تحریر: ڈاکٹر راحت جبین ، کوئٹہ
کچھ دنوں سے مسلسل پاکستان کے مختلف جامعات میں طلبہ اور طالبات کی جانب سے
ریلیاں اور جلسے منعقد کیے جارہے ہیں جن میں آزادی کے نعرے بلند کیے جارہے
ہیں۔ کہیں سسٹم سے آزادی کے، کہیں مردوں کی غلامی سے آزادی کے اور کہیں
طلبہ یونین بحالی کے لیے نعرے لگائے جارہے ہیں۔
کہیں تو یہ مظاہرے معمول کے مطابق اپنے مسائل کے حل کے لیے تھے تو کچھ کو
دیکھ کر ہوش ہی اڑ گئے۔ دیکھ کر کچھ سوالوں نے جنم لیا۔ آیا یہ وہی کچھ تھا
جس کے لیے یہ طلبہ نکلے تھے؟ کیا قوم کے معمار درست سمت کی جانب بڑھ رہے
ہیں؟ کہیں لال لا ل لہرائے گا کے نام پر خونی سفر کا تو آغاز نہیں ہونے
جارہا۔ وہ بھی ایک منفرد انداز میں جس نے نہ صرف مشرقی اطوار کو مسخ کردیا
ہے بلکہ اسلامی اصولوں کے منافی روایات بھی قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
سرخ یا لال لال لہرائے گا کا مطلب ہے لبرلز اور کمیونسٹ سوچ کو پروان
چڑھانا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے برائے نام انسانی حقوق کے نام سے پس پردہ
اپنے مذموم مقاصد کا پرچار کیا اور بنی نوع انسان کو نقصان پہنچایا۔
پاکستان میں ان مظاہروں کے پس پردہ کون ہیں اور ان کے اصل مقاصد کیا ہیں یہ
اب تک مبہم ہی ہے مگر عورتوں اور مردوں کا یوں ناچ گانوں اور ڈھول کی تھاپ
پر رقص وسرور کرکے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کی جو ڈگر چل نکلی ہے وہ پاکستان
کو تباہی کے گھڑے میں دھکیلنے کے لیے کافی ہے۔ نوجواں نسل ملک و قوم کا
قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ ان کی جس طرح ذہن سازی کی جاے وہ اسی سانچے میں ڈھل
جاتے ہیں۔ یہ منفی سرگرمیاں جہاں نہ صرف جلسوں میں شامل طلبہ کے لیے بربادی
کا سامان ہیں وہیں مستقبل میں آنے والے طلبہ وطالبات کے لیے بھی تباہی کا
پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
ابتدا میں جب یہ جلسے منعقد ہونا شروع ہوئے تو ڈھول کی تھاپ پر بسمل عظیم
آبادی کے کلام سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے کی تھان سنائی دی ۔ جو
مسلسل کچھ جلسوں کے بعد بڑھتے بڑھتے انسانیت کے سب سے بدترین درجہ کو چھو
گئی۔ برائے نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کچھ مادر پدر آزاد اور لبرل مرد
اور عورتوں نے اپنے حقوق اور آزادی کے نعرے کی آڑ میں انسانیت کے پرخچے اڑا
دیے۔ خاص کر جس علامتی انداز میں انہوں نے مرد کو کتے کی طرح پٹا ڈال کر
سڑک پر گھسیٹا اور مرغا بنا کر کیٹ واک کرائی وہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ
اس سے نہ صرف انسانیت بلکہ اسلام کی بھی تذلیل ہوئی ہے۔
انسان جو اﷲ کی ساری مخلوقات میں افضل قرار پائی ہے اور صدیوں سے رب کائنات
کو سجدے کرنے والے فرشتوں سے بھی اسے سجدہ کرایا گیا۔ یہ اس بات کی غمازی
ہے کہ اس مخلوق سے رب کائنات کو خاص انسیت ہے، شاید اس لیے اس مخلوق کو
انسان کا نام دیا گیا۔اﷲ تعالی نے عورت کو مرد کے پہلو سے پیدا کرکے اسے
ایک عظیم درجے سے نوازہ کیونکہ پہلو میں دل ہوتا ہے اور دل کا کام پورے جسم
کو زندہ رکھنا ہے، نہ کہ دماغ سے،جس کا کام حکمرانی کرنا ہے۔ دل ناکارہ ہو
