ناصر ناکا گاوا جاپان میں پاکستان اور اردو زبان وادب کابے لوث سفیر...دوسری قسط ۔۔۔۔

یوں تو ناصر ناکاگاوا1988ء سے جاپان میں آباد ہیں اور انہوں نے اپنی عائلی زندگی کا آغاز بھی وہیں کی ایک خاتون سے شادی کرکے کیا جن کے والد کا خاندانی نام ”ناکاگاوا“ تھا اور ان کے نام کے ساتھ بھی اب یہی خاندانی نام لکھا جاتا ہے تو گویا اس اعتبار سے ”ناصر“ پاکستانی ٹھہرے اور ”ناصر ناکا گاوا“ جاپانی۔یقینا وہ اس دوران پاکستان آتے جاتے رہے ہیں لیکن 12/اگست2013ء کو وہ اپنے دونوں بیٹوں عادل ےُوتا(Adil Yuta)اور شاہ رخ یوسوکے(Shahrukh Yosuke) کے ہمراہ تیرہ سال بعد پاکستان گئے اور اس سفر کے آغاز سے اختتام تک کے سفر کو جس طرح تحریر کیا ہے،وہ نہایت دلچسپ ہے کہ اس کی ایک ایک سطر کو نظرِ عمیق سے پڑھنے سے لطف آتا ہے۔ خاص طور پر ابتدا میں جب ناصر اپنے بچوں کو پاکستان لے جانے کا گھر میں اعلان کرتے ہیں تو ان کی اہلیہ کے تاثرات اور جذبات جس طرح بیان کیے گئے ہیں، بیرونِ پاکستان رہنے والوں کے ایسے ہی ہوتے ہیں گویا اس میں کوئی ملمع کاری نہیں کی گئی بلکہ تاثرات حقائق پر مبنی ہیں؛ لیکن پاکستان انٹر نیشنل ائیر لائن سے پاکستان جانا پاکستان سے والہانہ محبت کا اظہار تو ہے مگر جس طرح پی آئی اے والے خوار کرتے ہیں شاید اس کا اندازہ مصنف کو سفر سے پہلے نہ تھا۔راقم الحروف چونکہ خود بھی ایک عرصہ دراز سے بیرون ملک مقیم ہے اس لیے ان تاثرات اور جذبات واحساسات کو فی الواقعی محسوس بھی کر سکتا ہے اور ان کا ادراک بھی رکھتا ہے۔دیکھیے ناصر ناکاگاوا کی اہلیہ کس طرح ان کا سامانِ سفر تیار کرتی ہیں:
بیگم نے ہم تینوں کی ضروریات کی اشیاء اور نئے سوٹ کیس وغیرہ خریدے اور دونوں بچوں کے لئے منرل واٹر سے ادویات تک کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ بنا کر الگ الگ سوٹ کیسوں میں بھر دئے اتنا سامان دیکھ کر لگ رہا تھا ہم تینوں پاکستان کی سیر کرنے نہیں بلکہ جنگ پر جا رہے ہیں آخری تین دنوں تک بیگم ہر روز نہ جانے کتنی بار مارکیٹ جاتی تھی اور تھیلے بھر بھر کر شاپنگ کرکے انھیں پیک کر رہی تھی جن میں جاپانی کھانے پینے کی اشیاء، جوس، پانی، چاول، دلیہ،بسکٹ، کینڈیز، چاکلیٹس، سر درد کی گولیاں، ٹیشو، پیٹ درد کی گولیاں، قبض کی گولیاں،نزلے بخار اور کھانسی کےشربت، پیچس کی گولیاں، زخمی ہونے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد کا سامان غرض یہ کہ ایک سوٹ کیس منی میڈیکل اسٹور اور کھانے پینے کی اشیاء پر مشتمل تھا، ہر تھیلے پر اسکے اندر پیک اشیاء کے بارے میں تفصیلات تھیں۔ ہفتے اتوار کو آخری دن تھا اس دن تو بیگم نے حد ہی کردی وہ وہ چیزیں ہمارے سوٹ کیس میں رکھیں جسکا شاید استعمال بھی مشکل ہی سے ہوتا، مثلاََ تھرما میٹر، چہرے پر لگانے والے ماسک، گرمی سے بچنے کے لئے آئیس پیکٹ جو فرج میں رکھنے سے کئی گھنٹے تک ٹھنڈک پہنچاتے ہیں کمر پر کھجانے والا پنجا، رسی، ربر بینڈ اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔

