ہم کیا چاہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آزادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟

 اس سال فیض فیسٹیول منعقدہ الحمرا ہالز ، لاہور کے بیرونی ہجوم میں سے کچھ نعرے بلند ہوئے تو میرے کان بھی اس طرف متوجہ ہوئے۔ یہ نوجوانوں پہ مشتمل ایک درجن کے قریب گروہ تھا جس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی ایک عدد طالبہ ( شاید بطور نمائندہء خواتین )شامل تھیں۔ یہ نعرے اگرچہ کہ گوناں گوں تھے مگر خلاف معمو ل غیر معمولی بنتے جا رہے تھے اور ان نعروں نے اپنی انفرادیت کے باعث کافی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ یہ گروپ اپنے نعروں کے ذریعے کبھی تو ایشیاء کو سرخ کرنے میں مصروف ہو جاتا ،تو کبھی ان نعروں سے یہ تاثر نکلتا کہ یہ جتھہ مقید خواتین کو زنجیروں سے آزاد کرانے کے درپے ہے۔ پھر چند منٹس بعد یہ نعرے بلند ہوئے:
ہوں طلبہ جو اکٹھے ۔۔۔۔۔۔ تو ہار نہیں سکتے
ہومزدور جو اکٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ہار نہیں سکتا
ہو عورت جو اکٹھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہار نہیں سکتی
لیکن چند لمحات بعد یہ محسوس ہوا کہ یہ مظلوم لوگ اسلامی جمیعت طلبہ کے ستائے ہوئے ہیں ، کیونکہ اس گروہ نے کچھ وقت کے لیے توقف کی خاطر منتشر ہوتے ہوئے یہ نعرے بھی لگائے کہ
جمیعت کا جو یا ر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ غدار ہے ، غدارہے
قریباََ آدھے گھنٹے کے بعد جب میں بک سٹالز پر کچھ کتابیں خرید رہا تھا توا چانک پھر اسی گروپ کی جانب سے یہ شور اٹھا ؛ جو غالبا ـ مارکسزم کی حمایت میں اور لال کو لہرانے کی حمایت میں تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ گروہ پھر ایک درجن کے قریب ہو گیا اورجسے چند خاتون طالبات نے بھی جوائن کر لیا۔ ان میں سے ایک طالبہ جو عروج اورنگزیب کے نام سے جانی جاتی ہیں ، نے آگے بڑھ کے کچھ شعری نعرے بھی لگوائے جو کہ آناََفاناََ سوشل میڈیا پر وائر ل ہوگئے۔ اس گروہ کے نعرے گلگت بلتستان میں جدوجہد تیز کرنے کے لے آوازیں بلندکرتے اور کبھی خیبر میں جاپہنچتے، وہاں سے بلوچستان میں سفر طے کرتے ہوئے وادیء مہران سے ہوتے ہوئے پنجاب میں واپس آجاتے۔ ان نعروں کو ممتاز صحافی حامد میر مسکراہٹ سے سنتے رہے اور محفوظ ہوتے رہے جبکہ فرخ سہیل گوئندی اور عمار جان کی موجودگی بھی معنی خیز تھی۔
میں بطور ایک مشاہد کے ان تین سے چار گھنٹوں میں اس حتجاجی گروپ کے نعروں سے کوئی واضح مطالبہ اخذ نہ کر سکا، کہ آخر یہ مظلوموں کا گروہ چاہتا کیا ہے؟؟؟ اس گروہ کے مطالبات کیا ہیں؟؟؟ وہ کون سی وجوہات ہیں جنہوں نے اس گروہ کو مجبور کیا ہے کہ وہ سراپا احتجاج ہیں؟؟
بالآخر ایک طالبہ نے مجھے ایک پمفلٹ دیا جس پہ ۲۹ نومبر طلبہ یکجہتی مارچ میں شرکت کی دعوت تھی، اور پھر ایک چھوٹاسا آوازہ بلند ہوا کہ؛
طلبہ یونین بحال کرو۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن نمازِمغرب کے اِن طلبہ کے گروہ، جو پھر نعرہ بازی کیلئے اکٹھا ہوچکا تھا ، کے نعروں نے مجھے چونکا کر رکھ دیا۔ یہ گروپ۔۔۔ ہم کیا چاہتے ۔۔۔۔آزادی کے آوازے بلند کرتا ہوا، ڈھول کے ردھم پر سیاستدانوں اور جمیعت کے حامیوں کو گالیاں دینے اور بازاری جملے کسنے پر اتر آیا۔
