عربی مقولہ ہے ’’بادشاہوں کا کلام ،کلاموں کا بادشاہ ہوتا
ہے‘‘ ۔اور یہ بھی کہ رعایا بادشاہوں کے دین پر ہوتی ہے۔آج جبکہ دنیا ایک
عالمی گاؤں کا روپ دھار چکی ہے تو جدیدیت بادشاہوں کا دین ہے اور انگریزی
بادشاہوں کی زبان۔سو یہ دونوں چیزیں ایک عالم کو اپنی لپیٹ میں لے چکی
ہیں۔اگر پاکستان کے تناظر میں صرف زبان کے ذکر پر ہی اکتفا کیا جائے تو عام
و خاص انگریزی کی محبت میں ’’گوڈے گوڈے‘‘ ڈوبا ہوا دکھائی دیتا ہے۔بات اگر
صرف یہیں تک محدود رہتی تو بھی قابلِ قبول ہوتی ، لیکن برا ہو یار لوگوں کا
کہ جن کی شبانہ روز محنت نے، اردو اور انگریزی کے ملاپ سے، ایک’’ ریشمی
زبان‘‘ کو وجود بخشا ہے(جو خو د بھی بڑی لچکیلی ہے اور اسے بولنے بھی)۔ اس
زحمت کا پہلا شکار ہمارے یہاں کی برگز فیملیاں اور شوبز کے افراد ہیں ۔جن
سے یہ وائرس بڑی تیزی سے ملک کے طول و عرض میں کسی وبائی مرض کی طرح پھیلتا
چلا جا رہا ہے۔
ابھی تک راقم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ اس کے موجد اسکا پہلا شکار ہیں
یہ اس کا شکار اس کے پہلے موجد۔
ہمارے شوبز کے افراد اور فنکار(جن کے بارے میں حال ہی میں ایک پروڈیوسر نے
خبر دی ہے کہ یہ فن پرکم اور ’’کار‘‘پر زیادہ دھیان دیتے ہیں)انگلش بولتے
بولتے اردو یا اپنی مقامی بولی کا تڑکا تب لگاتے ہیں جب اپنا مافی الضمیر
بیان کرنے کیلئے انہیں انگریزی کا کوئی لفظ ہاتھ نہ آتا ہو۔
تب اردو یا مقامی بولی پر ہاتھ صاف کرنے کا ایک اچھا موقع ہاتھ آجاتا ہے
جسے یہ ظالم لوگ کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
اپنے علامہ صاحب اس سلسلہ میں بدنامی کی حد سے کہیں زیادہ مشہور ہیں۔انہیں
انگریزی بولنے سے کہیں زیادہ یہ جتانے کا شوق لاحق ہے کہ وہ انگریزی زبان
میں ید طولی رکھتے ہیں(ان کی زبان دانی کا تو ایک زمانہ قائل ہے۔ہمیں
اعتراض تو محض جتانے پر ہے) اگر آپ شومئی قسمت سے انکی کوئی تقریر سن لیں
تو میرے اس خیال کی تائید فرمائیں گے کہ علامہ موصوف ایک ہی بات کیلئے
انگریزی کے کئی ایک مشترک الفاظ اس تواتر اور روانی سے بولتے ہیں کہ نیم
خواندہ تو رہے ایک طرف،اچھے خاصے پڑھے لکھے حضرات بھی منہ میں انگلیاں داب
کر رہ جاتے ہیں۔آپ سب کو مشرف دور میں اسمبلی کے فلور پر انکی اولین
انگریزی تقریر نہیں بھولی ہوگی جو بد قسمتی سے اسمبلی کو ہضم ہوئی نہ مزید
سننے کی سعادت کہ آنجناب استعفی دے کر سیاست سے دست کش ہوگئے ۔ یہ الگ بات
کہ سیاست انکے اندر سے آج تک نکل نہیں پائی ۔
جبھی تو سال چھ ماہ بعد چھوٹا موٹا ہلا گلا کرتے اور اپنے مریدین کو گرماتے
رہتے ہیں۔انکے بد خواہ تک انکی زبان دانی کے قائل ہیں لیکن ساتھ ہی دبے دبے
لفظوں میں یہ کہنے سے بھی ہرگز نہیں چوکتے کہ انکی کینیڈا کی شہریت اور
مغربی دنیا میں انکی شہرت اسی زبان دانی ہی کی تو مرہونِ منت ہے۔آخر کو
بدخواہ ہیں کوئی نہ کوئی الزام لگائے بنا انکو چین کہا چین آتا ہے۔
