لیجیئے بالآخر ہمارے آرمی چیف جنرل باجوہ نے ایک بار پھر
شہید نقیب اللہ کے ساتھ انصاف کا وعدہ کرڈالا ۔۔۔ 3 برس قبل ملک کے سب سے
طاقتور ادارے کے سربراہ نے یہ وعدہ شہید کے والد محمد خان محسود سے
بالمشافہ ملاقات میں کیا تھا اور مرحوم محمد خان کے والد کے ہاتھ پہ اپنا
دست مبارک رکھ کر انہیں جلد اور مکمل انصاف کی یقین دہانی کرائی تھی ۔ لیکن
اس مرتبہ انہوں نے یہ وعدہ محمد خان کی روح سے کیا ہے کیونکہ شہید نقیب
اللہ محسود کا بدنصیب والد اپنے بیگناہ بیٹے کے قاتل کو سزا دلوانے کے لیے
دہائیاں دیتا دیتا بالآخر اپنی قبر میں جا سویا ہے اور ہمارے آرمی چیف نے
نہ صرف انصاف کی فراہمی کا اپنا وعدہ دہرایا ہے بلکہ مرحوم کے لیے بڑی
دلسوزی سے دعائے مغفرت بھی کی ہے ۔ عوام کو تو ابھی تک ہرگز نہیں بھولا،
لیکن عدلیہ کو یاد دلانے کے لیے ذرا دہرادوں کہ نقیب اللہ وہی مظلوم تھا کہ
جسے تقریباً 3 برس قبل 18 جنوری 2017 کو راؤ انوار کے ہاتھوں اغواء کرکے
درندگی سے جعلی پولیس مقابلے میں شہید کردیا گیا تھا اور جس کے قتل پہ عوام
میں زبردست غیض و غضب کی ایسی لہر اٹھی تھی کہ جگہ جگہ احتجاج اور مظاہرے
شروع ہوگئے تھے اور جس کا نوٹس لینے پہ عدلیہ بھی مجبور ہوگئی تھی اور جس
کے حکم پہ بنائی گئی جے آئی ٹی نے ظلم و بربریت کی اس واردات کی حقیقت کھول
کے بیان کردی تھی اور یہ روح فرسا حقیقت بھی کھل کے سامنے آئی تھی کےاس
ظالم پولیس افسر نے درجنوں پولیس مقابلوں میں تقریباً ساڑھے چار سو مظلوموں
کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں ۔
یہ وہی پولیس افسر ہے کہ ہر دم عوام کی ہمدردی میں آہیں بھرتی جماعت پیپلز
پارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے جس کے بہیمانہ جرائم کی پوری داستان سامنے
آجانے کے بعد بھی اسے میڈیا کے سامنے بڑے دھڑلے سے ‘ بہادر بچہ ‘ کا
مشفقانہ لقب دینے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کی تھی کیونکہ اسی راؤ انوار
کو مسلسل دس برس تک ضلع ملیر کا ایس ایس پی تعینات رکھ کر زرداری اور ملک
ریاض نے بہتیرے گاؤں گوٹھ اجاڑ کے کھربوں روپے کی ہزاروں ایکڑ زمین اونے
پونے ہتھیالی تھی اوریوں اسی زمین کے ایک بڑے حصے پہ بحریہ ٹاؤن کے نام سے
مملکت خدادا میں ایک ظلم نگر بنایا جانا ممکن ہوا۔۔ یادش بخیر آصف زرداری
کی ہدایت پر سندھ حکومت نے اس وسیع و عریض کو ملک ریاض کو صرف پونے پانچ
ارب میں فروخت کردیا گیا تھا اور بہت بعد میں جب سپریم کورٹ نے اس معاملے
کی تحقیقات کا حکم دیا تھا تو حکومت سندھ نے اس قیمت کو بالکل درست قرار
دیا تھا مگر جب سپریم کورٹ نے اسکی قیمت مارکیٹ کے مطابق لینے کا فیصلہ کیا
تو ملک ریاض اور زرداری نے ٹھیکداروں کو سڑکوں پہ لاکے سپرہائی وے بلاک
کروادی تھی اور بالآخر بحریہ ٹاؤن کی ناجائز طور پہ ہتھیائی گئی سترہ ہزار
ایکڑ زمین پہ کورٹ میں ایک سیٹلمنٹ ہوگیا تھا اور جس زمین کو ملک ریاض کو
پونے پانچ ارب میں بیچ کے سندھ حکومت نے بالکل درست قیمت قرار دیا تھا اسی
کے لیے ملک ریاض نے 460 ارب روپے یعنی پورے سو گنا زیادہ قیمت دینے کا