اگر چہ میرا تاثر پہلے یہ تھا کہ یہ( نام نہاد) طلبہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے نمائندہ ہیں ، لیکن ان کی بازاری زبان نے میرا یہ تاثر یکسر بدل کے رکھ دیا۔ اس گروہ میں ایک لڑکے نے یہ نعرے لگوائے( جو ویڈیو میں محفوظ بھی ہیں) کہ؛
گرتم نہ دوگے آزادی۔۔۔ ہم چھین کے لیں گے آزادی
فضلو بھی سن لے۔۔۔۔
اوئے باجوہ ، ماجوہ۔۔۔۔۔۔۔۔تیراباپ بھی دے گا آزادی
یہ بازاری زبان ولہجہ میرے لیے بالکل بھی ناقابلِ یقین تھا، یہ نعرے مجھے غیر منطقی بھی نظر آنے لگے۔ مجھے ان کے اہم مطالبے (یونینز کی بحالی اور غیر طبقاتی نظامِ تعلیم ) پہ کوئی اعتراض نہ تھا اور نہ ہے، ان پہ بات اور بحث ہو سکتی ہے، لیکن فوج کو گالی دینا اور اس کے سربراہ کو بازاری لہجے میں مخاطب کرنے کی اجازت اس گروہ کو کس نے دی۔۔؟؟
کیا ایشاء کو سرخ فوج نہیں ہونے دے رہی۔۔؟؟ کیا عورت کو زنجیریں فوج نے پہنائی ہوئی ہیں؟؟ یا فوج کی یہ ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورت کو معاشی اور سیاسی طور پر آزاد کرائے؟؟ کیا فوج کے کسی حاضر سروس آفیسر نے مارکسِزم کے خلاف کوئی نیا نظریہ پیش کر دیا ہے؟؟؟ کیا جی۔ایچ۔کیو سے کوئی ان مظاہرین کو کوئی ٹیلیگرام وصول ہوا تھا کہ؛ جاؤ ہم نئیں دیتے آپکو آزادی۔۔۔ جو کرنا ہے کر لو؟؟؟
کیا افواجِ پاکستا ن کے کسی وِنگ نے حکومتِ پاکستان کوپروپوزل یا ایڈوائس بھیجی تھی کہ یونیورسٹیز کے فنڈز میں کٹوتی کرو یا جار ی اسٹوڈنٹس سکیمز کوفوری بند کر دو۔۔۔؟؟
دراصل بات یہ ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے ہا ں یہاں ایک ٹرینڈ پروان چڑھتا جا رہا ہے کہ جس نے مشہور ہونا ہو وہ فوج کو بلا سوچے سمجھے گالیاں دینا شروع کر دیتا ہے، اور ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ؛
بدنام جو ہوں گے ، تو کیا نام نہ ہو گا۔۔۔۔۔؟
اس بات کو مد ِ نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب ایک مذہبی گروہ نے احتجاج کے دوران فوج پر بلاجواز ، آسیہ کیس کے فیصلہ کے حوالے سے، فوج پر بلاجواز الزامات لگا دیے تھے تو مجبورا پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کو پریس کانفرنس میں یہ کہنا پڑا تھا؛
ہمارے ہاں اب بدقسمتی سے ہر معاملے میں فوج کو گھسیٹ لیا جاتاہے، جو انتہائی قابلِ مزمت ہے۔
ہم واپس اس بات کی طرف آتے ہیں کہ ان مٹھی بھر مظاہرین کی طبلہ کے ساتھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور بعض میڈیا ہاؤسز اور سو شل میڈیا ایکٹوسٹس تو شاید پہلے ہی ان ویڈیوز کے انتظار میں تھا کہ فور ی ان کو پروموٹ کر کے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا جائے اور پروپیگنڈہ شروع کر سکیں۔ اگلے ہی روز وائس آف امریکہ کے ایک پروگرام میں ان طلبہ کو مدعو کیا گیا ، دیگر قومی اور مقامی چینلز نے بھی ان کو مدعو کرنا شروع کیا اور ان کے مطالبات پہ بات ہونا شروع ہوئی۔ یہ طلبہ سیاسی نظام، اور متبادل تعلیمی نظام کے حوالے سے کوئی قابل ِ اطمنان جوابات تو نہ دے پائے اور نہ ہی طلبہ یونین کی بحالی کے فوائد یاضرورت کوبیان کرسکے بلکہ آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے کبھی لیدر کی جیکٹ اور اکبھی بھٹی چوک سے یونیورسٹی کا سفر وغیرہ بیان ہوتا رہا۔
