جنوبی آسٹریلیا میں اردو زبان کی ترویج واشاعت

آج کے دورِ جدید جس میں دنیا ایک چھوٹے سے گلوب کی مانند ہوچکی ہے کیونکہ ایک لمحے اگر دنیا کے ایک علاقے میں کوئی ایکٹویٹی ہوتی ہے تو اگلے ہی لمحے دنیا کے دیگر خطے اس سے آگاہ ہو جاتے ہیں یعنی انفارمیشن شیئرنگ کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بات نہایت اہم ہے کہ باوجود اتنی ترقی کے زبانوں پر ابھی بھی کام کرنا باقی ہے کیونکہ بہت سی زبانیں عدم توجہ کے باعث ناپید ہو چکی ہیں اور کئی دھانے پر کھڑی ہیں۔ ہماری اپنی قومی زبان اردو کے ساتھ جو پاکستان میں ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔؛ لیکن ہم اس آرٹیکل میں اپنی توجہ صرف اور صرف آسٹریلیا پرمرکوز رکھیں گے۔ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ آسٹریلیا ایک بر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کثیر الثقافتی ملک ہے جہاں دنیا بھر سے ہر طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں“

آسٹریلیا کی ریاستوں میں سے جنوبی آسٹریلیا وہ واحد ریاست ہے جہاں محکمہ تعلیم کے زیرِ اہتمام تین اسکولوں میں اردو زبان کی تعلیم دی جارہی ہے۔ یہ وہ اسکول ہیں جن کے زونز میں اردو زبان سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں ان میں پاکستانی بھی ہیں اور دیگر ممالک کے لوگ بھی ہیں۔البتہ دوسری ریاستوں میں سے وکٹوریہ میں چھے اسکولوں میں ویک اینڈ کلاسز کا اجرا ہو چکا ہے۔ اسی طرح ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں بھی آفٹر آوورز کلاسز ہوتی رہی ہیں تاہم آسٹریلیا کے نیشنل نصاب کے مطابق جنوبی آسٹریلیا وہ واحد ریاست ہے جہا ں وزیرِ تعلیم کے ا سپیشل بجٹ سےFirst Language Maintenance Development Program کے تحت دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو بھی شامل کی گئی ہے اور اس کے لیے پالف نے بے حد محنت کی ہے۔اس پروگرام کا اہم مقصد یہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں سے آکر جنوبی آسٹریلیا میں آباد ہونے والے خاندان اور ان کے بچے اپنی ثقافت کو زندہ رکھ سکیں کیونکہ ثقافت کو زبان کے بغیر زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔

جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں تو ساتھ ہی ساتھ راقم الحروف یہ بھی سوچنے پر مجبورہے کہ پاکستان کی کتنی بد قسمتی ہے کہ جس ملک کی یہ قومی زبان ہے وہاں اس کے ساتھ کس قدر ناروا سلوک روا رکھا گیا ہے کہ بہتر سال گزرنے کے بعد بھی یہ زبان اپنا مقام و مرتبہ حاصل نہیں کر سکی اور آسٹریلیا میں ہمیں بسے ہوئے ابھی دو دہائیاں بھی نہیں ہوئیں اورہم یہاں اردو زبان کی اہمیت وافادیت اور اس کی شناخت کو تسلیم ہوتے دیکھ رہے ہیں یہ ہماری اردو زبان کی بہت بڑی کامیابی ہے؛ جس کے لیے جنوبی آسٹریلیا کی حکومت اور محکمہ تعلیم داد وتحسین کے مستحق ہیں کیونکہ پالف کی کوششوں سے دیگر زبانوں جن میں ہندی، پنجابی، عربی، داری، فارسی شامل ہیں، کے ساتھ ساتھ اردوکو بھی فرسٹ لینگوئیج منٹی ننس ڈویلپمنٹ پروگرام کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ جنوبی آسٹریلیا میں اردو زبان وادب اور مشرقی ثقافت سے تعلق رکھنے والوں کی پہلی اور واحد علمی وادبی اور ثقافتی تنظیم ”پاکستان-آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف)[Pakistan-Australia Literary Forum (PALF)] انکارپوریٹڈ اس سلسلے میں نہایت متحرک کردار ادا کررہی ہے بلکہ یہ تنظیم تو اردو زبان وثقافت کی ترویج و اشاعت کے لیے ہی قائم کی گئی ہے اور اس کا سلوگن ہی ”اردو سب کے لیے“ (Urdu for all)ہے۔

پالف کے زیرِ اہتمام اردو زبان وثقافت کی ترویج کے لیے ”سنجوگ“ کے نام سے ایک مجلے کا بھی اجرا ہو چکا ہے جس میں انگریزی اور اردو زبانوں کو مساوی نمائندگی دی جاتی ہے۔جنوبی آسٹریلیا میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی کے بچوں کو ان کے کلچر اور زبان سے واقف رکھنے کے لیے پالف اور جنوبی آسٹریلیا کے اسکول آف لینگوئجزکے اشتراک سے 2020ء میں ویک اینڈ اسکولز کا بھی اجرا ہو رہا ہے جہاں اردو زبان سیکھنے کا شوق رکھنے والے اور اپنے کلچر کو زندہ رکھنے والے چھٹی کے دن کلاسز لے سکیں گے۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اُردُو زبان برصغیر کی معروف اور شعر وادب کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی زبانوں میں سے ایک اہم زبان ہے۔ یہ پاکستان کی قومی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھے ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ بھارت میں لکھی اور بولی جانے والی زبانوں میں یہ چھٹی بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے لیکن بھارت کی ہندو اکثریت کے نامورادیبوں اور شاعروں نے بھی اردو زبان میں بہت کچھ لکھا ہے جو تاریخِ ادب اردو کا حصہ ہے اس سلسلے میں ”تاریخ اردو ادب“ کے مصنف”رام بابو سکسینہ“ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ متحدہ ہندوستان میں زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کے بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔

 

Syeda F GILANI
About the Author: Syeda F GILANI Read More Articles by Syeda F GILANI: 38 Articles with 63430 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.