رسول اﷲ ﷺ خاتم الانبیاء بن کر جلوہ گر ہوئے۔آخری
پیغمبر کے قلبِ اطہر پر آخری کتاب کا نزول ہوا۔ قرآن مقدس نے زندگیاں بدل
دیں۔ حیاتِ انسانی کا ضابطہ عطا کیا۔ اصولِ جہاں بانی دیا۔ فکرِ مُردہ کو
حیات کی تابشیں دیں۔ خیالات کی وادیاں احکامِ الٰہی پر عمل سے شاداب
ہوگئیں۔ انسانی عظمتیں نکھر گئیں۔ مقصدِ تخلیقِ آدمیت اُجاگر ہوا۔ دل کا
عالَم بدل گیا۔ شرک کا پہاڑ زمیں بوس ہوگیا۔ کفر کے ایواں لرز گئے۔ اسلام
کی بادِ بہاری نے گلشنِ آدمیت کو تازگی عطا کی۔ بے راہ رہِ مستقیم پر گامزن
ہوئے۔ رہبر و رہنما بن گئے۔وادیاں جَل تھل ہوگئیں۔
قرآن مقدس کتاب ِالٰہی ہے، اس لیے اس کے اَحکام و اَوامر زمانے کے تغیرات
یا حالات سے متاثر نہیں ہو سکتے۔ یہ ہر دور کے لیے رہنما ہے اور مکمل
قانون۔ اس وجہ سے جو معاشرہ قرآن عظیم کی بنیاد پر وجو دمیں آیا؛ وہ صالح و
مثالی معاشرہ کہلایا جس نے پوری دُنیا میں ایک حسین انقلاب برپا کر دیا، دل
نور نور ہو گئے۔ فکرو نظر کی تعمیر ہوئی۔ قرآن مقدس کی رہ نمائی کامل و
اکمل ہے۔ اس میں غورو فکر کی تعلیم دی گئی:
وَاَنْزَلْنَا فِیْھَآ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ’’اور
ہم نے اس میں روشن آیتیں نازل فرمائیں کہ تم دھیان کرو‘‘ (سورۃ النور: ۱)
قرآن مقدس تلاوت کیا جائے۔اس کے بحرِ عرفان میں خواصی کی جائے۔ تفاسیر کی
مدد سے اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔علما کی بارگاہ میں اسے سیکھا جائے۔ اس
کی معنویت، تفہیم تک رسائی کے لیے اس کا علم حاصل کیا جائے۔ان شاء اﷲ اس
کتابِ ہدایت کے ذریعے ہم اپنے دورِ عروج کی رونقیں دوبارہ پا سکتے ہیں۔
ہم نے خود قرآن کی برکتوں کا مشاہدہ کیا۔ اس کا حسن ایسا ہے کہ دل کھنچتے
ہیں۔ طبیعتیں مائل ہوتی ہیں۔ ہم نے قرآن مقدس مع ترجمہ کنزالایمان کی
رعایتی اسکیم نوری مشن سے جاری کی؛ مقبولیت ایسی کہ صرف مالیگاؤں سے کئی
ایڈیشن شائع کرنے پڑے۔آن کی آن میں ہزاروں نسخے گھروں میں پہنچ گئے۔
قرآن مقدس نے قسمتوں کو بدل دیا۔ کتنے ہی ذہن جن میں شر تھا؛ قرآن سے رجوع
نے انھیں خیر کا منبع بنا دیا۔ ایمان کی راہ پر گامزن کر دیا۔ عقیدہ و
عقیدت کو سنوار دیا۔ شرک کی تہیں چاک ہوئیں۔ صبحِ امید نمودار ہوئی۔ رسول
اﷲ ﷺ کی محبت سے دل روشن ہوگئے۔ قرآن سے نسبت و تعلق نے ہر جہت کو نوازا۔
ہر شعبۂ حیات میں مسلمان سرخرو ہوئے۔ جہاں گئے مثالی معاشرہ قائم کیا۔ جس
دیار و بلاد میں پہنچے ظلم و ستم کا خاتمہ ہوا۔ راحت و سکون کی صبح نمودار
ہوئی۔ رشتوں کا احترام عطا کیا۔
ابھی حال کا واقعہ ہے کہ ناروے میں چند اسلام دُشمن عناصر نے قرآن مقدس کی
بے ادبی کی ٹھانی۔ یہ فیصلہ ہی ان کی فکری شکست کی علامت ہے۔ در اصل مسیحیت
نے قرآنی انقلاب سے حواس باختہ ہو کر کبھی قرآن کی بے حرمتی کا منصوبہ
بنایا، کبھی بارگاہِ رسالت ﷺ میں بے ادبی کی جسارت کی۔ ان کا یہ زعم ہے کہ
مسیحیت ہی نجات دہندہ ہے؛ جب کہ ان کی نزول قرآن کے ساتھ ہی مسخ شدہ