سب کے مولانا صاحب بھی اس سلسلہ میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔انکے اس
’’عاجزانہ‘‘دعوی کا بھی ایک زمانہ شاہد ہے کہ وہ انگریزی بول تو نہیں سکتے
ہاں البتہ اپنے سامنے کہی جانے والی بات وہ باآسانی سمجھ لیتے ہیں۔مولانا
انگریزی کا ایک لفظ خاص طور سے اس قدر کثرت سے بولتے ہیں کہ اب انہی کی ذات
سے یوں جڑ سا گیا ہے کہ اب انہی کا ہو کر رہ گیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اب تو
بھلا بھی صرف انہی کے منہ مبارک سے لگتا ہے اور جچتا بھی صرف انہی کو ہے۔جی
ہاں ’’کنڈم‘‘(جو شاید condemnکا اردو ورژن ہے)۔حالیہ الیکشن سے قبل وہ ناپ
تول کر بولنے کے حوالے سے خاصے مشہور تھے ۔ناپ تول کے سارے باٹ، الیکشن
نتائج کے بعد سے،کچھ الٹ پلٹ سے گئے ہیں۔آج کل خود نہیں سوچتے دوسروں کو
سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔اسکا واضح ثبوت کچھ عرصہ قبل شہید کے حولے سے
کیا جانے والا انکا عالمی شہرت یافتہ تبصرہ ہے جس کے تذکرے آج بھی محفلوں
کی زینت ہیں۔اگر یہی بات کسی عام آدمی نے کی ہوتی تو اب تک اس’’گستاخ‘‘ کا
مزار بن چکا ہوتا اور اسکا قاتل غازی۔۔۔سچ ہے بڑے لوگ چھوٹی کمیت کی غلطیاں
کرتے ہیں ۔تاریخ جنہیں خوامخواہ ’’ بڑھا چڑھا‘‘ کر اسکا حجم بہت پھیلا دیا
کرتی ہے۔
انگریزی کا بھوت اکثریت پر غالب آچکا ہے۔ ناجانے طلبا ء کی اکثریت اس سے
اتنا گھبراتی کیوں ہے؟۔کیسے کیسے لطیفے پھیلائے جاتے ہیں ۔یہاں تک کہہ دیا
جاتا ہے کہ ایک مضمون فیل ہونے کے لئے بھی تو چاہئے سو اس کے لئے انگریزی
کا بھی سہارہ لیا جاتا ہے۔ خوف کے حوالے سے اپنی کرکٹ ٹیم خاص طور سے مشہور
ہے(اسی خوف سے سکول چھوڑا لیکن اس موئی انگریزی نے پیچھا نہ چھوڑا)یہ بات
ریکارڈ پر ہے کہ ہمارے کھلاڑی انگریزی اچھی نہ بولی جائے گی محض اسی خوف سے
اچھی پرفارمنس نہیں دکھا پاتے کہ بدقسمتی سے مین آف دی میچ آ گئے تو
’’انٹرویو‘‘ دینا پڑے گا۔جب بھی ہمارا کوئی نا تجربے کار انٹرویو کے لئے آن
پھنستا ہے تو اسکی بوکھلائی صورت مجھ سے کبھی دیکھی نہیں جاتی (خوامخوا ہ
شرم سی آتی ہے)بس سماعت پر گزارا کر لیا کرتے ہیں اور آنکھیں بند ۔اب ہر
آدمی راولپنڈی ایکسپریس تو نہیں ہوتا کہ کینگروز کی بولتی یہ کہہ کر بند
کرا سکے کہ اسے ان سے اچھی انگلش بولنا آتی ہے۔ انگریزی کے حوالے سے ہمارے
ملتانی شہزادے کی حالت واقعی قابلِ رحم تھی۔موصوف جتنا عرصہ کپتان رہے اپنے
انٹرویو میں یہی کہتے رہے ’’ the boys is…‘‘ افسوس کرکٹ بورڈ سے کروڑوں
اینٹھنے والے ہمارے بے رحم آفیشلز اتنا سا بھی کام نہ کر پائے کہ اسے ’’is
‘‘کی جگہ ’’are ‘‘کا استعمال ہی سکھا دیتے۔ہاں یاد آیا اپنے وکٹ کیپر بلے
باز اور کپتان بڑے تابعدار انسان تھے، ہمیشہ کان کھول کر سوال سنا کرتے تھے
۔اس کے لئے انہیں اپنی گردن ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھنا پڑتی تھی۔جواب
دینے سے زیادہ انہیں سوال سننے میں دشواری کا سامنا رہتا تھا۔
