کاشانہ بنا فسانہ

 مشرقی دنیاخاص کرمسلم معاشرے میں عورت کی باپ،بھائی،خاونداوربیٹوں سے بہترحفاظت کوئی نہیں کرسکتا،دنیاکی کوئی پناہ گاہ عورت کوہوس ودرندگی کے پجاری بھیڑیوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتی،غربت جیسی بھی ہوباپ،بھائی،خاوند اوربیٹوں کاساتھ ماں،بہن،بیوی،بیٹی کواحساس تحفظ فراہم کرتاہے جبکہ باپ،بھائی،خاونداوربیٹوں جیسے عظیم رشتوں سے محرومی یعنی لاوارثی دنیاکی بدترین غربت سے کہیں زیادہ خطرناک عذاب ہے،عورت کوماں،بہن،بیٹی کی نظرسے دیکھناتودورکی بات ہے مردہ ضمیر معاشرہ عورت کوانسان نہیں فقط ایسے جسم کی نظرسے دیکھتاہے جوہوس و درندگی اورعیاشی کاسامان مہیاکرتاہے،عورت کوانسان سمجھاجاتاتوپھرعورت غیرمحفوظ کیوں ہوتی؟عورت قابل عزت ہے توفقط باپ،بھائی،خاونداوربیٹوں کی نظرمیں باقی تمام مردعورت کو انسان نہیں فقط کھلونا جسم سمجھتے ہیں،تقریباایک سال قبل مجھے ایک فون کال آئی،نامعلوم خاتون اپنے خاوندکے نارواسلوک سے اس قدردرلبرداشتہ تھیں کہ اپنے ہی گھرمیں خودکوغیرمحفوظ سمجھ کردارالامان لاہورمیں پناہ لیناچاہتی تھیں،اﷲ رب العزت کے فضل سے میں نے اسے مشورہ دیاکہ دارالامان میں لاوارثی کی زندگی گزارنے سے بہترہے کہ اپنے،اپنے خاوند کے والدین اوربہن بھائیوں کواپنی مشکلات سے آگاہ کرو،اپنے خاوندکے ساتھ اس قدرحسن سلوک سے پیش آوکہ اسے اپنی غلطی کااحساس ہوجائے،خاوندکواحساس نہ ہوتب بھی شادی کے بعد عورت کیلئے خاوندکاگھرہی دنیاکی محفوظ ترین پناہ گاہ ہوسکتاہے،کوئی چھ ماہ بعدخاتون نے فون کرکے شکریہ اداکیااوربتایاکہ اب وہ اپنے گھرمیں خوش ہے اوراسے یہ احساس ہوچکاہے کہ ساری غلطی خاوندکی نہیں تھیں اس کی اپنی بھی غلطی تھی،جھوٹی،کھوکھلی انا،سیاست یاعہدہ بچانے کیلئے ماوں،بہنوں اوربیٹیوں کااستعمال موجودہ معاشرے کاشرم ناک پہلوہے خاص طورپرکسی بہن بیٹی پر عصمت دری کی تہمت لگاناگھٹیاترین فعل ہے جس کی سزادنیاوآخرت میں انتہائی سخت ہے،اکثرلوگ اپنے معمولی سے مقصدکیلئے بیٹیوں کے دامن داغدارکردیتے ہیں جبکہ بیٹیاں بالکل معصوم اوراس معاملے سے بے خبرہوتیں ہیں،آج کل اسی طرح کاایک واقع کاشانہ لاہورکے بارے میں بھی رپورٹ ہورہاہے،سوشل میڈیاپرایک محترمہ کے ویڈیوپیغامات دیکھے جن میں وہ کہہ رہی تھیں کہ پولیس کاشانہ میں داخل ہوگئی،مجھے گرفتارکرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،پولیس مجھے نجانے کہاں لے جائے گی،میرے ساتھ معلوم نہیں کیاہوگا،میری مددکریں،بیٹیوں کی ذمہ داری اب آپ پرہے،محترمہ ایسے بات کررہی تھی جیسے وہ کسی دہشتگردگروپ یاغیرمذہب انتہاء پسندوں کے ظلم کاشکارہو،حقیقت مختلف معلوم ہوتی ہے،سابق سپرنٹنڈنٹ’’کاشانہ بیت المال‘‘افشاں لطیف نے تہلکہ خیزانکشافات کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل افشاں کرن امتیاز،اعلیٰ حکام اورایک صوبائی وزیرپرسنگین الزامات عائدکردیئے،کاشانہ لاہور جہاں بے سہارا خواتین کوپناہ دی جاتی ہے اس ادارے کی سپرنٹنڈنٹ نے سوشل میڈیاپرویڈیو پیغامات میں اپنی برطرفی کی وجہ کاشانہ میں