عیسائیت دَم توڑ گئی۔ وہ ساختہ بنیادوں پر انسانیت کے لیے نجات کا باعث
نہیں رہی بلکہ عقل و طبیعت کا ملغوبہ بن گئی۔ اس حقیقت پر علامہ قمرالزماں
اعظمی ان لفظوں میں روشنی ڈالتے ہیں:
’’قرآنِ پاک نے جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ
زَھُوْقًا[بنی اسرائیل:آیت۸۱] فرماکر اسلامی دور میں قیامت تک کے لیے نہ
صرف یہ کہ سارے مذاہب کی افادیت کا انکار فرمایا ہے، بلکہ ان کے لیے کوئی
گنجائشِ قدم زدنی ہی باقی نہ رکھی ہے۔ جہاں قرآنِ پاک نے سارے مذاہبِ قدیمہ
کی ’’موجودہ حقیقت‘‘ بیان کی ہے وہیں اس نے مسیحیت کے بارے میں یہ فرمایا
ہے کہ یہ وہ مسیحیت نہیں ہے جس کو حضرت مسیح لے کر تشریف لائے تھے، بلکہ
موجودہ مسیحیت تحریف و تبدیل کا شکار ہوکر مسیحیوں کی تابعِ ہَوس عقل کی
ذاتی اختراع کا نتیجہ اور ان کی فکرِ معاش کا آلۂ کاربن کر رہ گئی ہے، اور
جب ہم خود ہی مسیحی اساسیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو قرآنِ پاک کے اِس دعویٰ
کی صداقت کو اپنی نگاہوں سے دیکھ کر طبیعتِ ایمانیہ جھوم جھوم اُٹھتی ہے
اور عقلِ ایمانی تاب ناک ہوجاتی ہے اور نیز مسیحیت کا چیلنج کہ وہ حیات ِ
انسانی کی کامل رہ نما ہے ، بالکل کھوکھلا اور بے بنیاد نظر آتا ہے، بلکہ
اس طرح سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مسیحیت کے خود ساختہ ’’روشن
تصورات‘‘ کے پردے میں انتہائی بھیانک برائیاں پرورش پارہی ہیں جو معاشرۂ
انسانی کے اثر پذیر جسم کے رِستے ہُوئے ناسور کی حیثیت رکھتی ہیں۔‘‘
(مقالاتِ خطیبِ اعظم،ص۹۳، رضا اکیڈمی ممبئی)
اسلام کی کامل رہنمائی اور قرآن مقدس کی ہدایت نے مسیحیت کی چولیں ہِلا
دیں۔ آج مسیحیت وہ ہے جس کا ایک سِرا ظلم سے عبارت ہے تو دوسرا سِرا انسانی
عصبیت کا بدترین نمونہ پیش کرتا ہے۔ انسانی قدروں سے فرار نے انھیں دہشت و
تشدد کی علامت بنا دیا ہے۔ جب کہ اسلام سے متعلق منفی پروپیگنڈے کے باوجود
قرآن مقدس کی حقیقی تعلیمات کا حسن کھل کر دنیا کے سامنے آ رہا ہے اور
تاریک قلب بڑی تعداد میں ایمانی نور سے منور ہو رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی
فطری کشش نے مادی دنیا کے کتنے ہی قلوب کو روشن روشن کردیا۔ قرآن مقدس کی
توہین کے خواہاں اپنے خود ساختہ عقیدوں کی بربادی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان
کے یہاں دہریت پنپ رہی ہے۔ مذہبی روح ختم ہو چکی ہے۔ دوسری طرف مغرب کی
زمیں پر اسلامی عظمتوں کا سورج طلوع ہو رہا ہے۔ قرآنی پیغام کی صبحِ امید
ہزاروں مایوس دلوں کا قبلۂ عقیدت بنی ہوئی ہے۔ ہم نے ہندوستان کے شرک زدہ
ماحول میں اولیا کی جماعت کے ذریعے کاروانِ اسلام کے پھیلنے کا مشاہدہ خود
کیا ہے۔ یہاں بھی حضور تاج الشریعہ رحمۃ اﷲ علیہ جیسے اولیا کے ذریعے قرآنی
تعلیمات کا نور تاریک قلوب کو روشن کر رہا ہے۔ ہر نئی صبح اسلام کی سچائی
کا اشاریہ بن کر نمودار ہو رہی ہے۔
٭٭٭ |