اخلاص۔۔۔۔احتیاط۔۔۔۔اختصار

سیانے کہتے سچ ہیں کہ بات وہی اچھی جو خاموشی سے بہتر ہو ورنہ چپ ہی بھلی جس میں سو نہیں ہزار سکھ ہوتے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے برے دوست سے تنہائی بہتر ہوتی ہے۔کچھ عرصہ قبل علم عرفان پر ایک نفیس کتاب
’’اخلاق عملی‘‘
پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
پونے چار سو صفحات پر محیط اس کتاب میں پونے دو سو صفحات صرف ’’زبان ‘‘پر تھے جسکا عنوان صاحب کتاب نے ’’زبان کی آفتیں‘‘باندھا تھا۔
گویا صاحب کتاب کے نزدیک عرفان کا دارومدار اخلاق پر اور اخلاق کا انحصار زبان پر ہے۔
یہ بات بظاہر بڑی عجیب ہے( لیکن اس کے مبنی بر حق ہونے میں کوئی کلام نہیں )کہ ہمارے اکثر مسائل کی جڑیں ہماری زبان کی نوک سے جڑی ہوئی ہیں۔
بے سوچے ،بنا سمجھے،بے تکان گفتگو شرف انسانی کے سراسر منافی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب یہ بے محابا گفتگو طنز و مزاح کا روپ دھارتی ہے تو دوسروں کے ساتھ ساتھ خود متکلم کی شخصیت تک کو مسخ کر ڈالتی ہے۔جبھی تو حدیث میں مزاح کی مذمت وارد ہوئی ہے کہ اس سے انسان کا رعب ماند پڑ جاتا ہے اور وقار جاتا رہتا ہے۔ اگرخاموشی پر بزرگوں کے اقوال جمع کیے جائیں تو ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب مرتب ہو جائے ۔ کاش کوئی اس اہم موضوع پر بھی کتاب مرتب کرے ( اگر ہو چکی ہے تو ہماری معلومات میں اضافہ کرے) ۔ یہ کتاب عہد جدید کی اولین ضرورت ہے اور اس سے بھی زیادہ بڑی ضرورت اس میں درج باتوں پر عمل کرنا ہے۔ خاموشی کو بزرگوں نے کچھ سوچ کر ہی بغیر محنت کی عبادت قرار دیا ہے ۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ جتنی محنت چپ رہنے پر کرنی پڑتی ہے وہ کسی اور عبادت کیلئے
ہرگز درکار نہیں ہوتی ۔
کہتے ہیں انسان کی قابلیت اس کی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے ۔انسان کے جوہر تبھی کھلتے ہیں جب اس کی زبان کھلتی ہے ۔کسی ماں نے بڑے مان اور پیار سے کہا تھا” میرا بیٹا بڑا شیطان ہو گیا ہے۔ اب تو بولنے بھی لگا ہے ‘‘۔شیطان بھی تو غلط موقع پر بول کر راندہ درگاہ ہو گیا تھا۔ لگتا ہے اس دن سے اس کھلے دشمن نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ انسانی زبان کو آلودہ کر کے ہی چھوڑے گا( اور یہ کتنی آلودہ ہو چکی ہے یہ بات fbکی وادی کے راہ گیر بخوبی جانتے ہیں۔) یہ زبان خود تو بتیس دانتوں میں محفوظ رہتی ہے مگر بتیس پردوں میں چھپی چیزوں کو مجال ہے جو بخش دے ۔ اسی لیے تو زبان کا زخم ہر زخم سے زیادہ کاری ہوتا ہے ۔چمڑے کے یہ زبان فولاد سے بھی زیادہ ہرٹ کرتی ہے۔ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ دنیا کے ہر ہتھیار نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں کہ یہ جسم پر نہیں روح پر اثر کرتی ہے۔
میرا گمان ہے کہ زبان سے فیض یافتہ لوگوں کی تعداد اس کے ہاتھوں زخم خوردہ لوگوں کی تعداد سے بہر طور ہر دور میں انتہائی کم رہی ہے۔ اور تو اور تبلیغ حق اور درس محبت دینے والوں پر دنیا نے پتھر برسائے ، سولی پر لٹکایا ، کھال کھینچی اور پھر
