جیت کی دستک

مینا عالیہ اور ان کی ماما ہر ہفتے فیملی کلب ضرور جاتے تھے۔
وہاں بچوں اور بڑوں کے کھیلنے کے لیے وافر جگہ تھی۔ بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس یا سنوکر کے لیے الگ الگ ہال موجود تھے۔
ایک بڑے جم کے علاوہ چہل قدمی کے لیے میدان بھی تھے اور سب سے مزے کی بات کلب میں ایک بہت بڑا مستطیل شکل کا سوئمنگ پول بڑوں کے لئے تھا اور دوسرا چھوٹا پول اس کےمتوازی کچھ ہی فاصلے پر بچوں کے لیے بنایا گیا تھا۔
فیملی کلب میں آئے انہیں پانچ روز گزر گئے تھے۔
بڑے پول میں بچیاں اور عورتیں رنگ برنگی کاسٹیومز اور کیپ پہنے بڑی مہارت سے تیر رہی تھیں۔ جیسے بہت سی تتلیاں پانی پر اڑ رہی ہوں۔ جنہیں دیکھ کر مینا کا بھی جی چاہا کہ وہ بھی ہر زاویہ سے کم پانی یا گہرائی میں حرکت کر سکے۔
کھلکھلاتی بچیوں کو دیکھ کر اس نے بڑی حسرت سے کہا: ماما میں تیرنا کب سیکھوں گی؟
بیٹا جلد سیکھ جاؤ گی۔ آپ بھی ایک دن ان سب بچیوں کے ساتھ تیرو گی۔ ماما نے اسے دلاسا دیا۔
پہلی بار جب وہ پول میں اترنے لگی بڑی احتیاط سے کنارے پر بیٹھ کر اپنی ٹانگیں پانی میں اتار دیں۔ کچھ دیر انہیں ہلاتی جلاتی چھینٹے اڑاتی کھیلتی رہی۔ کبھی ایک نگاہ ادھر دوڑاتی تو کبھی ادھراور مختلف نظارے آنکھوں میں سمیٹتی محظوظ ہوتی چلی جاتی۔ پھر تھوڑی دیر بعد مینا نے ہمت پاکر باقی جسم بھی پانی میں اتار دیا۔
مینا چونکہ نو دس سالہ چھوٹی بچی تھی اس حساب سے بچوں کے لئے پانی کی سطح بھی پول کے اندر موجود تھی۔ سب سے کم گہرائی والی جگہ طویل سوئمنگ پول کا آغاز تھی۔ جوں جوں آگے بڑھتے جائیں گہرائی کی سطح بھی تبدیل ہوتی جاتی تھی۔ابتدائی حصے میں پانی اس کی کمر سے ذرا سا اوپر تک تھا۔
پہلے پہل تو وہ پول کے فرش پر قدم جما جما کے چلتی اپنا خوف دور کرتی رہی پھر معمول کے مطابق کلب آتی۔ کاسٹیوم پہنتی اور پانی میں اتر جاتی۔ اب باقی بچیوں کو دیکھ دیکھ کر اس نے خود کو پانی کی سطح پر لٹانا شروع کر دیا تھا۔
ایک روز مینا کی مدد کے لیے کیپٹن میڈم لیلی اس کے قریب آئیں اور ہاتھوں پیروں کے اشارے سے اسے گائیڈ کرنے لگیں۔ سوئمنگ پول کے باہر ایک طرف بیٹھ کر ہولڈر پانی میں لے گئیں اور پیار سے کہا:
بیٹا اسے پکڑو اور پانی کی سطح پر سیدھی لیٹ جاؤ۔
ڈوبنے کے ڈر اور جھجک سے مینا نے منع کر دیا لیکن پھر کیپٹن کے حوصلہ دینے پر پکڑ لیا۔ ماما بھی اس کی ہمت بندھا رہی تھیں۔ کیپٹن نے اسے کہا:
اسے پکڑے رکھو اور تھوڑاسا گہرائی میں آؤ بیٹا۔ آپ نہیں ڈوبوگی۔
اس نے اور مضبوطی سے ہولڈر تھام لیا۔ پھر میڈم پول کے آغاز سے مینا کو تھوڑا سا آگے لے گئی تھیں تاکہ اس کا خوف ختم ہو۔ جیسے ہی پانی دھڑ سے اوپر جارہا تھا مینا کے چہرے پر خوف اور تشویش کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ مینا نے یکدم ہولڈر چھوڑا اور پیچھے ہٹ گئی۔ کیپٹن نے اسے تسلی دی اور کچھ روز کیلئے مینا کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔
ایک ماہ تک مینا اپنی مدد آپ کے تحت مختلف تجربات کرتی رہی وہ بار بار پانی کی سطح پر لیٹتی اور ہاتھ پیر چلانے لگتی۔