کم عمر بچیوں کی شادیاں نہ کروانا بتایا،اُن کا کہناتھاکہ ادارے کی ڈائریکٹر جنرل افشاں کرن امتیاز کی جانب سے کم عمر بچیوں جن میں16سے 18سال کی لڑکیاں شامل ہیں کی شادیاں کروانے کے حوالے سے دباؤڈالاگیا،سابق سپرنٹنڈنٹ نے الزام عائد کیاکہ کم عمر بچیوں کی شادی کا مقصدکچھ اعلیٰ حکام اور صوبائی وزیر کو خوش کرنا تھا،راقم کاخیال ہے کہ موجودہ معاشرے میں اعلیٰ احکام یاکسی صوبائی وزیرکوشادی کرنے کیلئے لڑکیوں کی کمی نہیں پھربھی کوئی صاحب حیثیت کسی یتیم،غریب،مسکین بچی سے نکاح کرناچاہے تواس کے اس عمل کونیکی تصورکیاجاناچاہیے،جہاں تک میری معلومات ہیں ان کے مطابق جب تک شناختی کارڈنہیں بنتایعنی بچے بالغ نہیں ہوجاتے تب تک نکاح رجسٹرڈنہیں ہوتاتوپھرکم عمربچیوں کی شادیاں کیسے ممکن ہیں؟بقول سابق سپرنٹنڈنٹ کاشانہ کی شکایت پر سی ایم آئی ٹی نے 5 اگست کو انکوائری کے آغاز میں ہی سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف کو معطل کر دیا جس پر وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی افشاں کرن امتیاز کو عہدے سے ہٹا دیا،افشاں لطیف کا کہنا تھاکہ دوران انکوائری سی ایم آئی ٹی نے ہتک آمیز رویہ اختیار کیا اور معاملے کو دبانے کیلئے پریشرائز کیا، سی ایم آئی ٹی کی جانب سے مجھ پر دباؤ ڈالاگیا کہ اپنی شکایت واپس لوں ایسا نہ کرنے کی صورت میں ادارہ کا بجٹ بند کر دیا گیا، کاشانہ میں زیرپرورش بچیوں کو کھانے پینے، کپڑوں اور تعلیمی سہولیات سے محروم کر دیا گیا،افشاں لطیف نے ویڈیوپیغامات میں جواندازاپنایاوہ غیرمعمولی تھا،انہوں نے انتہائی جذباتی اندازااورالفاظ کے ساتھ روتی ہوئی بچیاں بھی دیکھائی،اُن کاکہناتھاکہ مجھے گرفتار کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے آج یہ لوگ پھر فتح حاصل کر رہے ہیں،ثبوتوں کو مٹا رہے ہیں، میری آواز آگے تک پہنچائیں ہو سکتا ہے اس کے بعد میں کچھ نہ کہہ سکوں،مجھے نہیں معلوم اب میرے ساتھ کیا ہوگا،افشاں لطیف نے خودبتایاکہ وزیراعلیٰ پنجاب واقعہ کانوٹس لے چکے ہیں توپھروہ اپنی آوازآگے کہاں پہنچاناچاہتی ہیں؟دوسری جانب وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ کاشانہ سے افشاں لطیف کا تبادلہ کیا گیا تاہم وہ چارج نہیں چھوڑنا چاہتی تھی،کاشانہ سے ٹرانسفر کو خاتون نے ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے،سروس میں تبادلے ہوتے رہتے ہیں،معاملے کو جلدحل کرلیں گے،اس معاملے کا ایک اور انتہائی مختلف اورقابل غورپہلوچندروزقبل سینئرکالم نگار’’محمدناصراقبال خان‘‘نے ’’کاشانہ اورنشانہ‘‘کے عنوان سے کالم میں تحریر کیاتھا،محترم کالم نگارکے طویل کالم کی متعلقہ لائنیں انہیں کے الفاظ میں حاضرخدمت کررہاہوں تاکہ الفاظ کی تبدیلی کہیں کہانی کامزاج تبدیل نہ کردے،محترم کالم نگارنے اپنے کالم میں لکھاکہ’’پاکستان کے کروڑوں محب وطن عوام کی طرح کاشانہ ویلفیئرہوم کی شفیق ومہربان ماں جیسی سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف کو سینئر کالم نگاروں اورانسانی حقوق کے علمبرداروں کی دعوت پر اپنے ادارہ میں مقیم یتیم وناداربیٹیوں کے ساتھ کشمیرمیں بھارتی بربریت کیخلاف پرامن احتجاجی مظاہرے میں شریک ہونے پر پنجاب حکومت کی چندبااثرسیاسی وسرکاری شخصیات کی طرف سے بیجامگر شدید دباؤکاسامنا ہے،آپ نے کس کی اجازت سے کشمیریوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کیا؟