محمد رمضان خاں لودھی میرا وہ بھائی ہے جو رشتے میں سب
بہن بھائیوں سے بڑا ہونے کے ناطے ہم سب کے لیے قابل احترام بھی تھا۔ وہ
انتہائی بردبار‘ رحمدل اور معاملہ فہم انسان تھا۔ بہن بھائیوں میں صرف وہی
1947ء میں ہندوستان کے شہر فریدکوٹ میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی مسلم تاریخ
کی سب سے بڑی ہجرت کرنے کا اعزاز بھی انہیں ہی حاصل ہوا۔ قیام پاکستان کا
اعلان ہوتے ہی پورے ہندوستان میں قتل وغارت کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔
صدیوں سے اکٹھے رہنے والے ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو گئے چونکہ فریدکوٹ
شہر نوآزاد مملکت ’’پاکستان‘‘ میں شامل نہیں ہو رہا تھا۔ اس لیے دیگر شہروں
کی طرح فریدکوٹ میں بسنے والے مسلمانوں کو نہ چاہنے کے باوجود اپنا گھر بار
چھوڑنا پڑا میری ماں جب اپنے اکلوتے بیٹے کو سینے سے لگائے اپنے عزیز
واقارب کے ہمراہ فریدکوٹ ریلوے اسٹیشن کی طرف گامزن تھی تو راستے میں کئی
جگہ وحشی ہندوؤں اور درندہ صفت سکھوں سے سامنا ہوا۔ چونکہ ہندوستان میں رہ
جانے والی ان دونوں اقوام نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ کوئی مسلمان عورت مرد
اور بچہ زندہ بچ کر پاک سرزمین تک نہ پہنچ سکے۔ اس لیے ایک اندازے کے مطابق
لاکھوں مسلمان‘ وطن عزیز پہنچنے کے شوق میں جام شہادت نوش کر گئے۔
میرے والدین جب لاہور جانے والی ٹرین پر خوف و ہراس کے عالم میں سوار ہونے
لگے تو ریل گاڑی چھوٹ جانے کے ڈر کے ساتھ ساتھ انہیں ہندو اور سکھ بلوائیوں
کے حملے کا بھی خوف تھا۔ جو فریدکوٹ اسٹیشن کی حدود سے باہر تلواریں اور
کرپانیں تھامے یلغار کے منتظر تھے۔ ان نازک لمحات میں جیسے ہی ماں گاڑی کے
ڈبے میں سوار ہونے لگی تو ان کا پاؤں پھسل گیا۔ جس سے بھائی رمضان ماں کی
آغوش سے پھسل کر نیچے ریلوے لائن میں جا گرا۔ گاڑی چلنے کے لیے وسل بجا چکی
تھی۔ ہندو اور سکھ گاڑی کو روک کر مسلمانوں کے لہو سے اپنی کرپانوں کی پیاس
بجھانے کے لیے بے تاب تھے۔ ا س لمحے جان پر کھیل کر کون بھائی رمضان کو
نکالتا۔ اپنے لخت جگر کی یہ حالت دیکھ کر ماں چیخ وپکار کر رہی تھی۔ جب وہ
شٹل کاک جیسا برقعہ پہنے خود ریلوے لائن میں اترنے لگی تو ماموں فتح خاں
چند لمحے پہلے بھائی رمضان کو گاڑی کے آہنی پہئیوں سے نکال لائے۔ تب جا کر
ماں کو قرار آیا۔ فریدکوٹ کا سرزمین پاک (گنڈا سنگھ بارڈر) تک کا فاصلہ بیس
پچیس میل تھا۔ جس کے ایک ایک قدم پر موت منتظر تھی۔ اکثر گاڑیوں کے ڈرائیور
ہندو تھے۔ وہ بلوائیوں کو دیکھ کر ازخود گاڑی روک لیتے اور اس وقت تک نہ
چلاتے جب تک گاڑی میں سوار کوئی ایک مسلمان بھی قاتل نہ ہوجاتا۔ یہی وجہ
تھی کہ کٹے اور جلے انسانی اعضاء سے بھری ٹرینیں جب پاکستان پہنچی تو
سرزمین پاک پر بسنے والے مسلمانوں نے بھی نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں اور
سکھوں سے کسی حد تک بدلہ لے لیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں سے کوئی ایک
ہندو اور سکھ بھی زندہ بچ کر نہ جاتا لیکن فوج اور پولیس میں شامل ہندوؤں
