تقریباً ایک صدی بیتی، مشرقی
پنجاب کے ضلع گورداسپور میں ایک نہر کی کھدائی کا کام شروع ہوا۔ اس نہر کو
قادیان سے دو اڑھائی میل مغرب کی جانب سے بھی گزرنا تھا۔ قادیان کے قریب جب
اس نہر کی کھدائی شروع ہوئی تو محکمہ نہر کے ایک ملازم میر ناصر نواب کی
ڈیوٹی اس نہر پر لگی۔ میر ناصر نواب دہلی کا رہنے والا تھا اور ملازمت کے
سلسلہ میں بمعہ اہل و عیال یہاں آیا تھا۔ اور قادیان کے قریب ایک گاؤں ’’تتلہ‘‘
میں رہائش اختیار کر لی تھی۔ قادیان میں اس کی ملاقات ایک شخص مرزا غلام
قادر سے ہوئی تھی اور تھوڑی ہی مدت بعد یہ ملاقات ایک گہری دوستی میں بدل
جاتی ہے۔ ایک دن میر ناصر نواب کی اہلیہ بیمار ہوجاتی ہے۔ پردیس میں آیا
ہوا میر ناصر نواب بیماری سے پریشان ہو جاتا ہے اور وہ اپنی اس پریشانی کا
اظہار اپنے دوست مرزا غلام قادر سے کرتا ہے۔ مرزا غلام قادر اسے کہتا ہے کہ
تم فکر نہ کرو میرا باپ ایک ماہر طبیب ہے۔ تم بیوی کو لے کر میرے گھر آجانا،
میں والد صاحب سے اس کا علاج کروا دوں گا۔ میر ناصر نواب بیوی کو لے کر
قادیان پہنچتا ہے۔ اس کے دوست مرزا غلام قادر کا باپ مرزا غلام مرتضیٰ
مریضہ کی نبض دیکھتا ہے اور ایک نسخہ لکھ دیتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد دونوں
کی دوستی اور پکی ہو جاتی ہے۔ اس واقعہ کے کچھ مدت بعد غلام قادر کا باپ
مرزا غلام مرتضیٰ مر جاتا ہے۔ مرزا غلام قادر میر ناصر نواب سے کہتا ہے کہ
آپ گاؤں ’’تتلہ‘‘ میں رہتے ہیں۔ وہ گاؤں بدمعاشوں کا گاؤں ہے اور آپ
پردیسیوں کا وہاں رہنا مناسب نہیں۔ میں گورداسپور میں رہتا ہوں اور ہمارا
قادیان والا مکان خالی پڑا ہے۔ میرا چھوٹا بھائی غلام احمد اس مکان کے ایک
حصہ میں رہتا ہے اور وہ بھی کبھی کبھی گھر آتا ہے ورنہ اس کا زیادہ وقت
باہر ہی گزرتا ہے۔ اس لئے آپ کو پردہ وغیرہ کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔
میر ناصر نواب مرزا غلام قادر کی پیشکش کو قبول کر لیتا ہے اور اپنی فیملی
کو لے کر قادیان میں منتقل ہو جاتا ہے۔ یہاں پہنچتے ہی مرزا غلام احمد اور
میر ناصر نواب کی بیوی کے محبت بھرے تعلقات استوار ہو جاتے ہیں۔طائر محبت
آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے اور دونوں ایک دوسرے پر دل نثار کرنے لگتے ہیں۔
دونوں اطراف سے تحائف کا تبادلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جب ان محبت بھرے خفیہ
تعلقات کا پتہ مرزا غلام قادر کی بیوی یعنی مرزا غلام احمد کی بڑی بھاوج کو
چلتا ہے تو وہ ان ناجائز تعلقات کا سختی سے نوٹس لیتی ہے۔ جس سے محبت بھرے
جوڑے اور غلام قادر کی بیوی میں ٹھن جاتی ہے اس ساری صورت حال کو مرزا غلام