ایساایک صوبائی وزیراوران کے وفادارچیئرمین نے ان(افشاں لطیف)سے بازپرس کرتے ہوئے پوچھاہے،ایک صوبائی وزیرسمیت چنداعلیٰ سرکاری حکام ایک سپرنٹنڈنٹ سے حسد کی آگ میں جل اوران کیخلاف محکمانہ کارروائی کاجوازڈھونڈ رہے ہیں، افشاں لطیف کی بیٹیوں سمیت بھارت کیخلاف پرامن احتجاجی مظاہرے میں شرکت کوبنیادبناتے ہوئے کاشانہ پربیجاپابندیاں لگادی گئی ہیں اورانہیں وہاں سوشل سرگرمیوں سے روک دیاگیا ہے،کاشانہ کاماہانہ فنڈ روک لیا گیا ہے اوروہاں فاقوں کی نوبت آگئی ہے جبکہ فیسوں کی عدم ادائیگی کے سبب بیٹیاں اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں جانے سے قاصر ہیں،کئی ماؤں نے باامرمجبوری اپنی بیٹیوں کو کاشانہ سے اپنے گھروں میں واپس لے جانے کی خواہش ظاہرکی ہے،کاشانہ وہ ادارہ ہے جس کا وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدارنے کئی بار دورہ کیا اوروہاں افشاں لطیف کی طرف سے ہونیوالی دوررس اصلاحات کوسراہا اورانہیں انعام بھی دیامگرصوبائی وزیر کے انتقام کانشانہ بن جانے کے بعد کاشانہ اب ویرانہ بنتاجارہاہے،وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدارجس سپرنٹنڈنٹ کواس کی خدمات اوراصلاحات پرشاباش اورانعام دیتے رہے ہیں ان کاایک صوبائی وزیر اس نیک نام افشاں لطیف کونشان عبرت بنانے کے درپے ہے‘‘قارئین محترم آپ جانتے ہیں کہ میری تحریرمیں اگر،مگر،لیکن جیسے الفاظ شامل نہیں ہوتے جس کی ایک خاص وجہ مرشِدسرکارسیدعرفان احمدشاہ المعروف نانگامست صاحب کی تربیت ہے،آپ فرماتے ہیں لیکن،ویکن،اگر،مگروہاں استعمال ہوتے ہیں جہاں کچھ چھپانامقصودہویعنی جھوٹ کاسہارالے کرمعاملے کی سنگینی میں اضافہ کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں،محترم کالم نگارنے اگر،مگرلکھالہٰذااُن کے الفاظ کوجوں کاتوں شامل کرناضروری تھااس لئے آج کی تحریرمیں اگر،مگرشامل ہیں،کاشانہ معاملہ میں سچ کیاہے اورجھوٹ کیایہ تواﷲ رب العزت ہی جانتاہے پربیٹیوں پر تہمت لگاکران کی عصمت کوداغدارکرکے شہرت،عہدہ،دولت یاسیاسی فوائدحاصل کرنا یامخالفین کونیچادیکھانے کی کوشش کرناانتہائی غیرانسانی،غیرمہذب اورشرمناک فعل ہے،محترمہ بیٹیوں کی اس قدرحامی اورمحافظ ہیں توپھرانہیں بہت پہلے عدالتوں اورمیڈیاسے رجوع کرلیناچاہیے تھاخیراب بھی اس معاملے کی صاف شفاف تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوسکے اور معصوم بیٹیوں پرلگی تہمت کے داغ دھل جائیں،ذمہ داران کونشان عبرت بناکرآئندہ بیٹیوں کی عزتیں محفوظ بناناتمام ریاستی اداروں کے ساتھ پوری قوم کی ذمہ داری ہے
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564266 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.