تحریر : محمد ارسلان رحمانی
جمعرات کو مدرسے کے معلم بچوں کو تربیت سے متعلق لیکچر دیتے تھے۔ آج بھی
لیکچر جاری تھا۔ یہ لیکچر نماز کی اہمیت پر تھا۔ معلم گویا ہوئے۔ دیکھو بچو!
قرآن سے بھی اہم چیز ہمارے لیے نماز ہے، ہم اچھی اچھی اور 5 وقت کی نماز
پڑھیں گے تو ہمارا اﷲ ہم سے راضی ہوگا، جب اﷲ تعالیٰ ہم سے راضی ہوں گے تو
اﷲ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجید ہمارے لیے آسان کردیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ
سب بچے عبداﷲ کی طرح بن جائیں۔
عبداﷲ ہونہار طالبعلم کے ساتھ صوم صلواۃ کا بھی پابند تھا۔ فجر کی نماز جو
اچھے اچھے نمازیوں پر بھاری پڑتی ہے عبداﷲ فجر بھی باجماعت پڑھتا۔ پہلی صف
میں بیٹھنے کی کوشش رہتی۔ قرآن سیکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ عبداﷲ چاہتا تھا
کہ وہ قرآن حفظ کرلے اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ عبداﷲ نے اپنے شوق کو عملی
جامہ پہنانے کے لیے باقاعدہ محلے کے ایک مدرسہ میں داخلہ لے لیا۔
آج استاد صاحب بچوں میں نماز کا شوق پیدا کرنے کیلیے عبداﷲ کی مثال دے رہے
تھے۔ یہ تربیت کا سلسلہ ہر جمعرات یونہی چلتا رہا۔ چند ماہ ہی گزرے تھے کہ
آج پھر جمعرات کا دن تھا، استاد صاحب بچوں کی تربیت کیلیے لیکچر دے رہے تھے۔
بچو! عبداﷲ کی طرح مت بننا، خیال کرنا، اپنے آپ کو بچاکر رکھنا۔ لیکن یہ
کیا چند ماہ پہلے تو استاد صاحب بچوں سے کہہ رہے تھے کہ عبداﷲ کی طرح بن
جائیں لیکن آج اس کا الٹ ہے۔ استاد صاحب بچوں کو عبداﷲ کی طرح بننے سے روک
رہے تھے، یہ معاملہ کیا تھا؟؟؟
دراصل چندماہ پہلے کے عبداﷲ اور آج کے عبداﷲ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
عبداﷲ برے دوستوں کی صحبت اختیار کرچکا تھا۔ اپنے سے بڑے اور برے لڑکوں کے
ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھیل کود کا شوق زیادہ ہوگیا۔ دوستوں کے گھروں میں آنا
جانا شروع ہوگیا۔ قرآن کے بجائے گانے سننے میں مزہ آنے لگا۔ قرآن
چھوڑدیا،نماز چھوڑدی۔عبداﷲ پوری طرح بری صحبت میں جکڑچکا ہے۔
عبد اﷲ کوبری صحبت نے برا بنا دیا تھا۔آج کا عبداﷲ کل کے عبداﷲ سے مختلف
تھا۔ بچو! صحبت کا ہماری زندگی پر برا اثر پڑتا ہے۔ اپنے دوستوں کا چناؤ
دیکھ کر کریں۔ اچھے اور برے کا خیال رکھیں۔ یہ مت سوچیں کہ وہ برا ہے آپ
برے نہیں ہوں گے، وہ آپ کو برا بنا دے گا۔ اس لیے اس سے بچیں۔ اپنی عمر سے
بڑے لڑکوں کے ساتھ مت بیٹھیں۔ تاکہ آپ ایک اچھے عبد اﷲ کی طرح سب کے لیے
مثال بنے رہیں۔
|