انسان اللہ کی خوبصورت تخلیق ہے

سورہ تین میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی خوبصورت تخلیق ہے۔ اِس سے کیا مطلب! عام طور پر ہمارے ہاں جو مطلب لیا جاتا ہے وہ یہ کہ انسان کو اللہ نے بہت خوبصورت بنایا ہے، بعض مولوی(پیشہ ور مولوی) حضرات تو اِس کا مطلب صحیح طور پر اور اس کی تشریح نہیں کرپاتے، بس یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں انسان کالا ہو، گورا ہو، موٹا ہو، دبلا ہو، سوکھا ہو، بس اللہ کے نزدیک سب خوبصورت ہیں۔

کالا، انتہائی کالے لوگ بھی اپنے آپ کو خوبصورت سمجھیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خوبصورت بنایا ہے، لیکن یہاں پر اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتارہا ہے کہ انسان جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تمام مخلوقات میں سے سب سے اچھی اور خوبصورت تخلیق ہے، یہی وجہ ہے کہ اُس کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں، انسان کی بہترین تخلیق میں سب سے اہم کردار اُس کے دماغ کا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے کسی بھی مخلوق کو ایسا دِماغ نہیں دیا جیسا اِنسان کو دیا ہے، موجودہ دور میں تو یہ بات سمجھنا زیادہ آسان ہے بنسبت صدیوں پہلے۔ آج انسان نے اُسی دماغی صلاحیت کی بناءپر طرح طرح کی چیزیں ایجاد کیں، آپ جہاز میں سفر کررہے ہوں، ریل میں گاڑی میں سفر کررہے ہوں ہم خوشی خوشی بیٹھ جاتے ہیں لیکن اُس کے اُن پارٹس کو بھول جاتے ہ یں جن کی ایجاد ہوئی، گاڑی چل رہی ہے، جہاز اُڑرہا ہے، یہ اللہ کا دِیا ہوا دماغ ہی تو ہے ، اِسی دماغ کی صلاحیت کی وجہ سے انسان خلاءمیں پہنچ گیا، سمندر کو چیرتے ہوئے پانی کے بڑے بڑے جہاز ، اُن قیمتی مناظر کو محفوظ کرنے کیلئے ا،س دماغ نے کیمرہ ایجاد کیا۔ اگر موجودہ دور میں موبائل فون کو ہی لے لیں تو پتہ چلتا ہے یہ بھی تو اللہ کے دئیے ہوئے دماغ کا کارنامہ ہے، ہم دور بہت دور امریکہ میں، آسٹریلیا میں ہونے والے کسی بھی میچ کو براہِ راست آرام سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ مگر یہ بھول جاتے ہیں کیسے دیکھ رہے ہوتے ہیں! بس چھو منتر کیا اور میچ دیکھنے لگے، نہیں بالکل نہیں بلکہ یہ بھی اُس دماغ کا کمال ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، یہ کسی شیر، ہاتھ، وہیل مچھلی کا کمال نہیں ہے، حالانکہ اُس کے پاس بھی دماغ ہے۔ لیکن جو دماغ انسان کو دیا گیا ہے وہ اور کسی بھی مخلوق کو نہیں دیا ۔

بعض اوقات قرآن پاک کا ترجمہ لوگ پڑھتے ہیں تو وہ خود حیران ہوتے ہیں کہ اللہ نے ہم انسانوں کیلئے قرآن کو سمجھنا اِتنا آسان! جس کو اللہ نے فرمایا کہ اور ہم نے اس قرآن کو سمجھنے کیلئے آسان کردیا ہے پھر ہے کوئی جو اس کو سمجھے، یہی قرآن اللہ کی کسی دوسری مخلوق کے سامنے پڑھیں اور پوچھیں کہ تمہاری سمجھ کچھ آیا! اُس کا ترجمہ پڑھیں مختلف زبانوں میں اور پوچھیں اب کچھ سمجھ میں آیا، تو جواب ظاہر ہے کہ ناں میں آئے گا۔

اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ایسی ہے جو انسان سے پہلے اللہ نے بنائی ہوئی تھی اور وہ ہیں فرشتے، لیکن فرشتے اپنی اپنی ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں، وہ اللہ کی عبادت ہی کرتے رہتے ہیں، کوئی انسان کے جسم میں روح ڈال رہا ہے، کوئی انسان کے جسم سے روح نکال رہا ہے، کوئی بارش برسانے کے کام پر لگا ہوا ہے۔ کوئی قدرتی آفات کیلئے اپنی ڈیوٹی دے رہا ہے۔ لیکن اللہ نے اشرف المخلوقات انسان کو ہی کہا ہے، جبکہ انسان خطاوار ہوتا ہے، گناہ بھی کرتا ہے، جرم بھی کرتا ہے، دھوکے بازیاں بھی کرتا ہے، نشہ بھی کرتا ہے، غرض یہ کہ اللہ کی نافرمانیاں بھی کررہا ہوتا ہے اور بے چارے فرشتے جو کوئی گناہ کرتے ہی نہیں تب بھی اشرف المخلوقات نہیں!

