دیوار برلن اور کشمیر

جرمن دیوار برلن گرانے کے لئے30سال تک جدوجہد کرتے رہے۔جرمن قوم کو آزادی اور اتحاد کا جشن منانے کے لئے 30سال تک انتظار کرنا پڑا۔پھر جشن منانے کی گھڑیاں بھی آن پہنچی۔ اب جرمن 30سال سے جشن منا رہے ہیں۔ دیوار برلن نہ گرتی تو یورپ متحد نہ ہو سکتا۔ یورپین یونین اور یورو دیوار برلن گرنے کا تحفہ ہے۔مگر کشمیری 73سال سے انتظار کر رہے ہیں۔ کشمیر کی جنگ بندی لکیر دیوار برلن سے بھی سخت بن چکی ہے۔ جرمن قوم 30سال تکمتحد ہونے کا خواب دیکھتی رہی۔ با لآخر اس کی تعبیر1989کو ملی۔ جب دیوار برلن کے توڑنے کا اعلان کر دیا گیا، مشرقی اور مغربی جرمنی متحد ہو گئے۔ 1961سے 1989تک جرمنوں نے اپنوں کی جدائی اور تقسیم کے دکھ سہے۔ مشرقی جرمنی پر سوویت کنٹرول تھا۔ لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جانے سے روکنے کے لئے 161کلو میٹر طویل دیوار تعمیر کی گئی۔جو نو فٹ کنکریٹ تھی۔ اس پرتین فٹ خار دار تاریں لگا دی گئیں۔ دیوار پر مشین گنیں نصب کی گئیں۔ اس کے ارد گرد بارودی سرنگیں بچھ گئیں۔ اس دیوار نے صرف گلیاں اور مضافات ، شہر اور دیہات ہی تقسیم نہیں کئے بلکہ خاندان کے خاندان اور رشتے ناطے توڑ دیئے۔ یہ دیوار کبھی دیوار شرم اور کبھی آہنی پردہ کہلائی۔ لیکن اسے گرانے پڑا۔

اقوام متحدہ کے چارٹر اور دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے آئین میں آزادی نقل و حمل کی ضمانت ملتی ہے۔ ایک قوم، خاندانوں، عزیز و اقارب کی تقسیم اگر چہ غیر اخلاقی اور غیر فطری ہے لیکن ماورائے اخلاق اور فطرت کارنامے توثیق پا رہے ہیں۔ یہ اطلاق کمزور قوموں پر نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی طاقت کے نشہ میں مست ممالک کسی اخلاقی تصور کے پابند ہیں۔ ان کے سامنے مغلوب اور غلام قومیں کیڑے مکوڑے ہیں۔ ان کے کوئی حقوق نہیں۔ کیوں کہ ایسا ہم نے کشمیر میں ہی نہیں بلکہ فلسطین اور دیگر خطوں میں بھی دیکھ لیا۔کشمیر چار ماہ سے بھی زیادہ عرصہ سے پابند سلاسل ہے۔ دیوار برلن کا گرنا کوئی حادثاتی واقعہ نہیں تھا۔ بلکہ جرمن عوام نے اس کے لئے جدوجہد بھی کی۔ تقریباً 200افراد اس دیوار کو روندھتے ہوئے مارے گئے۔ لاتعداد زخمی ہوئے۔ عوام نے متحد ہونے کے لئے مظاہرے کئے۔ تا ہم دیوار کے ٹوٹنے کے دیگر عوامل بھی تھے۔ قوموں کی آزادی یا تصفیہ طلب ایشوز کا حل ہونا صرف احتجاج کے مرہون منت نہیں ہے بلکہ اس کے لئے مسلسل جدوجہد کے ساتھ اس خطے اور عالمی حالات و واقعات کو موافق ہونا یا بنانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دیوار برلن کو گرانے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ لوگ بھی پر عزم تھے۔ ان کا جذبہ بھی تھا۔ حالات بھی ان کے موافق بنے۔ سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہو رہی تھی۔ اس خطے میں سوویت نواز پولینڈ اور ہنگری کی حکومتیں زوال پذیر تھیں۔ یعنی جدوجہد کے ساتھ ہی سیاسی حالات نے بھی جرمنوں کا ساتھ دیا۔ اس لئے 30سال بعد ہی سہی، لیکن ان کا خواب پورا ہوا۔ وہ پھر سے متحد ہوگئے، خاندان ایک دوسرے سے مل گئے۔ جدائیاں ختم ہو گئیں۔ جرمن دیوار برلن گرنے کی سلور جوبلی منا چکے ہیں۔ اتحاد کے30سالبعد جرمن چانسلر نے اس خواب کا زکر کیا جو اس قوم نے دیکھا تھا۔ جس کے پورا ہونے میں تیس برس لگ گئے۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ خواب حقیقت بن سکتے ہیں۔ یہ بات سب کے لئے بھی حوصلہ افزا ہے کہ خواب سچ ثابت ہوسکتے ہیں۔اب جرمنی میں لوگ ہر سال جشن مناتیہیں۔ شہر چراغاں کئے جاتے ہیں۔ تقریبات ہوتی ہیں۔ اس دیوار کے لئے لوگ اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ عالمی جنگ دوم کے بعد برلن کو چار زون بنا کر اتحادیوں نے اس پر قبضہ کیا۔ مشرقی حصہ پر سوویت یونین قابض ہو گیا۔برلن کے مغربی حصہ کو امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے آپس میں تقسیم کر لیا۔ اب مقبوضہ کشمیر کو بھی بھارت نے دو کالونیوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس پر قبضہ جائز جتلانے کے لئے ہی عوام کی رویات، ثقافت، تہذیب و تمدن، معاشی اور سماجی تشخص کو روند ڈالا ہے۔مگر کب تک دلی والے اس پر قابض رہ سکیں گے۔

