حیرت انگیز تناسب

سبّح اسم ربّک الاعلی ہ الّذی خلق فسوّ'ی ہ والّذی قدّر فھد'ی ہ------ الاعلی' ۱-۳
اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو- جس نے پیدا کیا اور تناسب قا‎‎ئم- کیا جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی-

تفسیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تفہیم القرآن
اللہ نے زمین سے آسمانوں تک کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا، اور جو چیز بھی پیدا کی اسے بالکل راست اور درست بنایا، اس کا توازن اور تناسب ٹھیک ٹھیک قائم کیا، اس کو ایسی صورت پر پیدا کیا کہ اس جیسی چیز کے لئے اس سے بہتر صورت کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا- ہر چیز کے پیدا کرنے سے پہلے یہ طے کر دیا کہ اسے دنیا میں کیا کام کرنا ہے اور اس کام کے لیے اس کی مقدار کیا ہو، اس کی شکل کیا ہو، اس کی صفات کیا ہوں، اس کا مقام کس جگہ ہو، اس کے لیے بقا اور قیام اور فعل کے لیے کیا مواقع اور ذرائع فراہم کیے جائیں، کس وقت وہ وجود میں آئے، کب تک اپنے حصّے کا کام کرے اور کب کس طرح ختم ہو جائے- اور کسی چیز کو بھی محض پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ جو چیز بھی جس کام کے لیے پیدا کی اسے اس کام کے انجام دینے کا طریقہ بتایا-

آئیے تناسب کے حوالے سے مادّے کی بنیاد میں ایک حسین اور نازک تناسب کی حیرت انگیز مثال پہ غور کرتے ہیں، مادّے کے سب سے بنیادی ذرّات میں حیران کن تناسب جس سے ہماری کائنات اور زندگی قائم و دائم ہے:-

جدید سائنسی دور کے بہت اعلی' درستگی کے حامل پیمائش کرنے کے آلات اور کمپیوٹر سیمولیشن سے جو حیرت انگیز معلومات حاصل ہوئی ہیں ان سے پتہ چلا ہے کہ ہماری پوری کائنات اور اس میں زندگی صرف ایٹم کے تین بنیادی ذرّات یعنی پروٹون، نیوٹرون اور الیکٹرون کے درمیان ایک بہت نازک وزنی تناسب کی وجہ سے قائم ہے-طبعی قوانین میں سے کسی ایک قانون میں ایک خفیف سا تغیّر بھی کسی ایسی تباہی کا موجب بن سکتا ہے جو کائنات کے ارتقاء کو روک کے ہمارے وجود کو ناممکن بنا سکتا ہے- دراصل کائنات ایک بہت نازک تناسب پہ قائم ہے- یہ تناسب کتنا نازک ہے اسکا اندازہ اس مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر مضبوط مرکزی قوّت جسے اسٹرونگ نیوکلیر فورس کہتے ہیں جو ایٹم کے نیوکلیس میں پروٹون اور نیوٹرون کو جوڑ کے رکھتی ہے اگر ذرا سی بھی کم یا زیادہ ہوتی تو ستاروں میں کاربن اور دوسرے عناصر جو سیّارے اور زندگی تشکیل دینے کے لیے ضروری ہیں ، نہ ہونے کے برابر پیدا ہوتے اور اگر پروٹون صرف۱عشاریہ ۲ فیصد اپنی کمیت میں زیادہ بھاری ہوتے تو اس کے نتیجے میں کا‎ئنات میں سب سے پہلے بننے والا عنصر یعنی ہائڈروجن فوری طور پر نیوٹرون میں زوال پذیر ہو جاتا- کوئی ستارہ یا سیّارہ نہیں بن سکتا تھا! زندگی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا- اگر پروٹون صرف اعشاریہ ۱ فیصد نیوٹرون سے بھاری ہوتا تو ہائڈروجن نہ ہوتی بلکہ ڈیوٹیریم ہوتی جس سے بھاری پانی (ہیوی واٹر) وجود میں آتا جسے پیا نہیں جا سکتا اور کاربن12 کے بجائے کاربن14 ہوتی جس سے ہماری جیسی زندگی ممکن نہ ہوتی- ایسا لگتا ہے کہ طبعیات کے قوانین ، خصوصاً ان کی مستقل قدریں یعنی وہ قدرتی کانسٹنٹ جو ان قوانین میں استعمال ہوتے ہیں ، ہمارے وجود کوممکن بنانے کے لیے کہیں سے مافوق الفطری طور پر فائن ٹیون کیے گئے ہیں- ہم اس خاص الخاص کائنات میں رہتے ہیں جہاں زندگی کو ممکن بنانے کے لیۓ ساری ٹھیک شرائط یکجا کر دی گئی ہیں!

