اللہ تعالی کا بے پایاں احسان وکرم ہے کہ اس نے ہمیں
مختلف قسم کے موسم سے لطف اندوز ہونے کا موقع میسر فرمایا، مختلف قسم کے یہ
مواسم انسانی زندگی میں حسن ولطافت کا اضافہ کرتے ہیں۔انسانی فطرت میں
جلدبازی اور ظاہری تکلیف پر جزع فزع کرنا شامل ہے ۔بلاشبہ ٹھنڈی میں تکلیف
اور پریشانی ہے اور کبھی یہ پریشانی مرض اور کبھی جانی ومالی نقصان کا باعث
بھی بن جاتی ہے ۔اس موسم میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوگ بیمار پڑتے ہیں،
اکثر وبیشتر بچے سردی کھانسی ، نزلہ وزکام میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، کسی کے
لئے یہ موسم جانی نقصان کا سبب بھی بن جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ انسان ٹھنڈی
کی ان ظاہری پریشانیوں کو دیکھتا ہے اور اس موسم کو کوستا ہے ، ٹھنڈی کو
برابھلا کہتا ہے اور بجائے صبر کرنے کے تکلیف کا اظہار کرتا ہے ۔
ایک مومن کا ایمان ہونا چاہئے کہ زمین وآسمان ، سورج وچاند، دن ورات ، صبح
وشام اور ٹھنڈی وگرمی کا خالق تن تنہا اللہ تعالی ہے ، اللہ نے بہترین
کاریگری کے ساتھ حکمت وبصیرت کے تحت ان کو پیدا فرمایا ہے ، اس کی بنائی
ہوئی کوئی چیز بے فائدہ اور لغو نہیں ہے ،فرمان الہی ہے :
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا(آل عمران:191)
ترجمہ: اے ہمارے رب! تونے یہ بے فائدہ نہیں بنایا۔
قرآن نے ذکر کیا کہ یہ بات وہ کہتے ہیں جو ہرحال میں کھڑے ہوتے،بیٹھتے اور
کروٹ بدلتے ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں یعنی جن کی زندگی مومنانہ کردار کا
پرتو ہوتی ہے۔زمین وآسمان کا اپنی جگہ پر قائم رہنا اللہ کی عظیم نشانیوں
میں سے ہے ، رب کا فرمان ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَن تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ
ۚ(الروم:25)
ترجمہ: اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ آسمان وزمین اسی کے حکم سے قائم ہیں ۔
مومن اللہ کے کلام پر پختہ اعتقاد کے ساتھ یہ بات بھی کہتا ہے کہ اللہ
تعالی ہی رات ودن اور موسم وسال کو لانے والا ہے ، اللہ کا فرمان ہے ۔
يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً
لِّأُولِي الْأَبْصَارِ (النور:44)
ترجمہ:اللہ تعالی ہی رات ودن کو ردوبدل کرتا رہتا ہے ،آنکھ والوں کے لئے تو
اس میں یقینا بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومنانہ کردار کے حامل افراد اللہ کی نشانیوں سے
عبرت پکڑتے ہیں ،رات ودن کی آمد ہو،سردی وگرمی کا موسم ہو، بہار وخزاں کا
وقت ہو ، بارش وقحط سالی ہو ان سب میں اللہ کی قدرت ومصلحت پر یقین رکھتے
ہوئے ہمیشہ نصیحتیں پکڑتے ہیں ۔
یہاں ایک بڑی بات جسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے بتانا مناسب
سمجھتا ہوں کہ آپ نے اللہ کی مخلوقات کے متعلق کہا ہے کہ جو ان اشیاء کا
خالق ہے دراصل وہی عبادت کا مستحق ہے ۔ اس قول سے یہ نصیحت ملتی ہے کہ مومن
لوگ اللہ کی مخلوقات اور اس کی نشانیوں میں غوروفکرکرکے رب کی خالص بندگی
کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے جیساکہ اللہ نے تخیلق
انسانی کی وجہ ہی عبادت ذکر کیا ہے ، فرمان الہی ہے :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات:56)
ترجمہ: اور بے شک میں نے جن وانس کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔
اور صحیحین میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ نبی ﷺ سے پوچھتے ہیں
کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے تو آپ فرماتے ہیں :
أنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا، وهو خَلَقَكَ(صحيح البخاري:7520)
ترجمہ: تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا
ہے ۔
ان تمہیدی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بات یہ ذہن میں رکھنے کی ہے کہ
ٹھنڈی وگرمی کا سبب جہنم کا سانس لینا ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اشْتَكَتِ النَّارُ إلى رَبِّهَا فَقالَتْ: رَبِّ أكَلَ بَعْضِي بَعْضًا،
فأذِنَ لَهَا بنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ في الشِّتَاءِ ونَفَسٍ في الصَّيْفِ،
فأشَدُّ ما تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وأَشَدُّ ما تَجِدُونَ مِنَ
الزَّمْهَرِيرِ.(صحيح البخاري:3260)
ترجمہ:جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا : اے میرے رب ؛ میرے ایک حصے
نے دوسرے کوکھا لیا ،لہذا اللہ تعالی نے اسے دوسانس کی اجازت دے دی ، ایک
سانس سردی کے موسم میں اور دوسرا سانس گرمی کے موسم میں ، اسطرح تمہیں جو
سخت گرمی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے اور جو سخت سردی
محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کے زمہریر کی وجہ سے ہے ۔
ٹھنڈی اور گرمی کی وجہ جان لینے کے بعد دوسری بات یہ دھیان دینے کی ہے کہ
اس موسم میں مومن کا کردار یہ ہو کہ اس موسم کی تکلیف سے بچنے کا سامان
کریں اور جوکچھ تکلیف اس موسم میں پہنچ جائے اس پر صبر کریں ، موسم کو برا
بھلا نہ کہیں کیونکہ اس کا بنانے والا اللہ ہے ، موسم کو برابھلا کہنا اللہ
کوتکلیف دینے اور برابھلا کہنے کے مترادف ہے ۔ حدیث قدسی ہے ، اللہ فرماتا
ہے :
يُؤْذِينِي ابنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ:، وأنا الدَّهْرُ، بيَدِي
الأمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ والنَّهارَ(صحيح البخاري:7491)
ترجمہ: آدم کابیٹا مجھ کو دکھ دیتا ہے ، اسطرح کہ وہ زمانے کا گالی دیتا ہے
حالانکہ میں زمانہ ہوں ،میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں جس طرح چاہتا ہوں
رات ودن کو پھیر تا رہتاہوں ۔
جب یہ بات صحیح ہے کہ ٹھنڈی کے موسم میں خصوصا شدت کی سردیوں میں گھر سے
نکلنابھی دشوار ہوجاتا ہے ایسے میں وضو کرنا، طہارت کے لئے غسل کرنااور
مسجد آکر پانچ وقتوں کی عبادت بجالانا بظاہرمشکل کام ہے مگرحقیقی مومنوں
اور نفس پہ قابو رکھنے والوں کے لئے اس میں کوئی مشقت نہیں ہے بلکہ لذت
وچاشنی ہے ۔ دراصل انسان کو اس کا نفس ہی آسانی میں بھی مشقت کا احساس
دلاتا ہے جبکہ کوئی شیطانی کام میں اگر بھاری سے بھاری مشقت ہوپھربھی اس کا
نفس ہلکے پن کا احساس دلاتا ہے ۔ ذرا غور کریں کہ انسان کو انتہائی ٹھنڈی
میں کسی بھاری کام کا معاوضہ بڑھاکردیا جائے تو اپنے کام میں کوئی مشقت
نہیں محسوس کرتا جبکہ عبادت اس پر گراں گزرتی ہے وہ کیوں؟ اس کی وجہ
مومنانہ کردار میں نقص اوراس پر نفس کا غلبہ ہے ۔
مومن اس کام سے خوش ہوتا ہے جس میں اللہ کی رضا اور زیادہ مقدار میں اجر
ہوتا ہے اور ٹھنڈی میں اللہ کی بندگی بھی زیادہ اجر کا باعث ہے ، حضرت عبد
اللہ بن مسعود رضي اللّٰه عنه نے بیان کیا:
قال ابنُ مسعودٍ : إنَّ اللَّهَ ليضحَكَ إلى رجُلَينِ : رجلٌ قامَ في ليلةٍ
بارِدَةٍ مِن فِراشِهِ ولِحافِهِ ودِثارِهِ فتوضَّأَ ، ثمَّ قامَ إلى
الصَّلاةِ ، فيقولُ اللَّهُ عزَّ وجلَّ لملائكتِهِ : ما حمل عبدي هذا على
ما صنَعَ ؟ فيقولون : ربَّنا ! رجاءَ ما عِندَكَ ، وشفقَةً مِمَّا عندَكَ .