تو انسان مر جاتا ہے اور دماغ ناکارہ ہو تو زندگی کی لو چلتی رہتی ہے۔ مرد
جسے اﷲ نے پیغمبر کا درجہ دے کر خود اس کی افضلیت کا اقرار کیا اور اسے شرک
پسند نہیں مگر پھر بھی مرد کو مجازی خدا کے درجے پر فائز کیا اور اس کی ہر
جائز بات پر عور ت کو سر تسلیم خم کرنے کا حکم دیا۔ اسے یوں سر بازار رسوا
کیا گیا۔ گو کہ عورت کو بھی حقوق دیے مگر ایک حد مقرر کی ہے اور تاریخ گواہ
ہے کہ جن جن قوموں نے عورتوں کے اسلام کے متعین کردہ حقوق کی پامالی کی
وہاں عورتوں کا درجہ ایک بکاؤ مال سے زیادہ نہیں رہا۔ اس لیے مرد اور عورت
کو اپنے اپنے مقرر کردہ حدود میں رہ کر اپنے طے شدہ حقوق اور فرائض کی بات
کرنے کا حکم ہے۔
جب مندرجہ بالامسئلے کے پیچھے کارفرما عوامل کا جائزہ لیا تویہ بات واضح
ہوگئی کہ اس کی سب بڑی وجہ پاکستان میں روز بروز بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور
عدم توازن ہے اور اس رو سے اگر ان کے مطالبات کو تسلیم بھی کیا جائے تو ان
کا طریقہ کار غلط ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ پچھلے دنوں بلوچستان
یونیوسٹی میں طالبات کی ویڈیو بنانے کا جو مسئلہ سامنے آیا۔ اس مسئلے کو لے
کر پرامن طریقے سے علاقائی طلبہ وطالبات نے احتجاج کیا مگر نتیجہ کچھ بھی
نہ نکلا۔ برائے نام کچھ لوگوں کو منظر عام پرلا کر سب کے منہ بند کیے گئے
بلکہ اس معاملے میں شامل تفتیش یونیورسٹی کے سابقہ وائیس چانسلر جاوید
اقبال کو یونیورسٹی آف لاہور کے فارمیسی ڈیپار ٹمنٹ کا ڈین تعینات کیا گیا۔
اس کے علاوہ نقیب کا واقعہ بھی نظروں کے سامنے ہے جسے اس کا باپ بغیر انصاف
لیے اس جہان سے رخصت ہوا ۔
جہاں تک میرا نظریہ ہے پاکستان میں اب بات مرد اور عورت کے بنیادی حقوق اور
فرائض کی جنگ سے بھی بہت آگے نکل چکی ہے کیونکہ یہاں صرف کاروکاری، عصمت
دری اور جائیداد کے نام پر عورتوں کے قتل جیسے واقعات ہی رونما نہیں ہوتے
بلکہ یہاں مائیں اپنے بیٹوں کو بھی روتی ہیں۔ کہیں سالوں سے لاپتا ہونے کی
صورت میں، کہیں مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں، کہیں بوری بند لاشوں کی صورت
میں، کہیں مشعال اور نقیب کے قتل کی صورت میں، کہیں شاہزیب اور ولی خان کے
قتل کی صورت میں، کہیں ماڈل ٹاؤن والے واقعے کی صورت میں، کہیں جامع حفصہ
کے معصوم مقتولوں کی صورت میں، کہیں بلوچستان کے گرفتار کی جانے والی بوڑھی
ماؤں کی صورت میں ،کہیں ساہیوال کے معصوم بچوں کے سامنے بیگناہ قتل ہونے
والے والدین کی صورت اور کہیں بظاہر طاقت ور نظر آنیوالے بے نظیر اور اکبر
بگٹی کی اندوہناک موت کی صورت میں۔
یہاں جو لاقانونیت ہے اس کے خاتمے کے لیے واقعی سرخ انقلاب کی ضرورت ہے مگر
اس طرح مرد کی توہیں کی شکل میں نہیں۔ ایسے سرخ انقلاب کی ضرورت ہے جو کرپٹ
نظام کے خلاف ہو۔ بے جا پالیسیوں کے خلاف ہو، کرپٹ حکمرانوں اور سیاست
دانوں کے احتساب کی صورت میں ہو ۔ اگر بااختیار مملکت خداد اور ادارے بنانے
میں ہم ناکام ہوئے تو یہ بڑھتا ہوا انتشار ہماری آنے والی نسلوں کے نام صرف
اور صرف تباہی کے پیغام لائے گا اور ہمارے پاس ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ بھی
نہیں رہے گا اور واقعی اس وقت جب ’’لال لال لہرائے گا تو ہوش ٹھکانے ہی آئے
گا‘‘۔
|