پھر وہ خدا خدا کرکے پیا کی پرواز سے اسلام آباد کے بے نظیر بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اتر گئے اور وہاں سے ہوٹل میں بھی خیریت سے پہنچا دئیے گئے۔ اس کے بعد ان کی ملاقات جاپان کے سفارت خانے میں جاپانی سفیر سے بھی ہوئی۔ اسی طرح کی بہت سی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں اور اس کے بعد کا حصہ وہ ہے جس سے ہر بیرونِ ملک رہنے والی فیملی نبرد آزما ہوتی ہے اور اس تکلیف دہ مرحلے سے گزرتی ہے، ”جب بچے پیٹ کی تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں“۔ چنانچہ ناصر ناکاگاوا کے بچے بھی اس سے دوچار ہوئے اور پھر واپسی پر پیا والوں نے جو سلوک کیا اس کا بیان بھی طالب ِ توجہ ہے۔لکھتے ہیں:
مجھے پی آئی اے کی انتظامیہ اور اسکے ذمہداران پر رہ رہ غصہ آرہا تھا مگر کچھ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ کہ کوئی بھی اپنی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار ہی نہ تھا، پی آئی اے کے دفتروں میں افسران ایسے گھوم رہے تھے جیسے پکنک پر آئے ہوئے ہوں، کوئی چائے پینے میں مصروف تھا تو کوئی پان کی جگالی کر رہا تھا اور کچھ پوچھنے پر ہاتھ کے اشاروں سے جواب دیتے تھے۔کسٹم سے فارغ ہوئے تو ساتھ ہی سیکیورٹی والوں نے میرا سوٹ کیس کھول کر اس میں وہ ریت کی مورتیاں نکال لیں جو میں نے ٹیکسلا سے ایک غریب لڑکے سے چند سو روپے کی خریدی تھیں، اس افسر نے کہا کہ یہ کہاں سے خریدی ہیں؟ میں نے کہا کہ ٹیکسلا گئے تھے واپسی پر ایک بچہ ہاتھ میں لئے فروخت کر رہا تھا اور یہ اصلی نہیں نقلی ہیں، نوجوان افسر نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ میں خود ٹیکسلہ کا رہنے والا ہوں،مجھے توکبھی کوئی ایسی مورتیاں فروخت کرتا نظر نہیں آیا!! اس نے دوسرے افسران کو اس طرف متوجہ کیا جیسے میں بہت بڑا اسمگلر ہوں اور ملک سے نوادرات چوری کرکے جاپان لے جا رہا ہوں، بچے پریشان ہو رہے تھے، میں نے کہا کہ بھائی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ اصلی ہیں تو پھر آپ رکھ لیں اور واپس عجائب گھر میں بھیج دیں میں معذرت چاہتا ہوں یا کسی آثارِ قدیمہ کے ماہر کو بلا کر چیک کروالیں اور میری جان بخشیں، مگر وہاں کوئی ایسا انتظام نہیں تھا، اس نے وہ مورتیاں مجھے واپس کیں اور کہا کہ ہمیں معلوم ہے آپ جاپان جا کر انھیں مہنگے داموں فروخت کروگے، جاؤ عیش کرو اور نوٹ کماؤ، میں سوچتا رہا کہ اگر واقعی یہ اصلی ہوتیں تو کیا ہوتا!!۔آگے بورڈنگ کارڈ بنوایا تو بارہ کلو سامان زیادہ تھا جو کتابوں کی وجہ سے ہوگیا تھا تو کہا کہ چوبیس ہزار ادا کریں، میں نے چند کتابیں نکال کر وزن ہلکا کیا اور دو دو کتابیں بچوں کے ہاتھ میں پکڑا دیں، پھر بھی اس نے کہا کہ آپ پندرہ ہزار ادا کریں گے، میرے پاس صرف پاکستانی ۱۱ ہزار تھے اسکا بل بنواکر کیشیئر کو جمع کروائے مگر اس افسر نے کہا کہ ایک کتاب اور نکالو اور یہ ہمارے پاس رکھ دو ہم پڑھیں گے۔اب لاؤنج میں جا کر بیٹھ گئے اور اس وقت صرف آٹھ بجے تھے گویا ہمیں مزید چار گھنٹے یہیں گزارنے تھے، شارخ بار بار پیٹ کی شکایت کرتا تھا میں اس کے ساتھ واش روم گیا، واپسی پر خاکروب دروازے پر کھڑا ہوگیا تو اسے میں نے سو کا ایک نوٹ تھما دیا۔ پی آئی اے والوں کو شرم نہیں آتی کہ جن مسافروں کو چھ چھگھنٹے لاؤنج میں انتظار کرواتے ہیں انکے لئے پانی یا کھانے کا بندوبست بھی کرسکیں یا انکے لئے کوئی ایسی رعایتہی کردیں کہ جو مسافر متاثر ہوئے ہیں انکا کچھ کلو سامان زیادہ ہونے کی صورت میں وصول نہیں کیا جائے گا یاآئندہ پی آئی اے میں سفر کرتے وقت انھیں پچیس فیصد خصوصی چھوٹ دی جائے گی، اگر کچھ ایسے اقدامات بھی کئے جائیں تو ہوسکتا ہے کہ لوگ پی آئی اے سے دوبارہ بھی سفر کریں، مگر یہاں کسی کو فکر نہیں کہ پی آئی اے کے مسافر کم ہو رہے ہیں یا پی آئی اے کو نقصان ہو رہا ہے، انھیں صرف اپنی تنخواہوں اور مراعات کی فکر ہوتی ہے باقی سب کچھ بھاڑ میں جائے۔۔۔