فيقولُ : فإنِّي قد أعطيتُهُ ما رجا ، وأمَّنتُهُ مِمَّا يخافُ ، وذكر
بقيَّتَهُ(صحيح الترغيب:630)
ترجمہ:دو شخصوں کو دیکھ کر اللہ تعالی خوش ہوتاہے:ایک وہ شخص جو سرد رات
میں اپنے بستر اور لحاف سے اٹھکر وضو کرتا ہے ، پھر جب نماز کے لئے کھڑا
ہوتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں سے پوچھتا ہے :میرے بندے کو یہ تکلیف برداشت
کرنے پر کس چیز نے ابھارا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ آپ کی رحمت کا
امید وار ہے اور آپ کے عذاب سے ڈرتا ہے ، اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم لوگ
گواہ رہو میں نے اسکی امیدیں پوری کردی اور جس چیز سےخوف کھا رہا ہے اس سے
امن دےدیا۔
ٹھنڈی میں وضو کی تکلیف پر اللہ گناہوں کا معاف فرماتااوردرجات بلند کرتا
ہے ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تم کو نہ بتاؤں وہ باتیں جن کی وجہ سے اللہ
گناہ معاف کردیتا ہے اور درجات بلند فرماتا ہے ۔ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں
یا رسول اللہ! بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إسْباغُ الوُضُوءِ علَى المَكارِهِ، وكَثْرَةُ الخُطا إلى المَساجِدِ،
وانْتِظارُ الصَّلاةِ بَعْدَ الصَّلاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّباطُ(صحيح
مسلم:251)
ترجمہ: تکلیف اور سختی کے باوجود مکمل وضو کرنا(مثلا بیماری یا سردی کی وجہ
سے) اور قدموں کامسجد کی طرف زیادہ آنا اور ایک نمازکے بعد دوسری نماز کا
انتظار کرنا یہی رباط یعنی نفس کو عبادت کے لئے روکنا ہے ۔
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جس عبادت میں جتنی مشقت ہوگی اس قدر اجروثواب ملے
گا،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال لها في عُمرتِها إنَّ لك من
الأجرِ على قدرِ نَصَبِك ونفقتِك(صحيح الترغيب:1116)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے میرے عمرہ کے بارے میں فرمایا کہ تمہیں اجر
تمہاری مشقت اور خرچ کے بقدر ملے گا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ جان بوجھ کر اپنے نفس کو مشقت میں ڈالنے والا اجر
کا مستحق نہیں ہے بلکہ وہ خود کو ہلاک کرنے والا ہے ، مشقت والے عمل کا
مطلب ہے کہ خود اس کام میں مشقت ہو مثلا ٹھنڈے پانی سے وضو کی تکلیف اجر کا
باعث ہے کیونکہ یہ خود کی مشقت نہیں ہے لیکن آگ میں کود کرعبادت کرنا یا
پانی میں ڈوب کر اور زبان کاٹ کر ذکر کرنا بناوٹی مشقت ہے اس سے انسان ہلاک
ہوگا ، یہ اجر والا کام نہیں ہے ۔ بعض صوفیا نے عبادت کے واسطے آنکھوں میں
نمک لگانے، بعض نے ذکر کاٹے ، بعض نے ایک ٹانگ پر قرآن ختم کیا ، یہ سب
بلااجر ہلاک کرنے والا عمل ہے ۔
ٹھنڈی میں مشقت والے عمل پر اللہ کی طرف سے زیادہ اجر ملتا ہے اس وجہ سے
مومنانہ کردار یہ ہونا چاہئے کہ زیادہ شوق سے کثرت سجود بجالائے ، جنت بھی
تکلیف برداشت کرنے پر ہی ملے گی ، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حُفَّتِ الجَنَّةُ بالمَكارِهِ، وحُفَّتِ النَّارُ بالشَّهَواتِ(صحيح
مسلم:2822)
ترجمہ: جنت گھیری گئی ہے ان باتوں سے جو نفس کو ناگوار ہیں اور جہنم گھیری
گئی ہے نفس کی خواہشوں سے۔
آج مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ سرد موسم میں ذاتی ہر کام کرتے ہیں، مادی مفاد
سے جڑے مشقت سے پر کام انجام دینے میں بھی گریز نہیں کرتے حتی کہ بہت سارے
لوگ اس مہینے میں مختلف قسم کے کھیلوں میں وقت گزارتے ہیں تاہم عبادت