احمد قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی کتاب سیرت المہدی میں میر ناصر
نواب کی بیوی اور اپنی نانی کی زبانی سے یوں بیان کرتا ہے۔بیان کو ذرا پوری
توجہ سے پڑھئے۔
"ان دنوں جب بھی تمہارے تایا (مرزا غلام قادر) گورداسپور سے قادیان آتے تھے
تو ہمارے لئے پان لایا کرتے تھے اور میں ان کے واسطے کوئی اچھا سا کھانا
تیار کر کے بھیجا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جو میں نے شامی کباب ان کے لئے تیار
کئے اور بھیجنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور واپس چلے گئے ہیں۔
جس پر مجھے خیال آیا کہ کباب تو تیار ہی ہیں میں ان کے چھوٹے بھائی (مرزا
غلام احمد) کو بجھوا دیتی ہوں۔ چنانچہ میں نے نائن کے ہاتھ تمہارے ابا کو
کباب بھجوا دئیے اور نائن نے مجھے آکر کہا کہ وہ بہت ہی شکر گزار ہوئے تھے۔
اور انہوں نے بڑی خوشی سے کباب کھائے اور اس دن انہوں نے اپنے گھر سے آیا
ہوا کھانا نہیں کھایا۔ ا سکے بعد میں ہر دوسرے تیسرے دن ان کو کچھ کھانا
بنا کر بجھوا دیا کرتی تھی۔ اور وہ بڑی خوشی سے کھاتے تھے۔ لیکن جب اس بات
کی اطلاع تمہاری تائی کو ہوئی تو انہوں نے بہت برا منایا کہ میں کیوں ان کو
کھانا بھیجتی ہوں۔ کیونکہ وہ اس زمانہ میں تمہارے ابا کے سخت مخالف تھیں
اور چونکہ گھر کا سارا انتظام ان کے ہاتھ میں تھا۔وہ ہر بات میں انہیں
تکلیف پہنچاتی تھیں مگر تمہارے ابا صبر کے ساتھ ہر بات کو برداشت کرتے تھے۔‘‘(
یعنی بہت ڈھیٹ تھے۔ ))
(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 110، مصنف مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی)
مرزا غلام احمد نے جہاں اپنے شیطانی جال میں میر ناصر نواب کی بیوی کو جکڑ
رکھا تھا۔ وہاں اس نے میر ناصر نواب کی نو خیز بیٹی نصرت جہاں بیگم پر بھی
اپنی حریص آنکھ رکھی ہوئی تھی اور لڑکی کو بھی اس نے رام کر لیا تھا اور وہ
بڈھا کھوسٹ اس سے شادی رچانا چاہتا تھا۔ مرزا قادیانی کے پاس ماں بیٹی سے
ملنے کے کھلے مواقع تھے اور وہ جی بھر کر ان سے فائدہ اٹھاتا تھا۔ مرزائی
بھی اس سے انکار کی جرأت نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ان کی اپنی کتابیں مرزا
قادیانی کی خباثت پر گواہی دے رہی ہیں۔ پڑھئے: ’’بیان کیا مجھ سے والدہ
صاحبہ (زوجہ مرزا قادیانی) نے کہ جب میں چھوٹی لڑکی تھی۔ تو میر صاحب (یعنی
خاکسار کے نانا جان) کی تبدیلی ایک دفعہ یہاں قادیان بھی ہوئی تھی اور ہم
چھ سات ماہ یہاں ٹھہرے تھے۔ پھر یہاں سے دوسری جگہ میر صاحب کی تبدیلی
ہوئی۔ تو وہ تمہارے تایا سے بات کر کے ہم کو تمہارے تایا کے مکان میں چھوڑ
گئے تھے اور پھر ایک مہینہ کے بعد آکر لے گئے۔ اس وقت تمہارے تایا قادیان