اور سکھوں نے مسلمانوں کو نہ صرف نہتا کر دیا بلکہ جہاں بھی مسلمان جمع
ہوئے یلغار سے پہلے ہی ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی۔ بدقسمتی سے فوج
میں شامل مسلمان سپاہی نہ ہونے کے برابر تھے اور جو موجود تھے ان کی
تعیناتی تقسیم ہند سے پہلے ہی دوردراز علاقوں میں کر دی گئی تھی جہاں وہ
انگریز فوجی افسروں کے سخت ڈسپلن کے پابند تھے۔
بہرکیف ہمارا خاندان پاکستان کے قصباتی شہر قصور تک بحفاظت پہنچنے میں
کامیاب ہو گیا۔ بھائی رمضان نے اپنے بچپن کے کئی سال قصور شہر کے ریلوے
کوارٹروں میں گزارے جہاں اس وقت میرے دادا خیردین خان بطور کیبن مین تعینات
تھے پھر جب والد صاحب کو ریلوے میں کانٹے والا کی حیثیت سے 1954ء میں
ملازمت مل گئی تو پہلے انہیں پریم نگر پھر قلعہ ستارشاہ تعینات رہنا پڑا۔
یہاں بھائی رمضان نے سکول جانا شروع کر دیا چونکہ قلعہ ستارشاہ جنگل بیابان
میں چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن تھا۔ اس لیے بھائی رمضان کو بذریعہ ٹرین دوسرے
لڑکوں کے ساتھ شیخوپورہ کے سکول میں جانا پڑتا۔ شیخوپورہ میں ہی خالو رفیق
اور خالہ رشید کا گھر تھا۔ گاڑی اگر لیٹ ہو جاتی تو بھائی رمضان خالہ رشید
کے گھر چلے جاتے۔ اس شہر میں میری ماں کی خالہ عنایت بی بی بھی اپنے اہل
خانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ یہ گھر بھی کبھی کبھار بھائی رمضان کی پناہ
گاہ بنتا پھر بھی بھائی کی واپسی تک ماں کو قرار نہ آتا۔ میں چونکہ اس وقت
چار پانچ سال کا تھا اس لیے ماں پیار سے گاڑی دیکھنے کے لیے باربار مجھے ہی
کہتی اور میں بھی ریلوے لائن کو دور تک دیکھتا رہتا اور جب اسٹیم انجن کی
کوک سنائی دیتی اور اس کا دھواں دور سے ہی رقص کرتا ہوا دکھائی دیتا تو میں
بھاگ کے ماں کو خبر دے کر خود اسٹیشن کی طرف بھاگ جاتا جہاں سے میرے بھائی
نے گھر آنا ہوتا۔ وہ لمحہ میرے لیے بے حد راحت بخش ہوتا جب میں بھائی کو
گلے میں بستہ ڈالے گاڑی سے اترتے دیکھتا اور بھاگ کر اس کی ٹانگوں کو چمٹ
جاتا۔
پھر والد صاحب کی ٹرانسفر قلعہ ستارشاہ سے واں رادھارام (حبیب آباد) ہو گئی
یہ 1960ء کا زمانہ تھا۔ بھائی رمضان چودہ سال کے ہو چکے تھے۔ گھر چونکہ
غربت کے مہیب ساؤں میں گھرا ہوا تھا۔ والد صاحب کی تنخواہ اتنی قلیل تھی جس
سے نہ تو گھر کا گزارا ہوتا تھا اور نہ ہی ہمارے تعلیمی اخراجات پورے ہوتے
تھے حالانکہ اس زمانے میں سکول کی ماہنامہ فیس بھی چند آنے ہوا کرتی تھی
اور ملیشیا کا سوٹ اس وقت تک نیانہ بنتا جب تک پرانا پھٹ نہ جاتا۔ ریلوے کی
پرانی نیلی رنگ کی وردی پھاڑ کر ماں اپنے ہاتھ سے تھیلا تیار کر دیتی۔ اسی
تھیلے میں کتابیں سلیٹ اور تختی رکھ کر ہم تینوں بھائی سکول روانہ ہو جاتے۔
سکول سے واپسی پر بھائی رمضان بھائی اکرم اور میں ریلوے پھاٹک پر (جہاں
کراچی سے پشاور آنے جانے والی بسیں اور دوسری ٹریفک گزرتی تھی) پہنچ جاتے۔
دونوں بھائی گرمیوں میں کچھا بنیان پہن کر مالٹے‘ جامن اور شہتوت فروخت
کرتے جبکہ سگریٹ فروخت کرنے میری ذمہ داری ہوتی۔ ان دنوں بچے اغوا کرنے
والوں کا بہت چرچا تھا۔ اکثر وبیشتر ایسی خبریں سننے کو ملتیں کہ کار میں
