مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے میت کی خبردینے سے متعلق عوام میں
تردد پایا جاتا ہے ، اس تردد کو دور کرنے کی غرض سے میں نے ایک حقیر سی
کوشش کی ہے ،اﷲ مجھے اس معاملے میں درست بات کی طرف رہنمائی فرمائے ۔ اللھم
آمین
احادیث سے ایک طرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ میت کی نعی(خبردینا ) ممنوع ہے تو
دوسری طرف رسول اﷲ ú سے میت کی نعی(خبردینا) ثابت ہے ، چنانچہ اس قسم کی
دونوں احادیث پر نظر ڈالتے ہیں ۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا :إذا مِتُّ فلا
تؤذِنوا بی أحدًا إنِّی أخافُ أن یَکونَ نعیًا إنِّی سمعتُ رسولَ اللَّہِ
صلَّی اللَّہُ علیْہِ وسلَّمَ ینْہی عنِ النَّعیِ(صحیح الترمذی:986)
ترجمہ: جب میں مرجاؤں تو میرے مرنے کا اعلان مت کرنا ، مجھے ڈر ہے کہ یہ
بات "نعی" ہوگی کیونکہ میں نے رسول اﷲﷺو" نعی "سے منع فرماتے سنا ہے۔
یہ ایک طرف کی حدیث ہے اور دوسری طرف کی حدیث ،عربی متن کے ساتھ
بنظرغائرملاحظہ فرمائیں،حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں :
نَعَی لنا رَسولُ اللَّہِ صَلَّی اﷲُ علیہ وسلَّمَ النَّجاشِیَّ صاحِبَ
الحَبَشَۃِ، یَومَ الذی ماتَ فِیہِ(صحیح البخاری:1327)
ترجمہ: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حبشہ کے نجاشی کی وفات کی خبر دی اسی
دن جس دن ان کا انتقال ہوا تھا۔
اسی طرح انس بن مالک رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں :أنَّ النبیَّ صَلَّی اﷲُ
علیہ وسلَّمَ، نَعَی زَیْدًا، وجَعْفَرًا، وابْنَ رَوَاحَۃَ لِلنَّاسِ،
قَبْلَ أنْ یَأْتِیَہُمْ خَبَرُہُمْ(صحیح البخاری:3757)
ترجمہ: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی اطلاع کے پہنچنے سے پہلے زید،
جعفر اور ابن رواحہ رضی اﷲ عنہم کی شہادت کی خبر صحابہ کو سنا دی تھی۔
بلکہ صحیح البخاری(458) اور صحیح مسلم (956) میں مذکور ہے کہ مسجد نبوی میں
جھاڑودینے والی عورت کی وفات پرآپ úکو اس کی وفات کی خبر نہ دی گئی ،بعد
میں آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: "أفلا کُنْتُمْ آذَنْتُمُونِی بہ"
یعنی تم لوگوں نے مجھے کیوں نہ (اس کی وفات کی)خبر دی ؟
آپ نے دونوں قسموں کی احادیث دیکھ لیں ، اب ان کی حقیقت پرغورفرمائیں۔یہاں
ان دونوں میں ایک لفظ نعی وارد ہے جس کامعنی موت کی خبردینا ہوتا ہے ۔ ایک
جگہ یہ منع کے قبیل سے ہے اور دوسری جگہ جواز کے قبیل سے ۔ یہیں سے یہ نقطہ
سمجھ میں آرہا ہے کہ نعی کی متعدداقسام ہیں ،ان میں سے بعض نعی منع ہے اور
بعض نعی جائز ہے ۔
ممنوع نعی وہ ہے جو جاہلیت کا طریقہ تھاکہ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی
مرجاتاتو ایک آدمی کسی جانور پر سوار ہوکرگلی کوچوں میں گھوم گھوم کر اور
چیخ چیخ کر اس کی موت کا اعلان اور تشہیر کرتا، نوحہ خوانی کرتا،میت کی
خوبیاں اور اس کے فضائل ومناقب ذکرکرتا۔ جائز نعی فوتگی کا اعلان کرنا ہے
تاکہ لوگ جنازہ میں شریک ہوسکیں ۔
لہذا جس اعلان میں میت کی تشہیرکرنا، میت کی بلند آواز سے چیخ چیخ کر گلی
کوچوں میں گھوم کر خبر دینا، نوحہ خوانی کرنا،میت کی خوبیاں اور مفاخر
ومناقب بیان کرناشامل ہو دراصل وہ اعلان ممنوع ہے البتہ جس اعلان سے مقصد
محض میت کے جنازہ کی خبردینا ہو خواہ لاؤڈ اسپیکر سے ہی کیوں نہ ہو اس
اعلان میں حرج نہیں ہے ۔
رہا مسئلہ مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے اعلان کرنے کا تو اس میں بھی کوئی مانع
چیز نظر نہیں آتی ہے جب مقصد میت کے جنازہ اور اس کی تجہیزوتکفین کی خبر
دینا ہو۔مسجد میں ممنوع چیزوں کے تعلق سے اسلام نے ہمیں رہنمائی کردی ہے کہ
وہاں تجارتی اور دنیاوی باتیں کرنا، شوروغل مچانا، خریدوفروخت کرنا، گم شدہ
چیزوں کا اعلان کرنا ،بلند آواز سے فضول باتیں کرنا ، بلامقصد شعرگوئی