نوبت باایں جا رسید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قسمت کا دھنی ہے یا کہ منافق کہ جن شانوں پہ اب سر رہ گیا ہے
کتنی سچی بات بیاں ہوئی ہے کہ دین کی سلامتی نو حصے خاموشی میں اور ایک حصہ بولنے میں ۔باب مدینتہ العلم کا فرمان حق نشان آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے "جب علم بڑھ جاتا ہے تو کلام کم ہوجاتا ہے”گویا علم اور کلام کا رشتہ بالعکس متناسب ہے ( ہمارے مقررین ، واعظین اور علماء حضرات کو اس پر ضرور سوچنا چاہیے )لیکن افسوس ہمارے یہاں یہ معاملہ بالکل الٹ ہے یہاں خاموشی جہالت اور گفتگو علم کی علامت شمار ہوتی ہے۔ زمان اور زبان دو ایسے عناصر ہیں جو فقط ایک کام کرتے ہیں یعنی باطن کو ایکسپوز کردینا ۔زمانہ تاریخ ہے اور زبان انسان کا حال یعنی لمحہ موجود۔ کسی کا باطن زبان سے بچ بھی جائے تو تاریخ اسے ضرور طشت از بام کر ڈالتی ہے اور یوں برتن کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہ باہر آکر ظاہر ضرور ہوتا ہے ۔بزرگوں نے کسی کو پہنچاننے کا جو بہترین نسخہ تجویز فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے حوالے سے کسی کی گفتگو غصے کی حالت میں سنو تمہیں خود ہی اس کے قلبی جذبات کی اطلاع ہو جائیگی ۔
خَلق اور خُلق میں صرف اعراب کا فرق ہے ۔ انسان اپنی ذات کا خالق تو نہیں ہاں اپنی گفتار کا خالق ضرور ہے۔ خُلق کی تھوڑی سی کمی بیشی خَلق کا سارا تاثر زیرو زبر کر دیتی ہے ۔مقام حیرت ہے کہ انسان کو اپنے رب کی تخلیق میں تو ہزاروں خامیاں نظر آجاتی ہیں لیکن اسے کبھی بھی اپنی تخلیق (خُلق) کی بد صورتی دکھائی نہیں دیتی ۔حالانکہ اخلاق کی خوبصورتی چہرے کی بد صورتی چھپا لیتی ہے جبکہ چہرے کی خوبصورتی باطن کی بد صورتی ( اخلاق باطنی حسن اور بد اخلاقی باطنی بد صورتی ہی تو ہے) کو ہرگز چھپا نہیں پاتی ۔
کہتے ہیں پرانے دور میں جب لوگ کوئی بھی علم سیکھنے کیلئے استادان فن سے رجوع کرتے تو انہیں کہا جاتا تھا کہ پہلے جاکر اپنی زبانوں کو چپ تو سکھاؤ ورنہ جو کچھ تم حاصل کرو گے اس سے زیادہ تو تم بول کر ضائع کر دیا کروگے ۔اب یہ "طالبان ” جانے کیا کیا جتن کر کے خود کو چپ سکھاتے تب کہیں جا کر علم کیلئے ’’کوالی فائی ‘‘کر پاتے ۔ کچھ اقوام میں چپ کا روزہ (صوم مریم) بھی اسی زبان کو چپ کرانے کی کوشش کا نام ہے ۔ دو سال میں بولنا سیکھ لینے والے انسان تمام عمر یہ سیکھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ کب ، کہاں ، کیاں بات کرنی ہے۔