تو پتہ چلتا ہے انسان کا خطاوار ہونا ہی، انسان کو اشرف کی طرف لے جاتا ہے، اس انسان کیلئے یہ جو دنیا بنائی گئی ہے اس میں اُس کے کھانے پینے کی چیزیں ہیں تمام مخلوقات انسانی کے کنٹرول میں کردئیے گئے ہیں اللہ نے انسان کیلئے دوزخ، جنت بنائی ہے، یہ زمین جو ہے جہاں انسان رہتاہے یہ زمین اُس کیلئے امتحان کیلئے بنائی گئی ہے، عیش و عشرت کیلئے نہیں، ہمیشہ کی زندگی آخرت میں ہے۔ یہاں دفن بھی ہونا ہے، انسان کو دیکھو تو وہ ہاتھوں سے کھانا کھاتا ہے جبکہ یہ جانور بے چارے کسی بھی چیز کو سیدھے اپنے منہ سے کھاتے ہیں، پرندوں کو دانہ دیں تو وہ کسی ہاتھ میں پکڑ کر نہیں کھاتے بلکہ براہِ راست اپنی چونچ سے کھاتے ہیں۔

بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں، انسان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہوتی ہیں، اور اس میں طرح طرح کے وسوسے بھی ہوتے ہیں اچھے، برے کی تمیز دوسری مخلوقات کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہیں، انسان بیمار ہوجائے تو وہ اپنے ہی جیسے انسان کے پاس جاکر دوا بھی خود لے لیتا ہے، اُس کی نظر خراب ہوجائے تو عینک لگاتے ہوئے نظر آتا ہے۔ شیر، ہاتھی، اُونٹ وغیرہ تمام جانوروں کی بھی ایک پرنسلیٹی ہوتی ہے لیکن انسان کو دیکھتے ہیں تو اُس پرسنلٹی کا جواب ہی نہیں۔ انسان سے ملتا جلتا ایک جانور بندر بھی ہے ذرا غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے جیسے اس کو بنایا ہی اس لئے ہے کہ وہ حضرتِ انسان کو بتانا چاہتا ہو کہ تمہاری شکل ایسی بھی ہوسکتی تھی، لیکن نہیں اللہ نے تم کو بہتر سے بہتر بنایا۔ کان جانور کے بھی ہوتے، آنکھیں بھی ہوتی ہیں لیکن انسان کی بات ہی اور ہے۔ اس کو اس طرح بنایا، اللہ نے کہ وہ بالکل ہی مختلف نظر آئے۔ اور وہ نظر آتا ہے مختلف۔

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید انسان کبھی بندر ہی تھا۔ تو اُس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ اِس بات کو مانتا ہے کہ سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے تو کیا (نعوذباللہ) وہ بندر تھے؟ نہیں۔ وہ انسان تھے اور سب سے پہلے انسان بھی تھے۔ تو بات ختم سے پہلے میں یہ ضرور تحریر کرنا چاہوں گا کہ خوبصورتی کا جہاں تعلق ہے انسان کی تخلیق ایک خوبصورت تخلیق ہی ہے۔ بالکل اس طرح اگر میں کہوں کہ آم تمام پھلوں میں بہترین پھل ہے۔ پھلوں کا بادشاہ ہے، اور کسی نے آم نہ دیکھا ہو نہ کھایا ہو اُس کے سامنے ایک سڑا ہوا دبا ہوا آم لاکر دکھائیں کہ یہ آم ہے تو کیا اس سے آم کی تعریف یہ ہوجائے گی کہ یہ خراب پھل ہے یہ بادشاہ کیسے ہوگیا ۔نہیں۔ بلکہ وہ کہے گا کس نے اِس کو پھلوں کا بادشاہ قرار دے دیا۔ تو پتہ یہ چلا کہ کیونکہ ہمیں پتہ ہے یہ پھلوں کا بادشا ہے اور ہم اِس کو بہت مزے سے کھاتے ہیں اور پورا سال اِس کا انتظار کرتے ہیں کب آم پکے گا اور ہم کھائیں گے۔

ایسے ہی انسان کا معاملہ بھی ہے کہ کسی نے انسان نہ دیکھا ہو، مثلاً کسی فرشتے نے یا کسی اور مخلوق نے اور ہم اُس کے سامنے ایک پاگل شخص کو، کسی انتہائی بد صورت شخص کو لاکر کھڑا کردیں کہ یہ ہے اِنسان اور وہ پاگل اپنی حرکتوں کی وجہ سے پسند نہ آئے تو کیا وہ مخلوق یہ کہے گی کہ یہ ہے وہ اشرف المخلوقات جس کی اتنی تعریف کی تھی، تو پتہ یہ چلا کہ ہم کسی ایک انسان کو ایک پھل کی طرح پیش نہیں کرسکتے، بلکہ پوری دنیا کے انسان کے بارے میں مجموعی جو خوبیاں ہیں انسان کی اُس کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ یہ ہے وہ انسان جو پہنتا بھی ہے اوڑھتا بھی ہے، جڑی بوٹیوں سے اپنی دوا بھی بنالیتا ہے یہ سفر کیلئے ہواﺅں میں اُڑ بھی لیتا ہے، یہ شکار بھی کرلیتا ہے، یہ نیک بھی ہوتا ہے، اور برا بھی۔ سیدھے راستے پر چلنے کی صلاحیت ہے اِس میں اور بُرے راستے پر بھی ہے۔ اسی لئے اس کیلئے اللہ نے کم و بیش ایک لاکھ سے زیادہ انبیائے کرام علیہم السلام بھیجے کیونکہ اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ہے اچھے برے کی تمیز بھی، یہ تمام اچھائیاں برائیاں، خوبیاں ملاکر انسان کو اللہ نے خوبصورت تخلیق قرار دیا۔ فرمایا کہ: انسان اللہ کی بہترین تخلیق ہے اور یہ اس بناءپر اشرف المخلوقات ہے اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔

Ashhad Ali
About the Author: Ashhad Ali Read More Articles by Ashhad Ali: 2 Articles with 1931 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.