مندرجہ بالا اقتباس اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ناصر
ناکاگاواسفرناموں سے آگے نکل کر دوسری اصنافِ ادب کو بھی سمجھتے ہیں اور ان
میں بھی اپنا زورِ قلم دکھانے کی پوری پوری استطاعت رکھتے ہیں۔ اب انشائیے
سے افسانے کی طرف چلتے ہیں۔ ان کا ایک افسانچہ بعنوان”ندامت“بھی میری نظر
سے گزرا ہے جس کا موضوع دورِ حاضر کی نفسیاتی ہیجانی کو ظاہر کرتا ہے۔یہ
ایک نوجوان لڑکی کی کہانی ہے جو مصنف کے ساتھ ٹرین میں سفر کرتی ہے اور پھر
ایک ٹرین سے اتر کر جب مصنف دوسری ٹرین کے انتظار میں پلیٹ فارم پر کھڑا
ہوتا ہے تو یہ بھی وہیں آکھڑی ہوتی ہے لیکن جیسے ہی ٹرین پلیٹ فارم کے قریب
پہنچتی ہے، موصوفہ ٹرین کے سامنے چھلانگ لگا کر اپنی جان جانِ آفرین کے
سپرد کردیتی ہے۔اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
ویسے تو میں بھی دیگر جاپانیوں کی طرح زیادہ تر سفر ٹرین سے ہی کرتا ہوں
اور کار چلانے سے گریز کرتا ہوں تاکہ وقت کی پابندی ہو سکے اور اپنی منزلِ
مقصود پر وقت کے مطابق پہنچ سکوں تاہم صبح سویرے یعنی صبح سات بجے سے
بذریعہ ٹرین ہفتے میں ایک دو مرتبہ ہی سفر کرنے کا اتفاق ہوتا ہے۔صبح سویرے
جاپان کی ٹرینیں اتنی بھر کر جاتی ہیں کہ جسکا تصور شاید کسی دوسرے ملک میں
نہیں کیا جاسکتا۔ ہر ٹرین کسی اسٹیشن پر فقط پندرہ سے بیس سیکنڈ قیام کرتی
ہے اور اس مختصردورانیہ میں سینکڑوں مسافر اترتے اور چڑھتے ہیں۔بعض
اسٹیشنوں پر خصوصاََ اندرونِ ٹوکیو صبح کے دو گھنٹے کے دوران ریلوے کمپنیوں
نے درجنوں تازہ دم نوجوانوں کو پلیٹ فارمز پر صرف اس لئے مامور کیا ہوتا ہے
کہ وہ مسافروں کو دھکے دیکر ٹرین کے اندر کریں تاکہ ٹرین وقت پر چھوٹ
سکے،۔۔۔جب ٹرین لیٹ ہو جائے تو کنڈکٹر ہر اسٹیشن پر تاخیری کا اعلان کرکے
اترنے اور چڑھنے والے مسافروں سے معذرت ضرور کرتا ہے، جاپان میں کسی ٹرین
کا پانچ منٹ لیٹ ہوجانے کا مطلب ہزاروں مسافروں کا متاثر ہونا ہے۔ وہ
نوجوان لڑکی جو میرے قریب ہی کھڑی تھی میں نے جب اسے دیکھا تو اسکی آنکھوں
میں آنسو تھے اور چہرہ شرمندگی اور ندامت کی تصویر بنا ہوا تھا اور وہ گہری
سوچوں میں گم سم تھی۔چند اسٹیشنوں کے بعد مجھے اتر کر دوسری ٹرین پکڑنی تھی
اتفاق سے وہ لڑکی بھی اس ٹرین سے اتری اور اسی پلیٹ فارم پر آکھڑی ہوئی
جہاں میں اگلی ٹرین کا منتظر تھا۔ہماری مطلوبہ ٹرین کا پلیٹ فارم پر پہنچنے
کا اعلان ہونے لگا وہ لڑکی میرے بائیں جانب والی قطار میں سب سے آگے تھی
جونہی ٹرین اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوئی اور ہمارے قریب پہنچنے ہی والی
تھی کہ اچانک اُس لڑکی نے پلیٹ فارم سے چھلانگ لگادی۔
ناصر چونکہ عرصہ دراز سے جاپان میں مقیم ہیں اور وہاں کے شہری کی حیثیت
جاپان میں خواتین کے مقام و مرتبے کا مشاہدہ برے قریب سے کر چکے ہیں اس لیے
جب وہ پاکستانی معاشرے میں عورت کی زبوں حالی کو دیکھتے ہیں تو انہیں اس پر
بہت افسوس ہوتا ہے۔اس انتہائی نازک اور اہم موضوع کو انہوں نے2015 ء میں
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے مضمون ”طلاق۔ طلاق۔طلاق پاکستانی
مسلمان مرد کی طاقت!!فقط تین الفاظ۔۔۔طلاق۔ طلاق۔طلاق“ میں اجاگر کیا ہے۔
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے پاکستان کے بڑے بڑے عالمِ دین، کالم نگاروں
اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والی تنظیمیں، حکومتیں اور کئی
ادارے کہتے نظر آتے ہیں کہ اسلام نے جو مقام عورت کو دیا ہے وہ کسی مذہب یا
ملک نے نہیں دیا، اس میں کوئی شک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس دعوے کو غلط
ثابت کر سکتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسلام نے جوحقوق عورت کودیئے ہیں کیا
وہ انھیں حاصل بھی کر پاتی ہیں؟ کیا ان حقوق کے حصول تک عورتوں کی رسائی
بھی ہے یا نہیں؟ یہ بالکل ویسی ہی بات ہوگی کہ کسی سے آپ کہیں کہ ہمارے ملک
میں قوانین تو بہت اچھے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، جب عمل
درآمد ہی نہ کیا جائے توکیا ہم صرف ان قوانین کے اچھے ہونے کی بنیاد پر ہی
فخر کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کے قوانین پوری دنیا سے منفرد اور اچھے ہیں؟
اسکے برعکس دنیا کے کئی مذاہب اور ممالک میں عورتوں کے حقوق کی پاسداری کی
جاتی ہے جنکا اسلام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے مگر وہاں کی عورت کی
ہر طرح سے حفاظت کی جاتی ہے۔
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں۔
ہ دلہن بن کر نہیں اپنے شوہر سمیت اسکے پورے خاندان کی نوکرانی بن کر جاتی
ہے جہاں جوان جوان دیور جو اسکے لئے نا محرم ہوتے ہیں کے کپڑے بھی اسے
دھونا پڑتے ہیں، سب کا کھانا بھی تیار کرنا ہوتا ہے، شوہر کے باپ اور اسکی
ماں کی خدمت بھی اس پر فرض ہوتا ہے چار چھ بچے پیدا کرنا اور صرف لڑکے پیدا
کرنا بھی اس پر فرض ہوتا ہے اس دوران اگر اسکے شوہر کا موڈ خراب ہو جائے تو
اس نوکرانی سے نجات حاصل کرنے کے لئے کسی سے کوئی مشورہ کرنے کی بھی ضرورت
نہیں بس منہ سے تین الفاظ طلاق طلاق طلاق نکالے اور فارغ، اس نوکرانی کو
اسی وقت اس گھر سے نکلنا ضروری ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|