جنید جمشید کے ایک جملے نے مجھے تھام لیا!

image


کچھ لوگوں کی آواز ان کے جانے کے بعد بھی کانوں میں زندہ رہتی ہے۔۔۔وہ کہیں بھی ہوں ان کی ہنسی، ان کی سرگوشی، ان کا انداز گفتگو اردگرد ہی محسوس ہوتا ہے۔۔۔آج تین سال گزر جانے کے باوجود بھی یوں لگتا ہے کہ جیسے میں آج تک اس ایک خبر کے صدمے میں ہوں جو سات دسمبر کی شام ملا۔۔۔جنید جمشید جس جہاز میں سفر کر رہے تھے وہ کریش ہوگیا۔۔۔میں ایک دکان میں تھی اور اپنے بچے کی سالگرہ کے لئے شاپنگ کر رہی تھی۔۔۔اس دکان پر موجود ہر شخص کو یہ لگا جیسے میرے گھر میں کسی کا انتقال ہوگیا ہے اور میں کیا کوئی بھی اس صدمے کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔۔۔

کچھ لوگوں کے ساتھ آپ کا رشتہ روز ملنے، روز بات کرنے یا روز دیکھنے سے نہیں گہرا ہوتا۔۔۔ان کی کوئی ایک بات آپ کو کسی کمزور لمحے میں سہارا دے جاتی ہے اور وہ آپ کی زندگی کا ایک اہم کردار بن جاتے ہیں۔۔۔کچھ ایسے ہی تھے جنید جمشید مرحوم بھی میری زندگی میں۔۔۔

اے آر وائی ٹیم کا حصہ ہوتے ہوئے رمضان میں ان سے اکثر ملاقات ہوتی تھی اور میں چونکہ ایک مارننگ شو کا حصہ تھی ۔۔۔اس لئے اپنے شو میں بلانے کی غرض سے ان سے گفتگو کا تعلق بھی رہا۔۔۔میں اکثر اپنے ڈیڑھ سال کے بیٹے کو لے کر کام پر آیا کرتی اور رمضانوں میں میری ڈیوٹی شو کی وجہ سے رات دیر گئے تک رہتی۔۔۔یہ وہ وقت ہوتا جب بحالت مجبوری مجھے بچے کو اپنے ساتھ ہی رکھنا پڑتا اور وہ میری گود میں ہی ہوتا۔۔۔

اکثر دل میں اپنی مامتا کو لے کر سوال اٹھتے۔۔۔اکثر میری ہمت ٹوٹنے لگتی۔۔۔اپنے بیٹے کو سینے سے لگائے میں ہاتھ میں اسکرپٹ کے پیپرز لے کر ادھر سے ادھر پھرتی اور شو کے لائیو جانے سے لے کر اختتام تک اور پھر دوسرے دن کی تیاریوں تک مامتا کا امتحان میرے ساتھ ہی رہتا۔۔۔
 

image


جنید جمشید میرے اس سفر کو اکثر دیکھا کرتے اور ان کے چہرے پر ہمیشہ میں نے ایک بہت ہی خوبصورت مسکراہٹ دیکھی ۔۔۔جب بھی میں ان کے سامنے سے گزرتی۔۔۔وہ رمضان ٹرانسمیشن کے وقفہ کے دوارن اس راہدار ی میں آجاتے جہاں سے ہماری ٹیم کا گزر تھا۔۔۔ایک ایسی ہی رات تھی اور میں اپنے بچے کو گود میں اٹھائے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی تب انہوں نے مجھے پکارا۔۔۔

’’سنو لڑکی‘‘۔۔۔میں نے پلٹ کر دیکھا تو ان کے چہرے پر وہی قیمتی مسکراہٹ تھی جسے میں آج بھی اپنے ذہن میں کسی ہیرے کی طرح سنبھال کر رکھتی ہوں۔۔۔میں نے تھکن والے انداز میں انہیں مسکرا کر کہا ’’جی جنید بھائی‘‘

’’تمہیں اﷲ کی خوشنودی حاصل ہے۔۔۔اﷲ کو تمہارا یہ عمل ضرور پسند آئے گا۔۔۔میں جانتا ہوں یہ آسان نہیں۔۔۔

کہنے کو یہ ایک جملہ تھا۔۔۔لیکن ایک ماں کے لئے جو کبھی بھی تھک کر گرنے کو تھی اس ایک جملے نے تھام لیا۔۔۔میں آج بھی ایسے کئی لمحات کی گرفت میں آتی ہوں ۔۔۔لیکن یہ ایک مثبت جملہ مجھے حوصلہ دینے کے کسی دوا اور دعا سے کم نہیں ہوتا۔۔۔

دعا ہے کہ اﷲ کو بھی ان کا یہ عمل پسند آئے جو انہوں نے ایک ماں کے لئے کیا۔۔۔شکریہ جنید جمشید

YOU MAY ALSO LIKE: