بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
سماجی، سیاسی و معاشی تناظر میں جدید دور کے عقلائے عالم کی فکری معراج
مارکسیت پر ختم ہوجاتی ہےتو مابعد جدید دور(Post Moderism) کےمالیخولیائی
فلاسفہ بہکی بہکی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ فکری میدان میں شیعہ مسلمانوں کی
انتہا ملا صدرا اور آگے مصباح یزد ی ، جوادی آملی تک آتی ہے ۔ اہلسنت کی
ذہنی وسعت غزالی تک ہے اور پھر خلا ہی خلا ہے۔مذہبی سیاسی نظاموں کے حوالے
سےمسلمانوں کے دو بڑے فرق، اہلسنت اورشیعہ میں اہلسنت مکتب کی مذہبی
حکومتیں بنی اُمیہ، بنوعباس،خلافتِ عثمانیہ، ہندوستان کی مغل حکومت وغیرہ
اپنے طمطراق دکھا کر بجھ گئیں۔ مغرب میں زرعی اور صنعتی انقلابات کے بعد
خالص مادّی مکاتب کی حکومتیں اور نظام جیسے کہ سیکولر لبرل جمہوری نظام اور
ان کے معاشی مکاتب سرمایہ داری اور اس کے ردِ عمل میں اشتراکیت و اشتمالیت
کی شکل میں عالم ِ انسانی نے اپنے تجربات میں اضافہ کیا۔ عظیم فلسفی اور
اُستاد علی ابن ابی طالب کے قول" کامیابی کیلئےبزرگان کی نصیحت وتجربہ سے
استفادہ کرنا چاہیے یا پھر خود سے تجربہ کرنا چاہیے" کے تناظر میں حضرتِ
انسان نے بزرگان کی نصیحت کے بجائے خود کو تجربہ گاہ کا مواد قرار دیا۔ درج
بالا سیاسی، سماجی اور معاشی تجربات کی روشنی میں انسانی ذہن و نفسیات،
مادّیات اور روحانیات وغیرہ کے ساتھ جو تجربات انجام دیے گئے ان کے نتائج
عالمی انسانی معاشرے سے مسائل کا خاتمہ نہ کرسکے۔ کبھی کسی رُخ پر زیادہ
توجہ دی جاتی رہی اور کبھی کسی دوسرے رُخ پر، کبھی عقلانیت کا چرچا ہوا
کبھی جذبات و احساسات کا، کبھی مذہب کا رواج رہا کبھی سائنس کا، اور اس طرح
انسان اپنے اختیار و قدرت کےجبر کے درمیان گھن چکر بن رہ گیا۔ مسائل حل
کرنے کے جذبے بڑھتے گئے نت نئے فلسفے اور ایجادات ہوتی گئیں مگر مسائل
انسان کبھی ایک رُخ سے ختم ہوتے تو کبھی دوسرے رُخ سےسر ابھارتے رہے ہیں۔
ان تاریخی تجربات میں انسان اپنی جتنی قوت اور ہمت نیز جس جس رُخ سے کوشش
کرسکتا تھا کرچکا۔ جس جس زاویہ سے مسائل حل کرنے کی کوشش ہوسکتی تھی
ہوچکیں۔ صنعتی دور اور پھر information technology کے دور میں سوویت روس کے
ٹوٹنے، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر سرمایہ داری نظام کے اعادے کی
بات کی جارہی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دار ممالک میں اخلاقی و
خاندانی فساد کے ساتھ سیاسی اور معاشی فساد بھی سر اٹھانے لگے ہیں سرمایہ
داری کی ڈوبتی ہوئی کشتی کے مدمقابل اشتراکی ممالک ایک دفعہ پھر اکیسویں
صدی میں اپنی کمر ہمت کستے نظر آرہے ہیں مگر دنیا کے مکینوں کو ایک ہی
سوراخ سے دوسری بار خود کو ڈسوانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کبھی جاگیرداروں کی
غلامی، کبھی صنعتکاروں اور بینکاروں اور کبھی مزدوروں کی غلامی میں پھنسے
ہوئے اس انسانی سماج کو ماضی کے تجربات کی روشنی میں صرف ایک فلسفہ اور
نظام جو کہ ابھی صرف نظریاتی شکل میں موجود رہا ہے پریکٹکل نہیں کیا گیا
یعنی تعلیماتِ محمد وآل محمد۔ آج کے دور میں اس بات تقاضا عقل و تجربے کی
روشنی میں زور پکڑتا ہے کہ مذہب اہلِبیت علیہم السلام کو بغور جائزہ لیا