گویا پاکستان کی سیاحت باپ بیٹوں پر کچھ بھاری پڑ گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی خاندان بیرونِ ملک سے پاکستان جاتا ہے تو وطن والوں کی محبت اور چاہت اس قدر ہوتی ہے کہ آپ سو بار یہ عہد کرکے جائیے کہ کھانے پینے میں احتیاط کریں گے اور اعزا واقارب سے اس سلسلے میں معزرت کرلیں گے لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں کیونکہ وہاں اصرار اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ شرمندگی کے دائرے کو بھی پار کر جاتا ہے اور پھر بس سموسے، مٹھائیاں، نان چھولے، سری پائے، حلوہ پوری اور دیگر مرغن غذائیں جب نرم ونازک معدہ شریف میں جاتی ہیں تو وہاں ایک تباہی مچا دیتی ہیں۔ معدے کے سیلیا کہتے ہیں کہ یہ کیا بلائیں وارد ہوگئیں، انہیں نہ کبھی سونگھا، نہ کبھی محسوس کیا، بس سب مل کر ایک ہی اعلان کرتے ہیں کہ انہیں پیٹ کے دوزخ سے باہر پھینکو تاکہ ہمیں مشقت کم کرنا پڑے اور پھر وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اسی حالت سے ناصر کے برخوردار جب گزرتے ہیں تو:
شاہ رخ چھ سات مرتبہ واش روم جا جا کر تھک گیا تھا اور میں نے اسے وہاں کرسیوں پر سلا دیا، تھوڑی دیر میں میرے دوست ریاض ایبی ساوا اور عامر بھی آگئے اور ہم نے یہ وقت باتیں کرتے ہوئے گزارا اور جہاز بارہ بجے کی بجائے رات ایک بجے لاہور سے اُڑا اور دو بجے اسلام آباد پہنچا تو وہاں طلعت بیگ، محبوب عالم، محمد شفیق، سردار خان اور دیگر دوست بھی جہاز میں سوار ہو گئے جو اسلام آباد پر سات گھنٹوں سے انتظار کر رہے تھے، اب طبیعت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ جی چاہتا تھا کہ اس دیس سے نکل کر اُس پردیس مین پہنچ جائیں جہاں انسانوں کی قدر ہے لوگوں میں انسانیت، محبت و خلوص ہے۔مجموعی طور پر آٹھ گھنٹے تاخیر سے یہ فلائٹ ٹوکیو پہنچی تو ہم سب کی حالت بری ہو چکی تھی اور سب کے منہ پر یہی الفاظ تھے کہ آج کے بعد ہماری توبہ ہمارے باپ کی توبہ جو کبھی پی آئی اے میں سفر کیا، مجھے پی آئی اے کی وجہ سے بہت زیادہ مالی نقصان بھی ہوا اور ذہنی کوفت بھی، کاش کہ میں اپنے دوستوں کی بات مان لیتا اور پی آئی اے کی بجائے کسی دوسری ایئر لائین میں سفر کرتا تو شاید بچے بھی خوش ہوتے، مگر میں نے تو یہ سفر کیا ہی پی آئی اے کے لئے تھا جس کی قیمت مجھے چکانا پڑی، لہٰذا پی آئی اے کے غم پی جائی اے اور آئیندہ بہ امرِمجبوری ہی پی آئی اے میں سفر کریں کہ مجبوری کا نام شکریہ!!!!

۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
 

Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 198716 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More