وزیر اعظم عمران خان پاک جرمن تعلقات کی بہتری اور معاہدوں سمیت جرمن رہنماؤں کے ساتھ دنیا میں موجود ایک اور دیوار برلن کو گرانے ابھی تک ذکر نہیں کر سکے ہیں۔ان کے پاس فرصت بھی کم ہے۔اگر وقت ملے تووہ کشمیر کی دیوار برلن کو توڑنے کے لئے جرمنی اور اس کے اتحادیوں خاص طور پر یورپ کی حمایت طلب کر نے میں آزاد ہیں۔ کشمیر کی سیز فائر لائن بھی جنوبی ایشیا میں دیوار برلن ہے۔ اس دیوار نے 73سال سے ڈیرھ کروڑ عوام کو ایک دوسرے سے جدا کررکھا ہے۔ دیوار برلن 12فٹ اونچی تھی لیکن کشمیر کی دیوار برلن فلک بوس بنچکی ہے۔پرویز مشرف دور حکومت میں توڑنے کے بجائے اس کو پختہ بنا دیاگیا۔ اس پر کنکریٹ بنکر تعمیر کئے گئے۔ آہنی دیوار لگا کر اس میں کرنٹ چھوڑا گیا ۔ لیزر ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ۔ بھارت اس دیوار کو سمارٹ دیوار کا درجہ دے کر فخر کر رہا ہے۔تا کہ کوئی اسے پار نہ کر سکے۔ اس دیوار کی وجہ سے لاکھوں لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ کشمیری ہی نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے فوجی بھی اس دیوار کی وجہ سیجانیں قربان کر رہے ہیں۔سیاچن گلیشئر اسی کی دین ہے۔ اس کے باوجود حالات موافق نہیں۔ لیکن کشمیریوں کا خواب ہے۔ وہ بھی آزادی اور اتحاد چاہتے ہیں۔ 73سال سے اس کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ اس لئے یہ خواب ضرور پورا ہوگا۔ حالات کو موافق کرنا ہے۔ وزیر اعظمعمران خان جرمن قوم کو اس آزادی اور اتحاد پر مبارکباد دیں۔مگر کشمیر کی سیز فائر لائن کو بھی یاد رکھیں۔ جرمن دیوار برلن کر گرانے کی سالگرہ منا ئیں۔ ان کے اس جشن میں پاکستان بھی شامل ہے۔وہ اس دیوار کیمصیبتوں کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ کشمیر کی دیوار برلن کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔جرمن اور یورپکشمیر کی دیوار برلن کو گرانے میں وہ بھی اپنا تعاون پیش کریں۔ شاید دنیا کشمیر کی دیوار برلن سے اس طرح آگاہ نہیں جس طرح ہونا چاہیئے۔ کیا دنیا کے سامنے ہم اپنا مقدمہ اس طرح پیش کر سکے ہیں جس طرح اسے پیش کرنے کاحق ہے۔ کشمیر کی بھی ایک خطرناک دیوار برلن ہے۔ جس پر لاکھوں لوگ قربان کر دیئے ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا میں ایک ایٹمی جنگ چھڑسکتی ہے۔ جو سب کچھ تباہ کر دے گی۔ اس لئے اس کا گرانا ضروری ہے۔ بھارت اسے گرانے کے بجائے اسے پختہ کر رہا ہے۔کشمیری بھی جرمنوں کی طرح آزادی اور اتحاد چاہتے ہیں۔ جرمن قوم کو سالگرہ تقریبات پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔جرمنی اور یورپ کو بھارت پر دباؤ ڈالنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا جواز ہے۔حقائق درست انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو ان کی ہی زبان ، لہجے، دردمندی اور محاوروں میں سمجھایا جا سکتا ہے۔ جرمن چانسلرکو کون بتائے کہ جنوبی ایشیا میں ایک اور قوم بھی خواب دیکھ رہی ہے۔ جرمن کی طرف دیکھ کر ان کے خواب سچ ثابت ہونے کی امید پیدا ہوئی۔کشمیر کی موجودہ جدوجہد میں دیوار برلن کے گرنے کا اہم کردار ہے۔مگر کشمیریوں کے خواب کو حقیقت بننے میں بھارت رکاوٹ ہے۔جنوبی ایشیا کی یوار برلن توڑنے کی ضرورت ہے۔ بھارت اس دیوار کو پختہ کر رہا ہے۔تا کہ کوئی اسے توڑ نہ سکے۔ لیکن یہ قوم پر عزم ہے اور خواب دیکھ رہی ہے کہ جرمن قوم کی طرح وہ بھی آزادی چھین کر لے گی اور اتحاد بھی ہوگا۔ دیواریں گرانے اور پل تعمیر کرنے کے دور میں کشمیری73سال بر سر پیکار ہیں۔ اسے سیز فائر لائن کے بجائے کنٹرول لائن کا درجہ دے کر ہم نے خود پر ظلم کیا۔ کشمیری اپنی دیوار برلن گرانے کے لئے بر سر پیکار ہیں۔ بھارتکشمیریوں کی جدوجہد کو دہشتگردی اس لئے قرار دیتا ہے تا کہ وہ دنیا کو گمراہ کر سکے۔ بھارت اپنی فوجی قوت اور ریاستی دہشتگردی سے کشمیریوں کو کچل رہا ہے۔ کشمیر میں Genocideہو رہا ہے۔ دنیا اس جانب کچھ توجہ دے اور بھارت پر دباؤ ڈالے تو کشمیریوں کا خواب جلد سچ ثابت ہو سکتا ہے۔

 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 487395 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More