بابری مسجد کا تنازعہ دور مغلیہ ،برطانوی حکومت اور پھر
آزادی کے بعد بھی برقرار رہا۔ اب آخر کار 9 نومبر 2019 کو بھارتی سپریم
کورٹ نے اس پر فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ متنازع
زمین پر رام مندر تعمیر کیا جائے اور سنی وقف بورڈ کو مسجد بنانے کے لئے
ایودھیا کے خاص مقام پر 5 ایکڑ زمین دینے کا حکومت کو حکم دیا۔مغل بادشاہ
ظہیرالدین محمد بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد ایودھیا میں سنہ 1528 میں
ایک مقامی فوج کے کمانڈر نے بنوائی تھی۔ بہت سے ہندوؤں اور ہندو مذہبی
رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ کہ بابر نے یہ مسجد ایودھیا میں ان کے بھگوان رام
کے پہلے سے قائم ایک مندر کو توڑ کر اس کی جگہ تعمیر کروائی تھی۔ان کا
ماننا ہے کہ بابری مسجد کے مقام پر ہی بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی اور
اس لیے مسجد کی زمین کی ملکیت مندر کی ہے۔ یہ تنازع 19ویں صدی میں انگریزوں
کے دورِ حکمرانی میں سامنے آیا تھا لیکن پہلی بار یہ کیس سنہ 1885 میں فیض
آباد کے کمشنر کی عدالت میں پیش ہوا۔ اس وقت کمشنر نے مسجد اور اس کے احاطے
پر ہندوؤں کے ملکیت کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔آزادی کے بعد دسمبر 1949
کی ایک رات بابری مسجد کے درمیانی گنبد کے نیچے مبینہ مندر کے مقام پر
بگھوان رام کی مورتی رکھ دی گئی۔ کشیدگی کے ماحول میں اس مسجد پر تالا لگا
دیا گیا اور وہاں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مقامی مسلمانوں نے
مسجد میں مورتی رکھے حانے کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرائی اور وہاں سے
مورتی ہٹانے کا مطالبہ کیا اور اس کے بعد ہندوؤں نے بھی مسجد کی زمین پر
ملکیت کا مقدمہ دائر کیا۔سنہ 1980 کے عشرے کے اواخر میں بھارتیہ جنتا پارٹی
(بی جے پی) کے سینیئر رہنما ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں آر ایس ایس سے
وابستہ وشوا ہندو پریشد کے توسط سے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی
تعمیر کی تحریک شروع ہوئی۔ ایودھیا میں 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو
منہدم کر دیا گیا اور اسی کے ساتھ بھارت بھر میں فساد بھڑک اٹھے۔ اس کے بعد
تمام مقدمات ہائی کورٹ کو سونپ دیئے گئے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے 30 نومبر
2010 کو فیصلہ میں 2.77 ایکڑ متنازع زمین کو تینوں فریقین سنی وقف بورڈ،
نرموہی اکھاڑا اور رام للا میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ، جسے سپریم کورٹ میں
چیلنج کیا گیا۔بابری مسجد کے انہدم سے قبل بی جے پی کے سابق سربراہ لال
کرشن اڈوانی نے رام مندر کے لئے ریلی نکالی۔ ایڈوانی کی تحریک سے بی جے پی
ایک قومی پارٹی میں تبدیل ہو گئی۔ 1984 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے
محض 2 سیٹیں جیتی تھیں جبکہ 1991 میں ہونے والے عام انتخابات میں اسے 125
سیٹیں حاصل ہوئیں۔ بھارت میں عشروں پرانا بابری مسجد کا مقدمہ بھارتی سپریم
کورٹ کے فیصلے کے بعد بظاہر کنارے لگا دیا گیا ہے۔ ہندوستانی سپریم کورٹ کے
چیف جسٹس رانجن گنگوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے جس میں ایک مسلمان
جج ایس عبدالعزیز بھی شامل تھے، نے اپنا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ
شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کی جگہ پر رام جنم بھومی تھی اور بابری
مسجد کے نیچے اسلامی تعمیرات نہیں تھیں۔ عدالت کے بقول بابری مسجد کو خالی
پلاٹ پر نہیں بلکہ ہندو اسٹرکچر پر تعمیر کیا گیا۔ ہندوستان کے چیف جسٹس
رانجن گنگوئی نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ
مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے۔ بابری مسجد کیخلاف انڈیا
سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل مذمت و مسلم اْمّہ کیلئے تکلیف دہ ہے، بابری مسجد
کیخلاف انڈیا سپریم کورٹ کا فیصلہ آر ایس ایس و بی جے پی کے منشور کا تسلسل
ہے، بابری مسجد کیخلاف بابا گورونانک کے جنم دن کے موقع پر امن دشمن فیصلہ
سکھوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنا تھا، پاکستان نے سکھ برادری کیساتھ مذہبی