پانی جب اس کے منہ اور کان میں جانے لگتا تو سیدھی کھڑی ہو جاتی۔ لیکن اس نے سیکھنے کی خواہش میں مشق جاری رکھی۔ کبھی کبھی مینا اور بڑی بہن عالیہ دونوں ہاتھ پکڑ کے ایک دوسرے کی مدد کرنے لگتیں۔
عالیہ نے جلد ہی سیکھ لیا تھا۔ عالیہ نے مینا کی اپنے ہاتھوں اور پیروں کی مدد سے ہمت بڑھانا شروع کر دی تھی۔ آج عالیہ نے مینا سے بہت پیار سے کہا:
مینو۔۔۔ میرے کاندھوں پر ہاتھ رکھو اور پانی کی سطح پر سیدھی لیٹ جاؤ۔میں جیسے جیسے آگے بڑھوں گی تم پیچھے سے ٹانگیں چلاتی جانا۔
عالیہ مینا کو متحرک کرنے کا باعث بنتی رہی اور یوں ایک دن عالیہ نے مینا کے ہاتھ چھوڑ دیئے تھے اور مینا سے کہا:
ہاتھوں کو پانی میں چلاؤ۔ پہلے دایاں ہاتھ پانی کو چیرتا ہوا گزار دو پھر بایاں ہاتھ پانی کو چیرتا ہوا گزار دو۔ اور اسی رفتار سے پیچھے سے ٹانگیں بھی چلاتی جاؤ۔۔۔یوں 2۔1۔ 2۔ 1۔ 2۔ 1 کی تکرار سے دونوں بازو تیز چلاتی جاؤ۔
بے حد شوق کے باعث اب مینا نہ میڈم لیلی کی مدد لیتی نہ ہی عالیہ سے کچھ کہتی نہ ہی کسی سہیلی سے مدد طلب کرتی۔ کیونکہ اس روز ہاتھوں سے ہاتھ چھوٹ جانے کے بعد اس نے تیزی سے ہاتھ پیر چلا کے خود کو سنبھال لیا تھا۔ اور اب وہ آزادانہ طور پر ہاتھ پاؤں چلاتی کم گہرائی والی جگہ میں تیرنے لگی تھی۔عالیہ، اس کی امی اور کیپٹن یہ دیکھ کر بہت مسرور ہوئیں۔
ایک دن جب مینا کے کان میں پانی چلا گیا وہ یکایک پانی سے نکل کھڑی ہوئی۔پہلے خود سے کوشش کی پانی نہ نکلا پھراسے دیکھتے ہی کیپٹن دور سے چلتی قریب آئیں اور کہا:
سر بائیں طرف الٹا کرو اور بائیں پیر سے فرش پر زور سے اچھلو تو سارا پانی بائیں طرف کے جھکاؤ پر کان سے نکل آئے گا۔
اس روز وہ بہت گھبرائی مگر سر ٹیڑھا کیے بائیں پیر پر اچھلتے چلے جانے سے گرما گرم پانی اس کے کان سے بہہ نکلا اس طرح وہ پر سکون ہوئی اور اس کا سر ہلکا ہو گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے اب نہ اسے کان میں پانی جانے کا ڈر تھا نہ ہی ناک میں اور نہ ہی گلے میں۔
لیکن اب بھی ایک مسئلہ باقی تھا اسے کم سے زیادہ اور بہت زیادہ گہرائی کا فاصلہ طے کرنا تھا۔عالیہ اور دیگر بچیوں کی طرح وہ بھی زیادہ گہرائی والے پانی میں اتر کے تیرنا اور کھیلنا چاہتی تھی۔
وہ گردن سے اوپر ہوتے پانی کو عبور نہیں کر پاتی تھی۔حالانکہ وہ واٹر پلاسٹک ٹیوب پہنے ادھر ادھر جھولتی رہتی تھی۔
مینا کو یوں آرام دہ حالت میں دیکھ کر ایک روز اس کی بڑی بہن نے کہا:
مینا پلاسٹک ٹیوب تو آپ کو ہاتھ پیر چھوڑے بغیر بھی کہیں ڈوبنے نہیں دیتی تو آپ اسے اسی طرح کمر میں پہنے ہوئے گہرائی میں کیوں نہیں جاتی؟ سونو آپ نہیں ڈوبو گی۔۔
بہن کو سن کر وہ بھولپن سے بولی:
نہیں آپی گہرائی سے ڈر لگتا ہے۔ مینا کے اس آخری خوف کو بھی بھگانے کے لیے آپی نے دلجوئی کی:
نہیں میری بہادر چندہ یہ لو کیپٹن کا لوہے والا ہولڈر پکڑو۔۔دیکھو یہ کتنا مظبوط ہے۔ڈوبنے نہیں دے گا۔ پیچھے سے ایک سرا میں نے پکڑا ہے اسے تھامے رکھو اور میں اسے پکڑ کے گہرائی کی طرف لے چلتی ہوں اب پلاسٹک ٹیوب بھی تو پہنی ہے ناں۔۔۔ پھرگڑیا ڈوبنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!