معاہدہ بھی کرلیا مگر ایک میڈیا چینل کا مالک بن جانے کے بعد تو ملک ریاض
کی طاقت اور بھی بڑھ گئی ہے اور اس معاہدے کے مستقبل کے بارے میں یقینی طور
سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔
واضحرہے کہ سترہ ہزار ایکڑ زمین کی یہ معاہدہ شدہ قیمت یعنی 460 ارب روپے
لگ بھگ سات برس میں ادا کی جائیگی جبکہ محتاط اندازے کے مطابق اس زمین کی
مارکیٹ قیمت معاہدے کے وقت بھی دو ہزار ارب سے زیادہ تھی اور ساڑھے چار برس
میں پیسے کی منفعت دوگنی ہونے کے تخمینے کی رو سے یہ زمین سات برس بعد پونے
دوگنا مہنگی ہوکرتقریباً تین سے ساڑھے تین ہزار ارب ہوجائےگی یوں یہ چار سو
ساٹھ ارب روپے کی معاہداتی قیمت بھی اس وقت کی قیمت کا محض 15 سے 20 فیصد
ہی ہوگی ۔۔۔ ( اور سندھ حکومت کی بدعنوانی کے خلاف یہ ایک پکا ثبوت اور فٹ
کیس برائے ریفرنس بھی ہے ) اور لگتا یوں ہے کہ 20 دسمبر کے بعد آنے والے
نئے چیف جسٹس گلزار یقیناً کرپشن چھپانے والے اس بےڈھنگے معاہدے پہ ضرور
نظر ثانی کرینگے ۔۔۔ دیکھیے بات لمبی ہوگئی ۔۔۔ لیکن راؤ انوار کی اہمیت
سمجھانے کے لیے یہ سب بتانا بہت ضروری تھا اور اسکی یوں سرپرستی کی وجوہات
جانے بغیر یہ سمجھا ہی نہیں جاسکتا کہ راؤ میں ایسی کیا خاص بات ہے اور اس
کے پیچھے آخرایسی کونسی طاقت ہے کہ جو اسے تاحال ببانگ دہل ہر برے انجام سے
محفوظ رکھے ہوئے ہے ۔۔۔ یہاں یہ بھی جان لیجیے کہ بحریہ ٹاؤن کی زمینوں کے
اس ہوشرباء دھندےمیں ایک نہیں کئی طاقتور اداروں کے بہت سے بڑے بھی ملوث
ہیں اور وہ راؤ کی سرپرستی و تحفظ کے اس معاملے میں اس لیے پوری شدت سے
یکجان ہیں کیونکہ وہ کئی بار یہ دھمکیاں دے چکا ہے کہ اگر اسکے ساتھ گڑ بڑ
ہوئی تو وہ سب کے راز اگل دے گا ۔۔۔
چنانچہ اب نقیب اللہ کے گھر والوں کو محمد خان کی حرماں نصیب موت کے بعد
خون کے آنسو اورصبر کے گھونٹ برابر کی مقدار میں ایک ساتھ ملا کے پی لینے
چاہئیں اور اگر ممکن ہو تو مقبوضہ کشمیر کے ان پاگلوں کو بھی یہی مشورہ
دینا چاہیے کہ جو پنڈی میں ایمان تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ والے سرکاری
بورڈزلگے ہونے کی معلومات کے بل پہ نجانے کب سے آسرے میں ہیں کہ تقسیم ہند
کے اس نامکمل ایجنڈے کو مکمل کیا جائے گا اور بیچارے خوش فہم اس غلط فہمی
میں متلاء ہیں کہ فوت شدہ لائن آف کنٹرول کے اس پار سے اپنے مسلمان بھائیوں
کو بچانے اور کفار سے جہاد کرنے جلد سرکاری مجاہدین کا کوئی جرار لشکر علم
اٹھائے اس طرف بھی آئے گا ۔۔۔ انہیں تو بس اب ہمارے اس طویل العمر سرکاری
نعرے ہی سے دل بہلاتے رہنا چاہیے کہ “ہم تمہارے ساتھ کھڑے ہیں۔۔۔ ” اورہاں
انہیں یہ گارنٹی بھی ہر سطح پہ دی جاسکتی ہے کہ یہ نعرہ کبھی نہیں بدلا
جائے گا۔۔۔ البتہ خیال رہے کہ یہ گستاخ سوال انکے ذہن کے کسی گوشے میں بھی
نہیں گونجنا چاہیے کہ ” حضور کھڑے تو آپ نقیب اللہ کے والد کے ساتھ بھی تھے”
۔۔۔ ورنہ ہوسکتا ہے کہ وہاں سے جواب آئے کہ ہم کیا کریں وہ تھا ہی بڑا جلد
باز ، تین ہی برس میں مر گیا ۔ |