سٹیفن گزشتہ بارہ سال سے صفائی کا کام کرتا ہے ۔
صبح Jٹھ بجے گھر سے نکل کر شکر پڑیاں تک آنا ایک مشکل کام ہے لیکن چونکہ
صفائی اس کے ذمے ہے اور جس ہوٹل میں وہ کام کرتا ہے اس کا روزگار اسی سے
وابستہ ہے ۔
اس لئے سٹیفن صبح سویرے جھاڑو لیکر شکر پڑیاں میں واقع چائے ہوٹل کے سامنے
کی صفائی شروع کرتا ہے کیونکہ اس تاریخی پارک کے سیر کرنے والوں کا کچھ پتہ
نہیں ہوتا کب مالک کو گندگی کی شکایت کرے اور پھر مالک اسے باتیں سنائے ۔
ہر روز دوسروں بن کے گرائے ہوئے گندگی کو صاف کرنا کتنا صبر آزما کام ہوتا
ہے کیونکہ سٹیفن بھی ان جیسا ہی ہے لیکن مجبوریوں نے اسے حساس بنا دیا ہے
۔۔
پتہ نہیں لوگوں میں احساس ذمہ داری کب پیدا ہوگی سٹیفن جھاڑو لگاتے ہوئے
سوچ رہا تھا کیونکہ گندگی کے ان ڈھیروں میں بیشتر پلاسٹک کے شاپنگ بیگ ہی
تھے جس پر اسلام آباد کی انتظامیہ نے پابندی بھی عائد کی تھی لیکن اس میں
کمی کے باوجود پلاسٹک بیگ گندگی کے ڈھیر بڑھ رہے ہیں جو یہاں انیوالے سیاح
گرا دیتے ہیں ۔۔
یہی باتیں وہ سوچ ہی رہی تھا کہ اس نے موٹر سائکل پر شاپنگ بیگ دیکھ لئے جو
اس کے ہوٹل کا مالک لا رہا تھا جس میں مختلف قسم کا سامان تھا جو وہ
راولپنڈی کی مارکیٹ سے بیچنے کیلئے لایا تھا ۔۔۔
سٹیفن نے جھاڑو چھوڑ دی اور مالک کی طرف دوڑا تاکہ اس کیساتھ بن ہیلپ کرسکے
۔۔۔
سامان مالک سے لیکر دکان میں رکھنے کے بعد اسے مالک کی چیخ سنائی دے ۔۔۔
ابے جلدی کر کہیں انتظامیہ والے آگئے تو پھر پلاسٹک بیگ پر بھی جرمانہ ادا
کرنا پڑیگا ۔۔۔
سامان شاپنگ بیگ سے نکالنے سٹیفن نے جلدی سے شاپنگ بیگ اٹھائے اور جھاڑو کے
زریعے گندگی کے ڈھیر جس میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگ اور استعمال شدہ سافٹ
ڈرنکس کی خالی بوتلیں بھی سائیڈ پر کرنی شروع کردی۔۔۔
گندگی کو صاف کرنے کے بعد سٹیفن نے ایک شاپنگ بیگ میں سارا گند ڈالا اور
پھر دکان کے پیچھے پہاڑی میں ٹریک والی زمین پر ڈال دیا ۔۔۔
کبھی کبھار اسے اس طرح کرتے ہوئے اس کا ضمیر بھی جھنجھوڑتا ہے اور ملامت
کرتا ہے کہ یہ خطرناک ہے لیکن اسے اپنے گھر والوں کا خیال آتا ہے اس لئے وہ
اپنے ضمیر کو سلا دیتا ہے ۔۔۔
سٹیفن کے پاس کوئی اور آپشن بھی نہیں کیونکہ گندگی کے ڈھیروں کو ٹھکانے
لگانے والے ڈرم زنگ آلود ہو چکے ہیں ۔۔۔اور وہ گندگی کے ڈھیر کو کہاں پر
پھینک دے ۔۔
سٹیفن دل کو تسلی اس بات سے دیتا ہے کہ اگر کوئی پوچھ بھی لے تو بتا دینگے
کہ یہ گند سارا ٹریک پر چلنے والے سیاحوں نے ڈالا ہے ۔۔۔
اور ویسے بھی اس جنگلات سے کس کو فائیدہ ہے ۔۔ یہی سوچ کر ہر دفعہ گندگی
پہاڑ پر گراتا ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔
صفائی کے بعد ہوٹل کے کام سے فراغت کے بعد سٹیفن کی چھٹی کا وقت آیا تو اس
نے اپنے مالک کو بتا دیا کہ تنخواہ کب ملے گی۔۔۔۔
مالک نے دراز سے بن پیسے نکالے اور کہا کہ چونکہ اس دفعہ سے تمھاری تنخواہ
میں دو ہزار روپے کم ملیں گے ۔۔۔
سٹیفن کے وجہ پوچھنے پر مالک نے بتا دیا کہ بارش نہیں ہوتی موسم گرم رہتا
ہے اور سیاح بھی گرمی میں نہیں آتے ۔۔۔
اس لئے اب دعا کرو بارشیں ہوں اور لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہوں۔۔۔
دکھے دل کیساتھ تنخواہ لینے والے سٹیفن نے اس وقت ریڈیو پر سن لیا ۔۔۔
پلاسٹک شاپنگ بیگ درختوں اور زمینوں کیلئے خطرناک ہے اور اس سے موسمیاتی
تبدیلی بھی آتی ہے جس کا اثر سب پر ہو گا ۔۔۔
یہ الفاظ سنتے ہی سٹیفن کے دل میں افسوس کی لہر اٹھی کیونکہ اس گندگی پہاڑ
پر گرانے کا اپنا عمل یاد آیا کہ موسم کی تباہی میں اسی کا بھی حصہ تھا ۔۔۔
اور پھر ۔۔۔۔
سٹیفن یہ سوچتے ہوئے اٹھ گیا کہ ۔۔۔
ہائے ہم غریبوں پر برق ہر وقت گرتی ہے ۔۔۔۔۔
|