کرنا، مسجد میں دوڑ کرآنا، مصلی کو تکلیف دینا، لہسن پیاز کھاکر آنا،جنبی
اور حائضہ کا ٹھہرنااورمسجد کو گزرگاہ وغیرہ بنانا منع ہے، گویا مسجد میں
میت کے اعلان کی ممانعت وارد نہیں ہے اس وجہ سے مسجدمیں میت کا اعلان کرنا
یا مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے میت اعلان کرنا جائز ہے۔ یہاں مزید ایک بات کی
وضاحت ہوجائے کہ مسجدمیں بلاضرورت آواز بلندکرنا بھی منع ہے اور میت کی خبر
کے لئے لاؤڈاسپیکر کا استعمال ضرورت کے تحت ہے اس وجہ سے اس کام میں حرج
نہیں ہے۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اﷲ نے اچھے آدمی کی موت کی خبر مسجدمیں دینا
جائز کہا ہے اور عام آدمی کے اعلان سے روکا ہے اور شیخ صالح فوزان نے بھی
مسجد میں میت کا اعلان کرنے کو جائز کہا ہے۔
اسلام نے میت کیلئے یا موت کی خبرسننے پر دعاکرنے، میت کے وارثین کی تعزیت
کرنے، میت کو جلدی دفن کرنے،جنازہ کیپیچھے چلنیاور دفن بعد ثبات قدمی کی
دعاکرنے کا حکم اور اس کی ترغیب دی ہے ، یہ ساری باتیں اس پر منحصر ہیں کہ
جب کسی کی وفات ہوجائے تو اس کی خبر لوگوں کو دی جائے ورنہ بستی والوں کو
خبرکیسے ہوگی اور کیسے اس کے حق میں استغفار اور تدفین کا عمل انجام پائے
گا؟ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنازہ میں موحدین کی کثرت میت کے حق
میں مفید ہے یہ کثرت اسی وقت ہوگی جب لوگوں کو وفات کی خبر دی جائے گی ۔
ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کل ہرجگہ آبادی گھنی ہوتی ہے ، ہرکوئی
اپنے اپنے کام میں مصروف ہے ، ایک دوسرے تک بات پہنچانے کا ذریعہ جدید آلات
ہی ہیں تو پھرایسے حالات میں موت کی خبر دینے کے لئے مائیکروفون ، موبائل
اور لاؤڈاسپیکر کا استعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔
ایک اشکال کا جواب :بعض اہل علم نے لاؤڈاسپیکر سے میت کااعلان کرنے سے منع
کیا ہے اس کی وجہ یہ بتلائی جاتی ہے کہ جاہلیت کی نعی میں ایک صفت بلند
آواز سے موت کی خبردینا تھا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جاہلیت کی نعی میں صرف
ایک یہی صفت نہیں پائی جاتی تھی، نعی کی شرح کرنے والوں نے متعدد صفات کی
طرف اشارہ کیا ہے جس کو میں نے اوپر بیان کیا ہے ،اگر میت کی خبر دینے میں
صرف ایک صفت یعنی بلندآواز کا استعمال محض اس وجہ سیکیا جائے تاکہ سارے
بستی والوں کو موت کی خبر ہوجائے ، میت کو دعادیں اور لوگ جناز ہ میں شریک
ہوں تو اس میں بالکل کوئی قباحت نہیں ہے ۔مزید برآں جاہلیت کی بلند آواز
اور یہاں لاؤڈاسپیکر کی بلند آوازمیں حد درجہ فرق ہے ، ایک بلند آواز کا
مقصد میت کی تشہیر ومناقب بیان کرنا جبکہ دوسری بلند آواز کا مقصد تمام
بستی والوں تک محض موت کی خبر دینا ہیتاکہ وہ جنازہ میں شریک ہوسکیں۔اوپر
ایک حدیث گزری ہے جس میں مذکور ہے کہ نبی ú نے زید، جعفر اور ابن رواحہ کی
موت کی خبر لوگوں کو لاش آنے سے پہلے ہی دیدی تھی تاکہ لوگ کو ان کی موت کی
خبر ہوجائے اور ان کے حق میں دعائے خیر کریں ، وہاں جنازہ کی خبردینا مقصد
نہیں تھا بلکہ خالص موت کی خبر دینا تھا ، جب مسلمانوں کو خالص موت کی خبر
دینا جائز ہے تو جنازہ اور تدفین کی خبردینا بدرجہ اولی جائز ہے ۔
میت کے اعلان کا ایک دوسرا آبشن :آج کل عموما لوگ سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے
ہیں ، اس لئے اس عوامی میڈیا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر مسجد کے کمیٹی والے
موبائل پراس کام کے واسطے ایک مخصوص واٹس ایپ گروپ بنالیں جس میں وفات اور
اس سے متعلق خبریں نشر کرسکیں تو آواز بلند کرنے سے نعی کا جو شبہ پیدا
ہوتا وہ ختم ہوجائے گااور ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اس گروپ میں قرب
وجوار کے ذمہ داران کو شامل کرکے ان لوگوں کو بھی نہایت خاموشی سے باخبر
کیا جاسکتا ہے، سعودی عرب میں مساجد کے ٹرسٹیان ایسے ہی کرتے ہیں ۔
|