سے باہر رہتے تھے اور آٹھ روز کے بعد یہاں آیا کرتے تھے اور مجھے یاد پڑتا
ہے کہ میں نے ان کو دیکھا ہے۔ خاکسار نے پوچھا کہ حضرت صاحب کو بھی ان دنوں
میں آپ نے دیکھا تھا یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب رہتے تو
اس مکان میں تھے مگر میں نے آپ کو نہیں دیکھا اور والدہ صاحبہ نے مجھے وہ
کمرہ دکھایا جس میں ان دنوں حضرت صاحب رہتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اول ،صفحہ 56، 57۔ مصنفہ مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی
)
قارئین کرام! آپ نے دیکھا کہ میر ناصر نواب پورا ایک مہینہ گھر پر نہیں۔
مرزا قادیانی کا بھائی مرزا غلام قادر ہفتہ کے بعد صرف تھوڑی دیر کے لئے
قادیان آتا ہے۔ گھر میں میر ناصر نواب کے اہل خانہ کے ساتھ مرزا قادیانی
گھسا ہوا ہے اور اپنی شنیع حرکات میں مصروف ہے۔
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے
بیٹا ماں سے پوچھ رہا ہے کہ کیا آپ نے شادی سے پہلے مرزا قادیانی کو دیکھا
تھا۔ جس کے جواب میں نصرت جہاں بیگم کمال سادگی سے کہہ رہی ہے کہ انہیں تو
نہیں دیکھا تھا مگر ان کا کمرہ دیکھا تھا۔ یعنی مکان دیکھا ہے۔ مکین نہیں
دیکھا۔
ہائے اس سادگی پر کون نہ مر جائے
مراز قادیانی نے نصرت جہاں بیگم سے شادی کے لئے اس کی ماں سے اصرار کیا تو
اس کی ماں نے اسے جواب دیا۔ تھوڑی دیر صبر کرو میں تمہارے لئے راستہ بناتی
ہوں تاکہ ہماری عزت بھی لوگوں کی نگاہوں میں محفوظ رہے۔ اور تمہارا کام بھی
بن جائے۔ نصرت جہاں بیگم کے لئے جو بھی رشتہ آئے گا۔ میں اس کے باپ سے اس
رشتہ کے بارے میں انکار کر دیا کروں گی اور پھر جب پانچ سات رشتوں کو ٹھکرا
دوں گی تو اس کے ساتھ ہی تمہارے لئے راستہ ہموار کر دوں گی۔ میر ناصر نواب
قادیان سے دفتری رخصت لے کے اپنے شہر دہلی واپس چلا جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر
میر ناصر نواب کی بیوی اس سے کہتی ہے کہ اب نصرت جہاں بیگم اٹھارہ سالہ
جوان ہوچکی ہے۔ ہمیں اس کی شادی کا سوچنا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنے
خاوند سے کہتی ہے کہ اس سلسلہ میں ہمیں مرزا غلام احمد کی ضرور مدد لینی
چاہئے کیونکہ وہ بااثر اور تعلقات رکھنے والا آدمی ہے۔ میر ناصر نواب کی
بیوی اسے شیشے میں اتار لیتی ہے۔ اور میر ناصر نواب فوراً مرزا قادیانی کو
اس بارے میں خط لکھتا ہے اب اس کہانی کی صورت حال مرزا بشیر احمد سے سنئے ۔
جسے وہ اپنی نانی کی زبانی بیان کر رہاہے۔
’’اس کے بعد ہم رخصت پر دہلی گئے ا ور چونکہ تمہاری اماں اس وقت جوان ہو
چکی تھی۔ ہمیں ان کی شادی کی فکر پیدا ہوئی اور میر صاحب نے ایک خط تمہارے