جن معاشروں میں ناانصافی، عداوت ، تعصب ،عدم برداشت وغیرہ کی بہتات ہو وہاں کی اقوام کا اخلاق کبھی مثالی نہیں ہوسکتا ۔ دوسروں پر تنقید سے پیشتر ہم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر اپنے اخلاقیات چیک کریں تو کسی پر بھی زبان طعن دراز کرنے سے باز رہیں ۔ عہد جدید میں جہاں اتنے دن منائے جاتے ہیں وہاں ایک اور دن’’ یوم خاموشی‘‘ بھی ضرور منانا چاہیے ۔اس طرح ہمارا کم از کم ایک دن تو سکون سے گزرے گا۔ بچے حیران کن طور پر محض ایک ’’حربے ‘‘سے اپنے تمام کام نکال لیتے ہیں۔لیکن ہم ہر طرح کے اسلحے سے لیس ہو کر بھی کاش ، اگر، مگر ، لیکن جیسے الفاظ کی قید سے نکل نہیں پاتے ۔ کبھی غور کیا ہے کہ بچوں کے پاس کون سا ایسا جادو ہے کہ جو سب کو سحر زدہ کر دیتا ہے۔بڑے بے اختیار انہیں اٹھا کر پیار کرنے لگتے ہیں۔صرف پیار ہاں پیارے پڑھنے والے صرف اور صرف پیار ۔ بچہ صرف پیار کی زبان سمجھتا اور پیار کی بولی بولتا ہے اور وہ اس پیار کو کام میں لا کر ہر جائز ناجائز بات منوا بھی تو لیا کرتا ہے ہم تو محض زبان سے کہتے ہیں ’’یہ جہاں کیا ہے بس پیار کا پھیلاؤ ہے‘‘ جبکہ بچے تو صرف جانتے ہی پیار کرنا ہیں اور محبت پھر کیوں فاتح عالم نہ ٹھہرے ؟ بڑے بڑے لوگ بچوں کے آگے ہار جاتے ہیں اور پھر ہار کر رنجیدہ بھی نہیں ہوتے اور خوشی سے اس ہار کو گلے کا ہار بنا لیا کرتے ہیں۔پیار کی ہار کا بھی اپنا ایک الگ مزہ ہے ایک الگ دلکشی ہے ۔ہم بڑے ہیں تو کیا ہوا جہاں بانی کے اصول ہمیں بچوں سے سیکھنے ہوں گے جو اپنی پیاری باتوں اور بچگانہ حرکتوں سے سب کو مسخر کر لیتے ہیں۔ فیس بک کے مجاہدین بھی تو ہمارے اپنے ہی بچے ہیں اگر وہ ’’کوڑا کرکٹ ‘‘ہیں تو ہمارے گھر کا ہی ہیں اگر منہ پھٹ ہیں تو کیا ہوا خون تو آخر اپنا ہی ہے ۔ان کا اخلاق اور ان کی باتیں نا پسندیدہ ہیں تو کیا ہوا ہیں تو یہ ہماری ہی کسی غلطی کا عکس ہی تو ہیں۔ ہماری غفلت کا اور ہماری کسی دو عملی کا واضح عکس۔۔ ان کی گستاخیوں پر انہیں برا بھلا کہنے اور ’’ڈس اون‘‘ کرنے کی بجائے انہیں اون کرنے اور اپنا سمجھ کر انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔اگر یہ ’’پھوڑا‘‘ہیں تو اسے مزید پھوڑنے سے اصلاح کا خیال دیوانگی ہے ۔پھوڑے کومزید پھوڑنے کی بجائے اسکی نگہداشت کرنے اور اس پر مرہم لگانے کی ضرورت ہے۔لیکن ہمارے بڑے اتنی معمولی سی بات بھی نہیں سمجھ پائے ۔یا پھر وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے ۔کیا وہ یہ بات نہیں جانتے کہ بولنا فطرت سے آتا ہے اور چپ رہنا دانش و حکمت سے۔یہ خاموشی کس کا بھرم نہیں رکھتی ؟جہاں یہ جاہل کا بھرم ہے وہیں عالم کیلئے جاہ پناہ بھی تو ہے ۔کیا ’’قالو سلاما‘‘ کہنا ہماری قرآنی تہذیب کا آئینہ دار نہیں ۔اگر زبان کھولنے اور کچھ بولنے سے پہلے ہم ان تین باتوں کا خیال رکھ لیں تو زبان سے جڑے ہمارے تمام مسائل کی جڑیں کٹ کر رہ جائیں گی۔وہ تین باتیں اخلاص،احتیاط اور اختصار ہیں۔حرف آخر کے طورپر حکیم اسلام مولا علی کافرمان پیش کرتا ہوں ۔ فرماتے ہیں’’ہر چیز کی زکوۃہوتی ہے اور عقل کی زکواۃ جاہلوں کی باتوں پر صبر کرنا ہے‘‘ ۔

 

Safder Hydri
About the Author: Safder Hydri Read More Articles by Safder Hydri: 77 Articles with 71204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.