رواداری کیلئے کرتارپور راہدری کھلی جو مودی سرکار کو پسند نہیں، بابری
مسجد کیخلاف فیصلہ مسلم کش و بھارت کی دیگر اقلیتوں کیخلاف ہندوتوا کی
منشور کا عملی نمونہ ہے، وزیراعظم مودی نے اعلٰی عدلیہ کے ذریعے اپنی انتہا
پسند ہندو تنظیم راشتریا سوائم سیوکہ سنگ کیساتھ کیا گیا وعدہ پورا کیا،
کشمیر کا انضمام و بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر بی جے پی اور آر ایس
ایس کا الیکشن ایجنڈہ تھا، مودی سرکار بھارت کو ہندوراشترا بنانے کے آر ایس
ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، مودی سرکار بھارت سے مسلم، سکھ و دیگر
اقلیتوں کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔
اگرچہ بھارت کئی مذاہب، ثقافتوں اور متعدد زبانیں بولنے والے باشندوں کا
دنیا کا آبادی کے لحاظ سے ایک نمایاں ترین ملک ہے۔ گاندھی، نہرو سے لیکر
ہندوستان کے تمام بانی و معروف سیاسی و مذہبی قائدین ہندوستان کو ایک
سیکولر ملک کہہ کر فخر و مباہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان کا آئین
بھی سیکولر شقوں کا آئینہ دار ہے، لیکن ہندوستان میں جب سے ہندوتوا پر
ایمان رکھنے والی وی ایچ پی اور آر ایس ایس جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں اور
بی جے پی نے بھی ہندو مت کو ہتھیانے کیلئے مذہب کا کارڈ استعمال کیا تو
ہندوستان کا سیکولر چہرہ بری طرح مسخ ہو گیا، البتہ یہاں پر ملبہ بی جے پی
پر نہیں ڈالا جا سکتا بلکہ ہندوستان کے ممبر پارلیمنٹ اور اے آئی ایم آئی
کے سربراہ اسدالدین اویسی کے بقول اگر راجیو گاندھی کے ذریعے مسجد کے تالے
نہ کھولے جاتے اور کانگریس کے دورِ حکومت میں مورتیاں نہ رکھی جاتیں تو
مسجد آج بھی قائم دائم رہتی۔
بھارتی سپریم کورٹ میں جمیعت علمائے ہند کے مولانا اشہد راشدی کی جانب سے
بابری مسجد ہندووں کو دینے کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کی درخواست جمع کرادی
ہے۔درخواست میں مولانا راشدی نے موقف اختیار کیا ہے کہ 1992 میں بابری مسجد
کی شہادت میں ملوث بی جے پی رہنماوں اور دیگر ملزمان کا فیصلہ سنائے بغیر
زمین ہندووں کو دے دینا، مسجد پر حملہ کرنے والوں کے عمل کی حمایت کرنا
ہوگا جو ان ملزمان کو قانونی جواز فراہم کرنے کے مترادف ہے۔مولانا راشدی نے
سپریم کورٹ کی جانب سے سنی وقف بورڈ کو کسی اور جگہ مسجد کی تعمیر کیلیے 5
ایکڑ زمین فراہم کرنے کے حکم پر بھی اعتراض اْٹھاتے ہوئے کہا کہ سنی وقف
بورڈ نہ تو فریق اور نہ ہی وہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی کوئی مذہبی
جماعت ہے۔مولانا اشہد نے بابری مسجد زمین تنازع کے اصل قانونی فریق محمد
صدیق کے وارث کی حیثیت سے استدعا کی کہ سپریم کورٹ بابری مسجد کو شہید کرنے
والے ملزمان کیخلاف جلد فیصلہ سنائے، زمین ہندووں کو دینے اور سنی وقف بورڈ
کو 5 ایکڑ زمین دینے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔بھارت کی سپریم کورٹ نے
فیصلہ سنا دیا اور مسلمان برادری نے بھی فیصلہ کو متنازعہ اور جانبدار کہتے
ہوئے بظاہر قبول کر لیا ہے، لیکن اس سے بھارت کا سیکولر چہرہ بری طرح مسخ
ہو گیا ہے اور ہندوستان میں بسنے والی تمام اقلیتیوں میں خوف اور تشویش کی
لہر دوڑ گئی ہے۔ بی جے پی حکومت میں گاؤ رکشا اور ہندوتوا کی بدولت پہلے ہی
صورتحال کشیدہ تھی۔ اس فیصلے نے مسلمان آبادی کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
ہندوستانی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ہندوستان کی ہر مسجد خطرے میں پڑ
گئی ہے، کیونکہ آر ایس ایس یا ہندو ووٹ لینے کا کوئی بھی خواہشمند انتہاء
پسند سیاست دان کسی بھی مسجد یا مذہبی عبادت خانے کی حیثیت کو عدالت میں
چیلنج کر کے اسے ہندوؤں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ ہندوستان کی
سپریم کورٹ نے جو پنڈورا باکس کھول دیا ہے، اس سے جہاں ہندوستان کا سیکولر
چہرہ مجروح ہوا ہے، وہاں اسلام اور ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں سے منسوب
تمام تاریخی آثار خطرے سے دوچار ہو گئے ہیں۔ دنیا اس بات کی منتظر رہے کہ
بہت جلد مسلمان حکمرانوں کا تعمیر کردہ تاج محل اور سکھوں کا گولڈن ٹیمپل
بھی ہندوستانی سپریم کورٹ کے فیصلے کی نذر ہو سکتا ہے- |