ابا (مرزا قادیانی) کے نام لکھا کہ مجھے اپنی لڑکی کے واسطے بہت فکر ہے آپ
دعا کریں کہ خدا کسی نیک آدمی کے ساتھ تعلق کی صورت پیدا کر دے۔ تمہارے ابا
نے جواب میں لکھا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں خود شادی کرنا چاہتا ہوں اور
آپ کو معلوم ہے کہ گو میری پہلی بیوی موجود ہے۔اور بچے بھی ہیں مگر آجکل
میں عملاً مجرد ہی ہوں۔ وغیرہ ذلک ۔ (کتنی بے تکلفی تھی ساس اور داماد میں۔
یہیں سے دال میں کالا کالا مرزا قادیانی پکڑا جاتا ہے۔ ناقل)
میر صاحب نے اس ڈر کی وجہ سے کہ میں اسے برا مانوں گی مجھ سے اس خط کا ذکر
نہیں کیا (اس بدھو کو کیا پتہ تھا کہ سارا کھیل ہی تیرا بنایا ہوا ہے) اور
اس عرصہ میں اور بھی کئی جگہ سے تمہاری اماں کے لئے پیغام آئے۔ لیکن میری
کسی جگہ تسلی نہ ہوئی۔ حالانکہ پیغام دینے والوں میں سے بعض ا چھے متمول
آدمی بھی تھے اوربہت اصرار کے ساتھ درخواست کرتے تھے۔
بالاخر ایک دن میر صاحب نے ایک لدھیانہ کے باشندے کے متعلق کہا کہ اس کی
طرف سے بہت اصرار کی درخواست ہے اور ہے بھی وہ اچھا آدمی اسے رشتہ دے دو۔
میں نے اس کی ذات وغیرہ دریافت کی تو مجھے شرح صدر نہ ہوا۔ اور میں نے
انکار کیا۔ جس پر میر صاحب نے کچھ ناراض ہو کر کہا کہ لڑکی اٹھارہ سال کی
ہو گئی ہے کیا ساری عمر اسے یونہی بٹھا چھوڑو گی۔ میں نے جواب دیا کہ ان
لوگوں سے تو پھر غلام احمد ہی ہزار درجہ اچھا ہے۔ (تیر چلا دیا۔ ناقل) میر
صاحب نے جھٹ ایک خط نکال کر میرے سامنے رکھ دیا کہ لو پھر مرزا غلام احمد
کا خط بھی آیا ہوا ہے۔ (کسی ذریعہ سے مرزا قادیانی کو خط بھیجنے کا پیغام
بجھوا دیا ہوگا) جو کچھ ہو ہمیں اب جلد فیصلہ کرنا چاہیے۔ میں نے کہا اچھا
غلام احمد کو لکھ دو۔ چنانچہ تمہارے نانا جان نے اسی وقت قلم دوات لے کر خط
لکھ دیا (تیر نشانے پر لگا۔ مبارک ہو۔ ناقل) اور اس کے آٹھ دن بعد تمہارے
ابا دہلی پہنچ گئے۔
(سیرت المہدی حصہ دوم، صفحہ 110۔ 111 مصنفہ مرزا بشیر احمد ابن مرزا
قادیانی)
میر ناصر نواب کے دہلی جانے کے وقت سے لے کر شادی کی ہاں ہونے تک درمیانی
وقت میں مرزا قادیانی کے دل پر غم فراق کے آرے چلتے رہے۔ اس کی آنکھیں نصرت
جہاں کو دیکھنے کے لئے تڑپتی رہیں اور تپ ہجر میں اس کا دماغ ابلتا رہا۔ اس
کے دن انگاروں پر اور راتیں کانٹوں پر بسر ہوتی رہیں۔ وہ کس کرب، درد و سوز
کے ساتھ چلاتا تھا۔ اس کیفیت کا پتہ ہمیں خود قادیانی ہی بتاتے ہیں۔ حوالہ
پیش خدمت ہے۔
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح (مرز
قادیانی) موعود کی ایک شعروں کی کاپی ملی ہے۔ جو بہت پرانی معلوم ہوتی ہے۔
غالباً نوجوانی کا کلام ہے۔ حضرت صاحب کے اپنے خط میں ہے ۔ جسے میں جانتا
ہوں۔ بعض شعر بطور نمونہ درج ہیں۔
عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا
ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے
کچھ مزا پایا میرے دل! ابھی کچھ پاؤ گے
تم بھی کہتے تھے کہ الفت میں مزا ہوتا ہے
ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے
مفت بیٹھے بٹھائے غم میں پڑے
اس کے جانے سے صبر دل سے گیا
ہوش بھی ورطہ عدم میں پڑے
سبب کوئی خداوندا بنا دے
کسی صورت سے وہ صورت دیکھا دے
کرم فرما کے آ او میرے جانی
بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے
کبھی نکلے گا آخر تنگ ہو کر
دلا اک بار شور و غل مچا دے
نہ سر کی ہوش ہے تم کو نہ پاکی
سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی
میرے بت اب سے پردہ میں رہو تم
کہ کافر ہو گئی خلقت خدا کی
نہیں منظور تھی گر تم کو الفت
تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا
میری دلسوز یوں سے بے خبر ہو
میرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا
دل اپنا اس کو دوں یا ہوش یا جاں
کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا
(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 232۔ 233 مصنفہ مرزا بشیر احمد ابن مرزا
قادیانی)
پچپن سالہ دولہا اٹھارہ سالہ دُلہن کو لینے کے لئے دہلی پہنچ گیا۔ بارات
میں مرزا قادیانی کے قریبی ہندو دوست بھی شامل تھے۔ نکاح ہوا مرزا قادیانی
اٹھارہ سالہ دلہن کو چھک چھک کرتی گاڑی میں بٹھا کر قادیان لے آیا۔ والدین
نے بیٹی کے ساتھ ایک عورت کو بھی بھیجا۔ قادیان پہنچ کر نصرت جہاں بیگم
اداس اداس اور گھبرائی رہنے لگی۔ وہ دیدے کھول کھول کر فضاؤں میں گھورتی
رہتی اور کبھی کبھی ان اداس دیدوں سے موٹے موٹے اور گرم گرم آنسو گر کر اس
کے کپڑوں میں پھیل جاتے۔ وہ آنسو بھری سرخ آنکھیں پونچھ کر پھر فضاؤں میں
گھورنے لگتی گویا اڑ کر دہلی جانا چاہتی ہو۔ دل کا غم قلم کے ذریعے کاغذ پر
پھیل گیا یعنی نصرت جہاں بیگم نے اپنے والدین کو اپنی دلی کیفیات بیان کرتے
ہوئے خط لکھے۔ جس کی گواہی اس کی ماں ان الفاظ میں دیتی ہے۔
’’جب تمہاری اماں قادیان آئیں تو یہاں سے ان کے خط گئے کہ میں سخت گھبرائی
ہوئی ہوں اور شاید میں اس غم اور گھبراہٹ سے مر جاؤں گی۔ چنانچہ ان خطوں کی
وجہ سے ہمارے خاندان کے لوگوں کو اور بھی اعتراض کا موقع مل گیا اور بعض نے
کہا کہ اگر آدمی نیک تھا تو اس نیکی کی وجہ سے لڑکی کی عمر کیوں خراب کی۔
اس پر ہم لوگ بھی کچھ گھبرائے اور رخصتانہ کے ایک مہینہ کے بعد میر صاحب
قادیان آکر تمہاری ماں کو لے گئے۔ جب وہ دہلی پہنچیں تو میں نے اس عورت سے
پوچھا جس کو میں نے دلی سے ساتھ بھیجا تھا کہ لڑکی کیسی رہی؟ اس عورت نے
