آپ کا بولنا چالنا اور مختلف اوقات میں، مختلف موقعوں پر،
آپ کا رویہ اور سوچنے کا انداز، آپ کی شخصیت کہلاتا ہے۔
نفسیات کا ایک اصول ہے کہ جب انسان کوئی بات سوچتا ہے تو اس کے ذہن میں ایک
خیال پیدا ہوتا ہے۔ اگر یہ خیال زیادہ عرصے تک اس کے ذہن میں رہے تو یہ اس
کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔
ایک مثال سے اس کی وضاحت کرے دیتا ہوں، کہ اگر کوئی شخص یا لڑکا فلموں کا
شوقین ہے اور ایک ہی ہیرو کی فلمیں دیکھتا ہے، تو رفتہ رفتہ آپ اس کی شخصیت
میں تبدیلی دیکھیں گے۔ اس کے بولنے کا انداز، اس کے بال بنانے کا انداز، اس
کا ہیئر کٹ، یہاں تک کہ اس کے سوچنے کا انداز بھی اس خاص کردار سے مطابقت
رکھے گا جس نے اسے سب سے زیادہ متاثر کیا ہوگا۔
یہاں مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول یاد آ گیا کہ" اپنی سوچوں کو
پانی کے قطروں کی طرح شفاف رکھو کیونکہ جو تم سوچتے ہو وہ تمہاری شخصیت کا
حصہ بن جاتا ہے"
ہمارے اردگرد کا ماحول بھی ہماری شخصیت پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ انسان کی
پہلی تربیت گاہ تو اس کے والدین کا کمرہ ہوتا ہے۔ بچہ اپنے والدین سے
سیکھتا ہے، کیونکہ اس دنیا میں آنے والی ہر روح معصوم ہوتی ہے۔ اس کے ارد
گرد کا ماحول اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ والدین کے آپس کے تعلقات بچے کے
ذہن پر گہرا نقش چھوڑتے ہیں یہاں تک کہ ان کا بچوں کے لئے اوور پوزیسیو
ہونا بھی بچوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کے بعد جب بچہ معاشرے کا حصہ
بن جاتا ہے تو سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے، کہ اس کے دوست کیسے ہیں۔ کیا اس
کے دوست اس کی عمر کے ہیں؟ اسی کی جنس کے ہیں؟ اور کلاس یعنی اسی کی حیثیت
کے ہیں؟ بہن بھائیوں میں سے ہیں یا باہر سے ہیں؟
میرے خیال میں ایک لڑکے کا بہترین دوست اس کے باپ کو ہونا چاہیے اور لڑکی
کی ماں اس کی بہترین رازداں ہو۔ دوستوں کا ان کی عمر اور حیثیت کے مطابق
ہونا اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ انکی اپنی عمر کے مطابق ذہن سازی ہو، اور وہ
خاص طور پر جنسی ہراسمنٹ سے بچے رہیں۔
خیر ہم شخصیت کے موضوع پر واپس آتے ہیں ہمارا ماحول ہماری شخصیت پر گہرا
اثر ڈالتا ہے۔ کچھ لوگوں کی شخصیت سے منفی طاقت نکلتی ہیں یہاں تک کہ اگر
آپ کی شخصیت مضبوط نہ ہو تو صرف قربت سے ہی وہ آپ کو متاثر کرنا شروع کر
دیتی ہیں۔ ہو سکتا ہے ابتدا میں آپ کو ان سے کراہت محسوس ہو، لیکن اگر ان
کے ساتھ زیادہ وقت گزارا جائے، تو آپ پر بھی ان کا رنگ چڑھنا شروع ہو جاتا
ہے۔
ہمارا دین اس بات کو ایسے سمجھ آتا ہے ہے کہ "اگر خوشبو کی دکان سے نکلو گے
اور اگر تم نے خوشبو نہ بھی لگائی ہو تو بھی تم سے خوشبو آئے گی، لیکن اگر
لوہار کی بھٹی سے نکلو گے، جہاں کوئلے جل رہے ہوتے ہیں تو تمہارا چہرہ
خودبخود کالا ہو جائے گا"۔
یہاں مجھے اردو زبان کی ایک ضرب المثل یاد آ گئی، کہ 'اچھے کام کرنے سے
بہتر ہے اچھوں میں اٹھنا بیٹھنا اور برے کام کرنے سے بدتر ہے بروں میں
اٹھنا بیٹھنا'۔
اسی طرح جب آپ ان لوگوں میں وقت گزارتے ہیں جو مثبت شخصیت کے حامل ہوتے
ہیں، تو ان کی شخصیت کے مثبت اثرات بھی آپ پر مرتب ہوتے ہیں، جیسے مسجد میں
کچھ لوگ ایسے بھی ملتے ہیں کہ جن کے پاس بیٹھنے سے ہیں آپ اپنے اندر مثبت
قوتوں کا چڑھاؤ محسوس کرتے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرنے والے پروفیشنل
لوگ تو نان پروفیشنلز کے ساتھ بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتے کہ ان کی شخصیت
متاثرہوتی ہے۔
ہمیں اگر اپنی زندگی کو خوشحال بنانا ہے تو اپنی شخصیت پر کام کرنا ہوگا،
کہ یہی خوشحال زندگی کی ضامن ہے۔
|