چند لوگ آئے ایک نوجوان سے ایڈریس پوچھا پھر نشہ آور رومال سونگھا کر اسے
گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔ واں رادھارام سے کئی نوجوان اغوا ہو چکے تھے۔
ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے ماں نے ہم تینوں کو باقاعدہ نصیحت کر رکھی
تھیں کہ کوئی پٹھان بلائے تو مت جانا۔ اگر کوئی انجان شخص کھانے کو چیز دے
تو نہیں کھانی۔ ہو سکتا ہے اس میں نشہ ملا ہو۔ ہم تینوں بھائی حتیٰ المقدور
ماں کی نصیحت پر عمل کرتے۔ میں چونکہ چھوٹا اور کسی قدر پیارا بھی تھا۔ اس
لیے ماں میرے بارے میں بھائیوں کو خصوصاً ہدایتیں کرتیں کہ مجھے اپنی
آنکھوں کے سامنے رکھنا ہے۔ بھائی اکرم تو بہت شرارتی تھا وہ کسی نہ کسی
دھندے میں لگا رہتا لیکن بھائی رمضان کی تمام تر توجہ مجھ پر مرکوز ہوتی۔
جونہی ہی ٹرین کی آمد پر ریلوے پھاٹک بند ہوتا ہم تینوں بھائی بسوں اور
کاروں کے قریب جا کر اپنا اپنا سودا فروخت کرنے کے لیے آوازیں لگاتے۔ اگر
کوئی طلب کرتا تو ہم بھاگ کے اسے سودا دے آتے۔ اسی اثنا میں اگر پھاٹک کھل
جاتا تو کئی لوگ ہمارے پیسے بھی ساتھ ہی لے جاتے۔ جس کا دکھ بہت عرصے تک
ہمیں رہتا۔
اسی دوران ایک دن جب پھاٹک بند ہوا تو بہت سی گاڑیاں رک گئیں ان میں ایک
خوبصورت کار بھی تھی۔ جس میں ایک پاکستانی میم (یعنی امیرزادی) بیٹھی ہوئی
تھی۔ اس نے جب مجھے سگریٹ فروخت کرتے دیکھا تو اسے نہ کیوں مجھ پر پیار آ
گیا۔ اس نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا ۔ ماں کی نصیحت ہر لمحے میرے ذہن
میں رہتی تھی اس لیے میں سمجھاکہ وہ مجھے اغوا کرنا چاہتی ہے۔اس لیے میں نے
اس کی طرف توجہ نہ دی بلکہ اس سے دور چلا گیا۔ اتنے میں پھاٹک کھل گیا اور
رکی ہوئی ٹریفک رواں دواں ہو گئی لیکن کار والی خاتون وہیں ٹھہرکر میرے
انتظار کرتی رہی۔ اس نے ایک چھابڑی فروش سے پوچھا کہ اس بچے کا کوئی بڑا
بھائی یہاں موجود ہے۔ اگر ہے تو اسے بلا کر لاؤ۔ چھابڑی فروش بھائی رمضان
کو بلا کر لے آیا۔ تماشہ دیکھنے کے لیے سارے چھابڑی فروش جمع ہو گئے۔ اس
پاکستانی میم نے بھائی رمضان کو میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ آپ کا
بھائی ہے۔ بھائی رمضان نے ہاں میں سر ہلا دیا اس خاتون نے کہا کہ اس بچے کو
میرے پاس بلاؤ۔ مجھے وہ پیارا لگا تا ہے ‘ اسے میں اپنے ہاتھ سے کریم رول
کھلانا چاہتی ہوں۔ کریم رول کھلانے کا سن کر بھائی رمضان کے بھی کان کھڑے
ہو گئے۔ اس نے کہا کہ آپ میرے بھائی کو کریم رول کھلا کر اغوا کرنا چاہتی
ہیں ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اس پر خاتون نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا
ہرگز نہیں ہے۔ یہ کریم رول نشہ آور نہیں ہیں۔ انہیں کھانے سے نشہ نہیں ہوتا۔
اگر تمہیں پھر بھی شک ہے تو سب کے سامنے ایک کریم رول میں خود کھا لیتی ہوں۔
جب اس خاتون نے کریم رول لفافے سے نکال کر کھانا شروع کیا تو سب کے منہ میں
پانی آ گیا۔ تمام چھابڑی فروشوں نے کار کو چاروں طرف سے گھیر کر بھائی