جائے اوراپنی فکری اصلاح کے ساتھ عملی طور پر دنیا کے مسائل کے خاتمے کی پر
خلوص کوشش کی جائے۔ تشیع کی مادّی اور روحانی، سیاسی و معاشی، سماجی و
تہذیبی معتدل تعلیمات و تصورات کو ابھی تک در خور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔
مذاہب ِ عالم اور اسلام کا واحد فرقہ اہل تشیع بطور نظام عالمی انسانی
تجربےسے گذرنا باقی ہے، یہ نظام جس کا اوّل و آخر، ظاہر و باطن سب نظریہ و
نظامِ ولایت و اِمامت سے وابستہ ہے۔ تشیع کے فلسفے میں کسی بھی غیرِخالق
قوت کی طرف جھکاؤ سے گریز کے نتیجے میں عالمی انسانی سماج کیلئے وافر
اطمینانی کیفیت موجود ہے اس نظام کو عملی شکل دینے کیلئے عالم ِ انسانیت
میں اور انسانی سماج کے ہر شعبے میں کام کیے جانے کی ضرورت ہے اور عام
مومنین کا اعلیٰ کردار کا نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں اب
جبکہ انسان مختلف النوع تجربات کی روشنی میں اپنی فطرت سے کماحقہ آگاہ
ہوچکا ہے اور اپنی سماجی ، سیاسی معاشی ضرورتوں اور نزاکتوں کو سمجھ چکا ہے
اور ہر زاویے سے ان ابعاد کے سکون کیلئے بھاگ دوڑ بھی کرچکا ہے تو اس
صورتحال میں عالمی مسائل کے حل کیلئے ایک پُر خلوص نگاہِ مطالعہ و مشاہدہ
شیعہ نقطہ نظر اور فارمولوں پر ڈال لینی چاہیے ۔ اور مذاہب کی حکومت کے خوف
کو شیعہ تاریخی شخصیات کے مطالعہ کے بعد جانچا جاسکتا ہے کہ شیعہ مذہب کی
سیاست، سماجی حالت اور معاشی رویے ماضی کی برسر اقتدار مذہبی حکومتوں اور
نظاموں سے یکسر جداگاہ حیثیت رکھتے ہیں۔ قرون وسطیٰ کی مسیحی حکومتوں سے
اور دیگر مذاہب اور مادی مکاتب فکر کی حکومتوں سے مذہب اہلِبیت کا سیاسی و
حکومتی فلسفہ بہت زیادہ فرق کا حامل ہے۔ مذہب اہلِبیت کے علاوہ وہ مذاہب
اور ہیں جہاں انسان کی فطری ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا، مذہبِ اہلِبیت
انسانی سماج کے ہر شعبے میں اعتدال بھی رکھتا ہے اور جولانی بھی، یہاں
امامت و ولایت کا شعبہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کیلئے نہیں ہوتا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مسائل حل کرنے کیلئے جن کے پاس قوت و طاقت ہے وہ
اپنے مفادات کیلئے کسی صورت اپنے تیار کردہ فکری اور انتظامی ڈھانچے کے
خلاف کچھ سننے اور کرنے کو تیار نہیں ہیں اور دنیا میں "جس کی لاٹھی اُس کی
بھینس " کےمصداق پالیسیاں اور منصوبے بنائے جارہے ہیں۔سرمایہ داری مردہ باد
کہنے والے مظلومین اَب اشتراکیت و اشتمالیت مردہ باد کے نعرے لگارہے ہیں،
امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ چین مردہ باد کے نعرے بھی لگائیں گے، کیونکہ
صیہونی (Kings) نے دکان کی جگہ بدل لی ہے اب وہ پچھلی گلی میں چلی گئی ہے۔
الیومیناٹی کے روتھ چائلڈ، روک فیلر وغیرہ اب اپنی سرمایہ داری کی دکان
اشتراکیت و اشتمالیت کے نام سے چلارہے ہں۔ چین کے انقلابی سوشلسٹ اب صہیونی
سرمایہ داری کو پناہ دے رہے ہیں ۔۔۔۔ اصل اشتراکی و ترقی پسندی کا فلسفہ
کہیں پیچھے رہ گیا ہے، مظلوم کی حمایت، مزدور اور کسان کے حقوق کا نعرہ اب
صرف جہلا کا رہ گیا ہے یا پھر کم معرفت اسلامسٹ افراد کا،اشتراکیت کے پیکٹ
میں سرمایہ داری بکنے لگی ہے۔۔۔۔۔صیہونیوں کی چین میں سرمایہ کاری کی مثال