تمہارے ابا کی بہت تعریف کی اور کہا لڑکی یونہی شروع شروع میں اجنبیت کی
وجہ سے گھبرا گئی ہوگی ورنہ مرزا صاحب نے تو ان کو بہت ہی اچھی طرح سے رکھا
ہے اور وہ بہت اچھے آدمی ہیں اور تمہاری اماں نے بھی کہا کہ مجھے انہوں نے
بڑے آرام کے ساتھ رکھا مگر میں یونہی گھبرا گئی تھی۔ اس کے تھوڑے عرصہ کے
بعد واپس ہمارے پاس آگئیں۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 111۔ 112، مصنفہ مرزا بشیر احمد قادیانی ابن
مرزا قادیانی)
اس مندرجہ بالا بیان کو پڑھ کر ذہن میں بہت سے سوال ابھرتے ہیں۔
نصرت جہاں بیگم اداس اداس اور پریشان پریشان رہی؟
نصرت جہاں بیگم کیوں گھبراہٹ سے مری جا رہی تھی؟
تھوڑے دنوں کے بعد نصرت جہاں بیگم کا گھبرایا گھبرایا دل کیسے خوشی سے جھوم
اٹھا؟
جب ہم ذہنوں پر زور دے کر ان سوالوں کے جوابات تلاش کرتے ہیں تو خود مرزا
قادیانی ہی ہمیں ان تمام سوالوں کا جواب دے دیتا ہے۔ حوالہ پیش خدمت ہے۔
’’اس شادی کے وقت مجھے یہ ابتلاء پیش آیا کہ بباعث اس کے کہ میرا دل اور
دماغ سخت کمزور تھا اور میں بہت سے امراض کا نشانہ رہ چکا تھا اور دو مرضیں
یعنی ذیابیطس اور درد سر مع دوران سر قدیم سے میرے شامل حال تھیں۔ جن کے
ساتھ بعض اوقات مجھے تشنج قلب بھی ہوتا تھا۔ اس لئے میری حالت مردی کالعدم
تھی۔ (دہلی کیا لینے گئے تھے۔ ناقل)
اور پیرانہ سالی کے رنگ میری زندگی تھی۔ غرض اس ابتلاء کے وقت میں نے جناب
الہٰی سے دعا کی ا ور مجھے اس نے دفع مرض کے لئے الہام سے دو آیتیں بتائیں
اور میں نے کشفی طور پر یہ دیکھا کہ ایک فرشتہ (حکیم نور الدین ۔ ناقل) وہ
دوائیں میرے منہ میں ڈال رہا ہے۔ چنانچہ وہ دوا میں نے تیار کی اور اس میں
خدا تعالیٰ نے اتنی برکت ڈال دی کہ میں نے یقین سے معلوم کیا کہ وہ پر صحت
طاقت جو ایک پورے تندرست انسان کو دنیا میں مل سکتی ہے وہ بھی دی گئی ۔۔۔۔۔
میں اس زمانہ میں اپنی کمزوری کی وجہ سے ایک بچہ کی طرح تھا اور اپنے آپ کو
خداداد طاقت میں پچاس مردوں کے قائم مقام پایا۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ67۔ 68 مصنفہ مرزا قادیانی)
واہ رے بھگتو! بیوی تو اس راز کو چھپاتی رہی اور تو نے ہنڈیا چوراہے میں
پھوڑ دی۔ دوائیوں کے سہارے اور دوستوں کے تعاون سے مرزا قادیانی کا گھر
پرانی سائیکل کی طرح چوں چوں اور کھڑ کھڑ کرتا چل تو پڑا لیکن نصرت جہاں
بیگم نے گھر کے ہر میدان میں مرزا قادیانی کو شکست فاش دیتے ہوئے نصرت کے
ایسے جھنڈے گاڑے کہ گھر میں مرزا قادیانی کی حالت اس تانگے کے مریل گھوڑے
کی طرح تھی جس پر آٹھ سواریاں لدی ہوں اور وہ سخت گرمی میں پسینے میں
شرابور، چابک کھاتا اور منہ سے جھاگ نکالتا ہوا کھڈے دار سڑک پر بٹالہ سے
قادیان جا رہا ہو۔ |