پاکستان سمیت دنیا بھر میں ۹دسمبر کو
انسدادبدعنوانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔جس کا اہم مقصداس ناسور کا
بندوبست کرنا اور معاشرے پر بد عنوانی کی وجہ سے پڑنے والے اثرات سے متعلق
آگاہی پیدا کرنا ہے ۔جس کیلئے دنیا بھر میں ۹ دسمبر کو سمینارز اور آگاہی
واک کا اہتمام خصوصی طور پر کیا جاتا ہے۔معزز قارئین شاید آپ کے ذہن میں اب
یہ سوال ابھر رہا ہو کہ آخر بدعنوانی مرادکیا ہے؟دراصل بدعنوانی کو انگلش
میں کرپشن کہتے ہیں کرپشن سے مراد صرف مالیاتی غبن ہی نہیں بلکہ اپنے عہدے
اور مراعات کاناجائز استعمال یا اپنے اختیار میں موجود وسائل کوایسے لوگوں
میں تقسیم کرنا جو اس کے حق دار نہیں یہ سب بدعنوانی ہی کہلاتا ہے۔ یوں تو
پاکستان کو بے شمار مسائل نے گھیرا ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک و قوم کی ترقی
کی شرح کافی کم ہوچکی ہے۔لیکن ان بے شمار مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ کرپشن
ہے۔ کرپشن نہ صرف پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ
پاکستان کی بنیادوں کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ کرپشن ایک ایسی بیماری
ہے جو کسی بھی معاشرے کو اگر ایک بار لگ جائے تو اس کی معاشرے کی روحانی و
اخلاقی موت یقینی ہے۔ٹرانسپیرٹی انٹر نیشنل ایک ایسا ادارہ ہے جو دنیا بھر
کے ممالک میں بدعنوانی کا جائزہ لیتی ہے۔ اس ادارے کی سال 2018کی مرتب کردہ
رپورٹ میں جنوبی ایشیاء کے چھ ممالک کرپشن سے زیادہ متاثر ہیں جن میں
پاکستان بھی شامل ہے۔حالیہ رینکنگ کے مطابق پاکستان 180کرپشن زدہ ممالک میں
سے 117ویں نمبر پر موجود ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا ملک بری طرح کرپشن
کی لپیٹ میں ہے ۔ایک مزدور سے لیکر اعلیٰ افسران تک سب اس سے متاثر
ہیں۔ہمارے ملک میں کرپشن کا زہر بڑی تیزی سے سرایت کررہا ہے ۔آج شاید ہی
کوئی شعبہ ایسا ہو جو اس لعنت سے پاک ہو ہر محکمہ میں کرپٹ لوگ موجود ہیں
جو اس ناسور کو مزید پھیلا رہے ہیں۔ کرپٹ انسان کے پاس جو اختیارہوتے ہیں
وہ ہمیشہ ان کا غلط ہی استعمال کرتا ہے۔ کرپشن کی چھوٹی سی مثال کہ ایک
ڈاکٹر کے دروازے پر بیٹھنے والا چپڑاسی بھی سو ،پچاس لیکر آپ کے مریض کا
نمبر آنے سے پہلے چیک اپ کروا سکتا ہے۔یہ ایک مزدور کی مثال تھی جس پرہم
میں سے اکثریت کی سوچ ہوتی ہے کہ غریب انسان ہے شاید اس کے مالی حالات ایسا
کرنے پر مجبور کرتے ہو۔جناب اس کرپشن نے جہاں پولیس ،واپڈا اور دیگر کئی
محکموں سے منسلک ایماندار افراد کے کردار کو بھی مشکوک بنا دیا ہے وہیں اس
زہر قاتل سے معاشرے کے انتہائی معتبر و مقدس پیشے سے منسلک افراد بھی نہیں
بچ سکے یہ زہر ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑ نے لگا ہے۔چند روز پہلے میرے
ساتھ پیش آئے ایک واقعہ کا ذکر کرتا ہوں کہ میں نے کچھ فارمزپر تصدیق
کروانی تھی جس کیلئے میں قریبی سرکاری ہائی سکول گیا وہاں جاکر مجاز استاد
کا پوچھا جس نے فارمز تصدیق کرنے تھے۔جب میں ان استاد صاحب کی خدمت میں
پہنچا اور اپنی عرضی بیان کی تو سرکار فرمانے لگیــ’’ بچے اے کینے فارم
نے‘‘ میں نے بتایا سر یہ 7فارمز ہیں جن پر آپ کے دستخط اور مہر ثبت کروانی
ہے۔ بڑے ہی تحمل سے جواب دیا کہ اس کے کچھ چارجز ہونگے بچے ٹائم لگتا ہے۔یہ
جواب سن کرمیرا تو دماغ چکرا گیا کہ یہ کیا میں توسب محکموں سے اچھا محکمہ
تعلیم کو سمجھتا تھا کہ جو معاشرے کے سمجھدار اور باشعور لوگوں پر مشتمل ہے
لیکن بد قسمتی سے کرپشن کا مرض ان کوبھی لاحق ہوگیا ہے۔ اس واقعے سے آپ
اندازہ کرسکتے ہیں کہ کرپشن کے مرض نے ہمارے ملک کے ایسے محکموں اور افراد
کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے جن کے کرپٹ ہونے کے بارے میں گمان بھی نہیں کیا
جاسکتا تھا۔یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہمیں کرپٹ صرف سیاست دان نظر
آتے ہیں کہ یہ ملک کو لوٹ کر کھاگئے کہ وہ ترقیاتی کاموں پرٹھیکوں سے کمیشن
لیتے ہیں یہ سب باتیں بالکل درست ہیں کہ وہ ایسا کرتے ہیں اور کھلے عام
کرتے ہیں۔ایک بار اسمبلی کے فلور پر پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کہہ چکے ہیں
کہ کیا کرپشن کرنا ہماراحق نہیں مطلب کہ وہ کرپشن کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔اس
طرح آج ہر محکمہ میں موجود کرپٹ انسان رشوت کو اپنا حق سمجھتا ہے یہ ایک
مشہور مقولہ ہے کہ سرکاری ملازم دفتر آنے کی تنخواہ لیتے ہیں اور کام کرنے
کیلئے رشوت۔آج کل کرپٹ افراد نے رشوت کو کمیشن،تحفے یا نذرانے کا نام دیا
ہوا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کیلئے بنایا گیا ادارہ
نیشنل اکاونٹی بیلٹی بیورو (NAB)بھی اس لعنت سے بچ نہیں سکا۔کرپشن کی اس
آکاس بیل نے اس ادارے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔کرپشن کوآکاس بیل سے
تشبیہ اس لیے دی ہے کیونکہ آکاس بیل جب کسی پودے یا درخت پر گرتی ہے تو وہ
خود تو خوب پھلتی پھولتی ہے لیکن اس درخت کا کام تمام کردیتی ہے۔کسی بھی
معاشرے میں کرپشن آکاس بیل کا ہی کام کرتی ہے مطلب معاشرے کی تباہی یقینی
ہے۔ اس ملک کا اﷲ ہی حافظ ہے جس میں حکمران تو بدنام ہی لیکن چپڑاسی سے
لیکر ٹیچنگ جیسے مقدس پیشے سے منسلک افراد بھی کرپشن کے مرض میں مبتلا
ہے۔ایک ذمے دار پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس ڈگر پر
چل نکلے ہیں۔ہمیں اپنے اور اپنے وطن کی بہتری کیلئے اس لعنت سے چھٹکارا
حاصل کرنا ہوگا۔ابھی وقت ہے کہ ہم اپنے اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔اپنی
اور اپنے ارد گرد موجود کرپٹ افراد کی اصلاح کریں ورنہ ہماری تباہی یقینی
ہے۔ کیونکہ فرمان مصطفی ﷺبھی ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی
ہیں۔
|