ایسے دی جاسکتی ہے جیسے کسی شہر میں بہت بڑا ڈاکو ہوتا ہے اور جب سرکار اُس
کے خلاف کریک ڈاؤن کرتی ہے تو قانونی طور پر مستحکم عظیم صنعت کار اُس ڈاکو
کو اپنی صنعتوں میں سرمایہ کاری کرواتا ہے اور اپنے اثر رسوخ سے اُس ڈاکو
کو safe place دیتا ہے۔ یہی کام آج چین صیہونی ڈاکوؤں کے ساتھ کررہا ہے۔
ایسی صورت میں یہ کہنا برا نہ ہوگا کہ چین ان معاشی غارت گروں کو بچا کر
اپنی ماضی کی مارکسی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اور دوسری اور تیسری دنیا کی
غربت کو نظر انداز کرتے ہوئے بچانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ صیہونی سرمائے کی
بہتی گنگا میں ہاتھ ڈالے رہے۔ چینی پریمیئر نے کچھ دن پہلے ہی اسرائیل کے
ساتھ اپنے کاروباری تعلقات بڑھانے اور اس عمل کو تیز تر کرنے پر زور دیا
ہے۔
لیکن مظلوم خواہ مسلمان ہوں یا دنیا کی باقی 98٪ افراد اگر اپنے فکری اور
نظریاتی ڈھانچہ کو درست نہیں کریں گے تو ایسے ہی روتے رہیں گے، پستے رہیں
گے، بھیک مانگتے رہیں گے ۔۔۔۔ کرکٹ و فٹبال کھیلنا، رونا، شکوے کرنا، ماتم
کرنا، مرثیے پڑھنا، نوحے پڑھنا، فلاں و فلاں کو قصور وار کہنا ہی رہ جائے
گا !
شیطان روپ اور محاذ بدل بدل کر آرہا ہے، علماء ہر دور میں محنتِ شاقہ کرکے،
کبھی اپنے خون سے انسان کو آزادی کیلے محنت و جدوجہد کی تلقین کیے جارہے
ہیں مگر کوتاہ مقاصد کے حامل پیروکار کبھی سامراجی ممالک کے ویزے پر بک
جاتے ہیں، کبھی اپنے ہی وطن میں کسی سست و مست کردینے والی غذاؤں اور رزق
سے پیٹ بھرکر سو جاتےہیں، ہر وہ رزق جس سے بندگی اور اطاعت میں سستی ہے
حرام ہے۔
امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: اگر بنو اميہ كو كوئى ايسا فرد نہ ملتا
جو ان كے ليے (سركارى) كتابت كرے، ان كے ليے غنيمت و فئہ كا مال لے كر آئے،
ان كى خاطر جنگ و قتال كرے اور ان كے گروہ پر شاہد (وگواہ) بنے تو وہ كسى
صورت ہمارا حق ہم سے چھين نہ پاتے، اگر لوگ ان (ظالم حكمرانوں) كو ترك كر
ديتے اور جو كچھ ان كے ہاتھ ميں (مال و اسباب) ہے سے كنارہ كش ہو جاتے تو
لوگ صرف وہى كچھ اپنے پاس پاتے جو ان كے ہاتھ ميں ہے۔(الكافى ج ۵، ص ۱۰۶اور
ج ۱، ص ۴۷۴)
کب تک حق شناس دانشور و علماء ان آرام طلبوں، عیش کوشوں، غیر سنجیدہ افراد
کو بیدار کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے۔۔۔۔
یاد رکھو مظلوموں ہدایت تمام ہونے کا بھی وقت ہوتا ہے، ڈرو اس وقت سے جب
حجت تمام ہوجائے اور رسولانِ زمانہ تمہارے اوپر (خدا نخواستہ) لعنت کریں
اور بدعا کریں۔آج مستقبل میں کیاہوتا ہے خدا خیر کرے ۔خود مسلمانوں اور
شیعہ ہونے کے دعوے دار افراد اپنے اُس آئین جس کی مخالفت پر یہ لڑنے مرنے
کو تیار ہوجاتے ہیں کس طرح روبہ عمل ہوتے ہیں اور ظالموں کو رسوا کرنے یا
دوسروں کی ذمہ داریاں تعین کرنے اور اپنے حقوق کے نعرے لگانے کے بجائے خود
اپنی ذمہ داریوں اور دوسروں کے حقوق ادا کرکے کس طرح عہدہ برا ہونے کی سعی
کرتے ہیں، خود ان کے ارادوں اور ہمتوں پر منحصر ہے۔ خدا اس عالم انسانیت کو
امن و تہذیب کے ساتھ اس کے مکینوں کو دنیا اور آخرت کی سعادتیں نصیب
فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
راقم: سید جہانزیب عابدی، مورخہ14-08-2018
|