وبندگی حددرجہ ان پر گراں گزرتی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ عام دنوں کے بہت سارے
نمازی اس موسم میں سست پڑجاتے اور نمازو ں سے غافل ہوجاتے ہیں ۔ایسے میں
ہمارے ایمان کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ عارضی زندگی کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے
اور مستقل زندگی کے متعلق بے پروا ہ ہوجاتے ہیں ۔
ٹھنڈی مومنوں کے لئے موسم بہار ہے کیونکہ اس موسم میں ان کے لئے دوعظیم
عبادتوں میں اللہ کی طرف سے آسانی پیدا کردی گئی ہیں ، ایک روزے کی عبادت ،
اس کی آسانی دن کا چھوٹا ہونا ہے دوسری قیام اللیل کی عبادت ،اس کی آسانی
رات کا لمبی ہونا ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الشتاءُ ربيعُ المؤمنِ طال ليلُه فقامه وقصُر نهارُه فصامه(مسند احمد)
ترجمہ : سردی کا موسم مومن کے لئے بہار کا موسم ہے کہ اسکی راتیں لمبی ہوتی
ہیں جنمیں وہ قیام کرلیتا ہے اور دن چھوٹے ہوتے ہیں جنمیں وہ روزے رکھ لیتا
ہے ۔
گرچہ اس حدیث پر محدثین نے کلام کیا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ ٹھنڈی میں دن
چھوٹا ہے اور رات لمبی ہوتی ہے اور اس حدیث کے آخری حصے کی تائید صحیح حدیث
سے ہوتی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الغَنيمةُ الباردةُ ،الصَّومُ في الشِّتاءِ(صحيح الترمذي:797)
ترجمہ: ٹھنڈا ٹھنڈا بغیر محنت کے مال غنیمت یہ ہے کہ روزہ سردی میں ہو۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اور ہمارے اسلاف اس موسم کی آمد پر خوش ہوتے اور
ان دونوں آسانی والی عبادت کا اہتمام کرتے تھے ۔
آج اللہ کی توفیق سے سردیوں سے بچنے کےلئے سیکڑوں اسباب ووسائل ظہور پذیر
ہوئے ہیں ، وضو وغسل کے لئے ہمہ وقت گرم پانی کی سہولت، جسم کی حفاظت کے
گرم ملبوسات اور جگہوں کو گرم کرنے والے نئے نئے آلات موجود ہیں ، لہذا
عبادتوں کی انجام دہی میں گرمی پہنچانے والے اسباب اپنانے میں کوئی حرج
نہیں ہے ساتھ ہی شریعت نے بھی پہلے سے ہماری لئے آسانیاں رکھی ہے ۔ موزے
اور جراب پر مسح کرنا اور ضرر لاحق کی صورت میں یا پانی کی عدم دستیابی پر
تیمم کرنا جائز ہے۔
آخر میں سردی کے موسم میں مومن بھائیوں کو میرا ایک پیغام ہے کہ اگر اللہ
نے آپ کو مالدار بنایا ہے اور آپ کو ضرورت سے زیادہ دولت سے نوازا ہے تو اس
موسم میں یتیم ومسکین اور محتاج وفقیر کا بھی خیال کریں ،آپ کے پاس ٹھنڈی
سے بچنے کے لئے مختلف قسم کے جیکیٹ ،سویٹر،لحاف ، ہیٹراور عمدہ عمدہ گرم
ملبوسات موجود ہیں مگر کتنے ایسے لوگ ہوں گے جو سردی سے جوجھ رہے ہوں گے ،
ان کے پاس بچاؤ کے لئے معمولی سامان بھی نہیں ہوگا۔ لہذا اپنے بچت مال سے
محتاجوں کی ضرورت پوری کریں ، چند افراد یا ایک فیملی یا اپنے ہی مفلس رشتہ
دار کی اعانت کریں خواہ پیسے دے کر یا ملبوسات تقسیم کرکے، مستعمل کپڑے بھی
دئے جاسکتے ہیں۔کتنے غریب اس ماہ میں سخت بیمار ہوجاتے ہیں اور علاج کے لئے
پیسہ نہیں پاتے تلاش کرایسے لوگوں کی بھی مدد کریں ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن فَرَّجَ عن مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللَّهُ عنْه بها كُرْبَةً مِن
كُرَبِ يَومِ القِيامَةِ(صحيح مسلم:2580)
ترجمہ: جو شخص کسی مسلمان سے کوئی مصیبت دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے
قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت دور کرے گا۔ |