ضیا محی الدین ،طارق عزیز،لئیق احمد،قریش پور ،مستنصر حسین تارڑ ،انور
مقصود، افتخار عارف،اشفاق احمد کی قبیل کے افراد اب کہاں کہ جب کی گفتگو سن
کر لوگ بولنے اور اچھا بولنے کا ہنر سیکھتے تھے۔اپنی زبان کے استعمال میں
اتنی فیاضی کا مظاہرہ کرتے کہ سننے والوں کو اپنی قومی زبان پر بے طرح رشک
سا آتا ۔افسوس کمپئیرز کی جو نئی لاٹ آئی ہے اسے جابجا انگلش کی ’’لاٹ‘‘
لگی ہوئی ہے جو ’’صوتی حسن ‘‘کو گھن کی طرح چاٹ گئی ہے۔سن کر راحت نہیں
وحشت سی ہوتی ہے۔جبھی تو انہیں چند منٹ بھی برداشت کرنا برداشت سے باہر ہو
جاتا ہے۔اس حوالے سے حالاتِ حاضرہ کے حاضر سروس میزبانوں کا حال تو اور بھی
پتلا ہے ۔باقی رہے نیوز کاسٹرز تو ان کو خود کُش اور خود کَش کا فرق معلوم
نہیں ۔روانی سے انگریزی بولنے والے اور والیاں ہمیشہ خود کَش حملہ آور کہتے
پائے جاتے ہیں۔
اپنی قومی زبان کے اس سقوط پر ہمارے حکمرانوں کا سکوت معنی خیز تو ہے تعجب
خیز نہیں۔جہاں ناؤ مسائل کے بپھرے ہوئے سمندر میں پھسی ہو وہاں پھسپھسی سی
موجوں کی خبر کون لیتا ہے بھلا۔ پانچ سال ہمیں یہی سننے کو ملے گا کہ یہ
سارا گند ہمیں ورثے میں ملا ہے ۔پھر وہ یہی گند قومی عجائب گھر میں رکھوا
کر نئے انتخابات کی تیاری میں جت جائیں گے ۔مسائل اور عوام ہمیشہ کی طرح
منہ کھولے انہیں دیکھتے ہی رہیں گے ۔اور پھر چل سو چل۔سیاسی جماعتوں کا یہ
’’غذائی چکر‘‘ جانے کب تک چلتا رہے گا۔سنا ہے نظام تعلیم میں پھر سے
تبدیلیوں کی ہوا چل پڑی ہے۔نصاب پر ہاتھ صاف کرنے اور اسے اردو کا لبادہ
پہنانے کی تیاری کا کام جاری ہے (بیان کا تو سنا تھا شاید کام بھی جاری
ہو۔بد گمانی اچھی چیز نہیں۔حکمرانوں کو کبھی پسند آئی ہے نہ لکھنے کو راس)
۔ہمارے پالیسی سازوں کو آج تک زبان میں تدریس اور زبان کی تدریس کا فرق
سمجھ میں نہیں آیا۔ہماری تعلیمی ترجیحات کیا ہونی چاہئے اور ہمارا مقصدِ
تعلیم کیا ،اس کا مرحلہ تو بعد کا ہے۔ہر حکومت اپنی مرضی کی پالیسی لاتی ہے
اور خرابی میں منافع دکھا کر چلی جاتی ہے یا بھیج دی جاتی ہے۔پتہ نہیں
اصلاح کا ’’خسارہ ‘‘ کب دیکھنے کو ملے گا۔آج تک یہی طے نہیں ہوا کہ کس زبان
میں تعلیم دینی چاہئے ۔یکساں نظامِ تعلیم کا خواب لگتا ہے کالا باغ ڈیم کی
طرح شاید خواب ہی رہے گا۔اور قوم کو سبز باغ دکھائے جاتے رہیں گے ۔ قومی
زبان چکی کے دو پاٹوں یعنی زبان زدگان اور حکمران کے درمیان پستی چلی جاتی
ہے۔مقامی بولیوں کے سرگرم عاشقوں سے عرض ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں’’ ان ہاؤس
‘‘ تبدیلی کے طور پر گھر کا میڈیم تبدیل فرمائیں ۔بعد کی بعد میں دیکھی
جائے گی۔الٹی گنگا بہانے کی کوشش سوائے وقت ضائع کرنے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے
گا۔موضوع چونکہ طویل تھا سو تشنہ رہا۔امید ہے تشنہ تکمیل نہیں رہے گا۔انشا
ء اللہ اس پر جلد بات ہوگی ۔
جانے کیا سوچ کر داغ نے کہہ دیا تھا
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
|