رمضان کو کہا کہ اپنے بھائی کو اس میم کے پاس لے کر آؤ۔تاکہ یہ اپنے ہاتھ
سے اسے کریم رول کھلا کر اپنی حسرت پوری کر سکے۔ سازگار ماحول دیکھ کر
بھائی رمضان نے مجھے قریب آنے کے لیے کہا میں چونکہ اس خاتون سے خوفزدہ تھا
اس لیے ا س کے پاس جانے سے مکمل انکاری تھا ۔ بھائی رمضان نے مجھے حوصلہ
دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب موجود ہیں۔
ہماری موجودگی میں وہ خاتون نہ تو تمہیں نشہ آور چیز کھلا سکتی ہے اور نہ
ہی تمہیں لے کر بھاگ سکتی ہے۔ بھائی کے کہنے پر میں ڈرتے ڈرتے ان کے ساتھ
ہو لیا لیکن میرے لاشعور میں خوف کی لہر اب بھی موجود تھی۔ میں جب کار کے
قریب پہنچا تو وہ خوبصورت خاتون کار سے باہر نکلی اور مجھے اپنے سینے سے
لگا یا اور دیر تک پیار کرتی رہی۔ شاید اس کے کسی بچے کی شکل مجھ سے ملتی
جلتی تھی پھر اپنے ساتھ والی نشست پر بٹھا کر مجھے کریم رول کھانے کو دیا۔
میں نے ڈرتے ڈرتے پکڑ لیا۔ میں جس لمحے کریم رول کھا رہا تھا۔ بھائی رمضان
سمیت تمام چھابڑی فروشوں کے منہ میں پانی آ رہا تھا اور کریم رول کھانے کو
ان کا دل بھی چاہ رہا تھا۔ زندگی میں پہلی بار کریم رول میں کھا یا تھا۔
اتنی مہنگی چیز ہم جیسے غریب لوگوں کے نصیب میں کہاں تھی۔ ایک کریم رول
کھاتے ہی میرا پیٹ بھر گیا۔ خاتون نے کریم رول کا بھرا ہوا لفافہ مجھے دیتے
ہوئے نصیحت کی کہ اسے صرف میں ہی کھاؤں۔ یہ کہہ کر وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ
کر چلی گئی۔ کریم رول سے بھرا لفافہ لے کر میں اتنا خوش تھا جیسے مجھے
قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔ خاتون کے جاتے ہی سارے چھابڑی والے مجھ پر ٹوٹ
پڑے اور کریم رول مانگنے لگے۔ مجھے ان کی اس حرکت پر سخت غصہ آ رہا تھا اور
د ل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ میں یہ کریم رولز اپنی ماں کو جا کر دوں گا۔
جب وہ یہ کھائے گی تو کتنی خوش ہو گی۔ اس دن کریم رول کی خاطر مجھے شام
ڈھلنے سے پہلے ہی گھر لوٹنا پڑا۔ ماں نے جب میرے ہاتھ میں کریم رولز کا بڑا
سا لفافہ دیکھا تو بہت حیران ہوئی کہ یہ کس نے مجھے دیا ہے۔ میں نے جب ساری
بات بتائی تو ماں بھی خاتون کو دعائیں دیتی ہوئی مزے مزے سے کریم رول کھانے
لگی۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ بچپن میں مجھے سوہنا کے نام سے پکارتے تھے۔
اب بھائی رمضان چھٹی جماعت میں پہنچ چکے تھے چونکہ واں رادھا رام میں ہائی
سکول نہیں تھا۔ اس لیے انہیں ہر روز بذریعہ ٹرین پر پتوکی جانا پڑتا۔
اسٹیشن ماسٹر کا بیٹا جمیل‘ ناجی اور ایک عیسائی نوجوان کالو ‘بھائی رمضان
کے جگری دوست تھے۔ کچھ عرصہ بھائی رمضان رینالہ خورو (ملیانوالہ) بھی حصول
تعلیم کے لیے جاتے رہے۔ بھائی رمضان حساب کے مضمون میں بہت ماہر تصور کیے
جاتے تھے۔ بدقسمتی سے میٹرک کے امتحان میں فیل بھی اسی مضمون میں ہوئے۔ جس
پر انہیں والد صاحب کی جھڑکیاں بھی سننی پڑیں۔
واں رادھارام میں ہی بھائی رمضان چونکہ جوانی کی دہلیز پر پہنچ چکے تھے۔ اس
لیے اس دور میں نوجوان خود کو مضبوط اور توانا بنانے کے لے کشتی اور کبڈی