مینا نے بڑی بہن پر اعتبار کر لیا تھا۔
آپی نے بڑے آرام سے ہولڈر اٹھا کر پانی میں اتار دیا۔ مینا نے درمیان سے تھامے رکھا اور آپی سوئمنگ پول کے کنارے کنارے آگے بڑھتی جارہی تھیں اور اب مینا درجہ بدرجہ آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ پلاسٹک ٹیوب کے سہارے وہ خود کو بے وزن اور بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی اور اسے ہاتھ پیر بھی نہ چلانے پڑ رہے تھے اور اب مرحلہ وار آپی اسے زیادہ گہرائی والے پانی کی سطح پر لے آئی تھیں۔
مینا حیران رہ گئی کہ اس نے سارا حصہ پار کرلیا ہے۔ وہ بے حد خوش ہوئی اور اس کا سارا ڈر دم دبا کر بھاگ گیا اس نے خوف پر قابو پا لیا تھا۔ صرف یہ خوف ہی تھا جو اسے وہ جگہ پار کرنے نہیں دے رہا تھا۔ جبکہ پلاسٹک ٹیوب، ہولڈرکی مظبوط گرفت، بہنیں، امی، کیپٹن کی نگرانی جیسے سہاروں۔۔۔اور ان سب سے بڑھ کر ذاتی ہمت اور شوق کی موجودگی میں ڈوبنے کے خوف کا تو کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا۔
”کیونکہ خوف کا کوئی وجود تھا ہی نہیں وہ فقط ذہن کی سوچی ہوئی پیداوار تھی۔ جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ذہنی الجھن جیت کی راہ میں صرف ایک رکاوٹ بنی ہوئی تھی اور کچھ بھی نہیں۔“
سب بڑے مزے سے تیر رہے تھے۔اس کے بعد مینا نے پلاسٹک ٹیوب بھی اتار کے پھینک دی۔
اب وہ پول میں آتے ہی سب سے پہلے گہرائی والی اطراف سے پانی میں اترا کرتی۔ وہاں تیرتی، سانس روک کے پول کے ساتھ لگی اندرونی سیڑھیاں پکڑے رکھتی اور بلندی سے ہوتی ہوئی پول کے اندرسب سے زیادہ گہرائی میں اتر جاتی۔
جونہی وہ پیر سب سے زیادہ گہرائی والے فرش پر لگا لیتی تو سیڑھیوں کو جھٹ سے چھوڑ دیتی یوں پانی کے پریشر سے فورا اوپر آ جاتی۔
اس طرح مینا نے اپنے طور پر گہرائی کے فاصلے کا بھی اندازہ لگا لیا تھا اور یہ سمجھ لیا تھا۔۔۔ کہ:
”تیرنا آتا ہو۔۔۔ تو۔۔۔ گہرائی کم ہو یا زیادہ۔۔۔ اصل چیز تیرنا ہے۔ گہرائی جتنی بھی ہو پانی کی سطح تیرنے والے کو اوپر ہی رکھتی ہے اور صرف خوف ہے جو اعصاب پر طاری کرنے سے ہی کوئی ڈوب سکتا ہے۔“
اب جہاں سے جیسے بھی مینا کا جی چاہتا وہ تیرتی پانی میں چھلانگیں لگاتی اور دونوں بہنیں عالیہ اور مینا خوشی خوشی پول میں ریس لگاتیں اور خوب مزے کرتی، کھلکھلاتی لطف اُٹھاتیں گھر کو لوٹ آتی تھیں۔ اس طرح مینا نے اپنی کوششوں سے بہت جلد خوف پر پر قابو پا لیا اور جیت حاصل کرلی تھی۔
 

Sameera Rafique
About the Author: Sameera Rafique Read More Articles by Sameera Rafique: 3 Articles with 8961 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.