھی چاہیے وہ ظالم گر رکھنا“
لہذا امت مسلمہ کے ہر فرد کی زمہ داری ہےکہ وہ مغرب کے اس زہرناک کردار کو
سامنے رکھے اور جس دین سے یہود ونصاریٰ اُس کا ناطہ توڑنا اور تعلق منقطع
کرنا چاہتے ہیں،اُس دین کے ساتھ مضبوطی سے چمٹا رہنے چاہیے۔اللہ کے راستے
میں صبر استقامت کو اپنا شعار بناٸیں، مغربی تہزیب کی چکا چوند سے کسی بھی
موقع اور منزل پر متاثر نہ ہوں اور اس شیطانی تہزیب پر تین حرف بھجیں۔ہواٸے
نفس کے غلاموں کی بندگی کے بجاٸے صیح معنوں میں رب کاٸنات کی بندگی
بجالاٸیں۔۔
”مغربی مکتبوں کی نٸ روشنی،تیری تاریکیوں کا ازالہ نہیں
طاق دل میں اجالا اگر چاہیے تو پرانے چراغوں سے ہی پیارکر “
|