اینکرز نے سوالات تو کیے لیکن مجھے افسوس سے کہناپڑ رہا ہے کہ اینکرز صاحبان نے عروج اورنگزیب کے جوشیلے نعروں پر تو پورا پورا گھنٹہ پروگرامز کر دے لیکن ان اینکرز صاحبان نے ایک مرتبہ بھی عروج اورنگزیب اور اس کے گروہ سے یہ نہیں پوچھاکہ آپ نے فوج کو کیوں گالیاں دیں؟؟ فوج کے بارے میں بازاری لہجے اور زبان کیوں اختیا ر کی؟؟؟ فوج کے سربراہ کو ہتک آمیز روے سے مخاطب کرنا آپ کے ایم۔فل کے مقالے کا حصہ تھا یا کسی بیرونی ایجنسی نے آپکو اس کے لے دیہاڑی کے پیسے دے تھے؟؟ زہر بھری زبان آپکے Pre-Planned ایجنڈا کا حصہ تھا یا آپکی خاندانی تربیت کا شاخسانہ سمجھا جائے۔۔؟؟
کسی ایک اینکر نے بھی یہ جرات نہیں کہ فوجی سربراہ کے نام کو بگاڑنا آپ لوگو ں کی تحریک کے پلان کے کون سے صفحے پر ہے؟؟؟؟؟
اور ۲۹نومبر کو پھر دیکھا گیا کہ کس طرح مظاہرین نے پلے کارڈز پہ فوج کے خلاف نعر درج کرتے ہوئے بد کلامی کا اظہار کیا ہوا تھا۔ جو اکی انتہائی افسوسناک اور قابلِ مزمت ہے۔
ففتھ جنریشن وار Tactics میں سے ایک Tactic یہ بھی ہے کہ دشمن آپ کے لوگوں کے منہ سے سے اپنے الفاظ اگلواتا ہے۔
عروج اورنگزیب کی منظور پشتین کے ساتھ کسی اجتماع میں میں سٹیج پر تصاویر بھی بہت وائرل ہیں اور ٹویٹس بھی ، لیکن مجھے شاید ان سے اتنا سروکار نہیں۔
مجھے اس وقت سروکار ہے تو اس گروہ کے مطالبات کی جائزیت سے اور اس گروہ کی چالوں اور زبان اور لہجوں سے۔
جس طرح میں نے ابتداء میں عرض کیا تھا کہ اس گروہ کے چند مطالبات negotiable ہیں اور ان پہ بات ہوسکتی ہے اور ہونی چاہئے، لیکن جب کوئی غیر منطقی اور غیر استدلالی مطالبہ اور بد کلامی ، افواج پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ اور اس کے سربراہ کے خلاف ہتک آمیز رویہ بلاوجہ اختیار کیا جائے گا اور فوج کو ہر معاملے یا ایشو کا ذمہ دار گردانتے ہوئے اس کے خلاف نعرہ بازی کرے گا تو اسکے خلاف دفاع کیلئے ردعمل بھی آئے گا۔
اور یہ بات ذہن نشیں کر لیجئے کہ افوجِ پاکستان نے عورت کی آزادی کو سلب نہیں کیا ہوا، نہ فوج نے طبقاتی نظامِ تعلیم کی راہ دکھائی تھی ،نہ ہی فوج مزدور کا نوالہ چھینا ہے، اور نہ ہی موجودہ فوجی سربراہ نے طلبہ یونین پہ پابندی لگائی تھی۔
آپ ذمہ داران پالیسی میکرز سے بات کیجئے طلبہ یونینز کی حدو دوقیود اور ضابطہ اخلاق متعین کر کے حکومت کو تجاویز پیش کیجئے ، متباد ل سیاسیء، معاشی اور تعلیمی نظام پیش کریں اور سیاسی لیڈران کے مہذب انداز میں پلے کارڈز پہ نام لکھ کے متوجہ کیجئے یا کوئی اور مہذب طریقہ اختیار کیجئے۔ بلاوجو فوج کو ہر معاملے میں مت گھسیٹیں۔
اے گروہِ طالبان! یا د رکھیئے ، اگر پھر بھی یہ طریقہ اور بات آپکی سمجھ میں نہیں آتی تو معاف کیجئے کی آپ آزادی نہیں چاہتے ، بلکہ آپکا ایجنڈا کچھ اورہے۔
 

Mian Hafeez Ur Rehman
About the Author: Mian Hafeez Ur Rehman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.