سورج (ستاروں) میں جلنے کا عمل ایٹمی تعمّلات کے ذریعے ہوتا ہے جس میں پروٹون اور نیوٹرون مدغم ہو کر بھاری عناصر کے مرکزے بناتے ہیں-

اور یہ بھاری عناصر سیاّرے، انکی فضائیں اور زندہ مخلوقات کی تشکیل کرتے ہیں جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس عمل کو جاری و ساری رکھنے کے لیے ان ذرّات میں کمیّت کا تناسب بہت اہمیت رکھتا ہے، یہ کمیّت بہت نازک تناسب میں ہونی چاہییں--- مزید مطالعہ کے لیے دیکھیے سائنٹفک امریکن شمارہ جنوری 2010

موجودہ دور کا اونچے قد کا سائنسدان لی سمولن ،طبعیات کے میدان میں جس کی ساری کوششیں بے خدا کائنات کو ثابت کرنے کی کوششوں میں صرف ہو رہی ہیں، اپنی کتاب " دی لائف آف دی کوسموس" میں اس پراسراریت کا اعتراف اس طرح کرتا ہے: "اگر ہم تین مشہور ذرّات یعنی پروٹون، نیوٹرون اور الیکٹرون پہ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ نیوٹرون پروٹون سے وزن یا کمیّت میں صرف دو فی ہزار یا اعشاریہ ۲ فیصد زیادہ ہے اسکے مقابلے میں الیکٹرون ان دونوں سے بہت زیادہ ہلکا ہے یعنی پروٹون سے 1800 گنا زیادہ ہلکا ہے-ان تینوں ذرّات کی کمیّتوں میں بڑی پراسراریت ہے- نیوٹرون اور پروٹون کی کمیّتیں اتنی قریب قریب کیوں ہیں؟ الیکٹرون مقابلتاً اتنا ہلکا کیوں ہے؟ لیکن اس مسئلہ میں سب سے زیادہ پراسرار بات دو چھوٹے اعداد ہیں ، الیکٹرون کی کمیّت اور وہ خفیف مقدار جس سے نیوٹرون پروٹون سے بہت تھوڑا سا بھاری ہے- یہ مقداریں آپس میں ہم آہنگ ہیں(یعنی ایک نازک تناسب میں ہیں)- نیوٹرون پروٹون سے تین الیکٹرونی کمیّتوں کے برابر زیادہ بھاری ہے!!

ہم اس تصوّر کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ پروٹون اور نیوٹرون آپس میں چپک کر سینکڑوں مختلف قیام پذیر مرکزے (نیوکلیس) بناتے ہیں کہ یہ تصوّر کرنا محال ہے کہ یہ ایک بہت غیر معمولی تناظر ہے- مگر درحقیقت یہ ایک بہت غیر معمولی بات ہے-اگر الیکٹرون کی کمیّت اس فرق کے تقریباً برابر نہیں ہوتی جو پروٹون اور نیوٹرون کی کمیّتوں کے درمیان ہے اور ان میں سے ہر ایک پروٹون کی کمیت سے کافی کم نہیں ہوتا تو یہ ناممکن ہوتا کہ ایٹم کے مرکزے قائم رہ سکتے ! یہ عظیم اہمیت کے حامل حقائق ہیں اس دنیا کے لیۓ جسے ہم جانتے ہیں- کیونکہ بغیر قیام پذیر نیوکلیس کے نہ ایٹمی فزکس ہوتی، نہ ستارے اور نہ ہی کیمسٹری- ایسی کائنات ڈرامائی طور پر ایک غیر دلچسپ کائنات ہوتی- بنیادی ذرّات کی فزکس کے معیاری ماڈل کے مطابق پروٹون، نیوٹرون اور الکٹرون کے وزن(کمیّت) مکمل طور پر آزاد مستقل قدروں کے ذریعے سیٹ ہوتے ہیں- جیسے کسی کنٹرول پینل پہ کوئی ڈائل ہو جس سے یہ اوزان ٹیون کیے جاتے ہیں – مصنّف ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ کشش ثقل کے مستقل (گریوٹیشنل کونسٹینٹ) کی حیرت انگیز چھوٹائی ذرّاتی طبعیات کے مستقل اعداد( پیرامیٹر) سے وابسطہ ایک پراسراریت ہے- ایک بے معنی عدد 38- 10 ---کس طرح سے قدرت (نیچر) بنائی گئی ہے کہ ایک اہم عدد جو بنیادی سطح پر قدرت کے عوامل کو متعیّن کرتا ہے صفر سے اتنا قریب ہے، لیکن صفر نہیں ہے! یہ سوال فزکس کے اہم ترین غیر حل شدہ اسراروں میں سے ایک ہے! یہ بہت حیران کن بات لگتی ہے کہ کشش ثقل جیسی کمزور قوّت زمین پر اور فلکیات اور آفاقیات میں ہونے والے واقعات میں اتنا اہم کردار ادا کرتی ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ ، بہت سی صورتوں میں، دوسری قوّتوں میں سے کوئی بھی قوّت بہت بڑے فاصلوں پہ کام نہیں کر سکتی- کشش ثقل ہمیشہ پر کشش رہتی ہے- کوئی قوت اسکو منسوخ نہیں کرتی – معلوم ہوا ہے کہ کشش ثقل کے مستقل کی حیرت انگیز کمزوری ستاروں کے وجود کے لیے ضروری ہے--------سبحان اللہ -----کائنات کے مجازی مطالعہ کے لیۓ درج ذیل لنک کلک یا پیسٹ کیجیے: https://www.space.com/php/multimedia/imagegallery/igviewer.php?imgid=3971&gid=286&index=0
https://www.space.com/php/popup/virtualspacetour/noad_astropedia.php
Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 25 Articles with 46924 views I am a passionate free lance writer. Science , technolgy and religion are my topics. Ihave a Master degree in applied physics. I have a 35 + years exp.. View More