کے مقابلوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ شہر سے باہر کھیتوں میں باقاعدہ اکھاڑے
بنائے جاتے جہاں نوجوان اپنے جسم پر سرسوں کا تیل لگا کر ڈنڈ بیٹھکیں لگا
کر شام ڈھلے اپنے گھروں کو لوٹ آتے ان دنوں جو لوگ فارغ ہوتے وہ اکھاڑوں
میں جا کر نوجوانوں کی ورزش دیکھا کرتے تھے ۔
والد صاحب کی خواہش تھی کہ مجھ سمیت بھائی رمضان اور بھائی اکرم بھی جسمانی
طور پر اس قدر مضبوط ہو جائیں کہ واں رادھارام میں طاقت اور پھرتی کے
اعتبار سے ہمارا کوئی ثانی نہ ہو۔ چنانچہ والد صاحب کی اسی خواہش کے پیش
نظر بھائی رمضان ہر صبح ریلوے کوارٹروں کے پیچھے کھیتوں میں روزانہ اپنے
جسم پر تیل لگاکر ڈنڈبیٹھکیں نکالتے۔ کبھی کبھار میل دومیل کی دوڑ بھی لگا
آتے۔
ان دنوں دوسرے شہروں کی کبڈی اور کشتی کی ٹیمیں واں رادھارام آیا کرتی تھیں
جن کا مقابلہ مقامی ٹیم سے ہوتا۔ ایسے مقابلوں کو دیکھنے کے لیے شہر کے
تمام لوگ ذوق شوق سے پہنچ جاتے اور اگر شہر کی ٹیم جیت جاتی تو کھلاڑیوں کو
کاندھوں پر بٹھا کر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے سارے شہر کا چکر لگاتے اور
اگر مخالف ٹیم جیت جاتی تو تمام لوگوں کے چہرے لٹک جاتے اور ہار کا باعث
بننے والے کھلاڑیوں پر تنقید ہونے لگتی۔ ویسے تیاری کے لیے بھی باہمی
مقابلے جاری رہتے۔ بھائی رمضان کبڈی کا ماہر کھلاڑی تصور کئے جاتے تھے۔ وہ
جب کبڈی ڈالنے جاتے تو مضبوط سے مضبوط جاپھی انہیں نہ پکڑ سکتا اور جو
پکڑنے کے لیے آگے بڑھتا۔ بھائی رمضان دونوں ہاتھوں سے اس کی اتنی پٹائی
کرتے کہ مخالف کھلاڑی ہار مان جاتا۔ جب بھائی کو اپنے حصے میں مخالف کھلاڑی
کو پکڑنے کی ذمہ داری سونپی جاتی تو بہت کم مرتبہ کھلاڑی واپس جانے میں
کامیاب ہوتا۔ وگرنہ بھائی اپنی دونوں ٹانگوں میں اسے اس قدر طاقت سے جکڑ
لیتے کہ رینگ کر نکلنے کی کوشش بے سود ہو جاتی۔ ایک مرتبہ یونہی کبڈی کا
میچ تھا۔ کم سنی کے باوجود میں بھی کبڈی کے میدان میں اتر گیا۔ چاروں طرف
لوگ کبڈی کا میچ دیکھنے کے لئے جمع تھے۔ ان میں میرے والد بھی شامل تھے۔
جبکہ بھائی رمضان ہماری ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ مخالف ٹیم کا کھلاڑی جو
ایک آنکھ سے کانا تھا کبڈی ڈالنے کے لیے آیا۔ باقی لڑکوں سیمیں چونکہ کمزور
اور کمسن تھا اس لیے اس نے مجھے ہی ہاتھ لگایا۔ ہاتھ لگنے کے بعد اب میری
ذمہ داری تھی کہ میں اسے اپنی مضبوط گرفت میں قابو کر لوں۔ میں پکڑنے کے
لیے جونہی قریب گیا اس نے اوپر نیچے دو تین زناٹے دار تھپیڑ مجھے رسید کر
دیئے۔ یہ تھپیڑ اتنے زوردار تھے کہ میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں
رونے لگا۔ سارے شہر کے سامنے میرا رونا والدصاحب کو اچھا نہ لگا انہوں نے
بازو سے پکڑ کر مجھے ٹیم سے باہر نکال لیا اور ڈانٹنے کے اندازمیں کہا ‘
رونا تھا تو کھیلے کیوں تھے چونکہ میں اپنی اس حرکت کو بہت بڑا جرم تصور کر
رہاتھا اس لیے چہرہ جھکا کر دیر تک روتا رہااور گھر واپس آکر ماں کو ساری
داستان سنائی جس کی محبت نے مجھے دلاسہ دیا۔
میچ دوبارہ شروع ہو گیا۔ بھائی رمضان نے میری پٹائی کا بدلا لینے کا مصم
ارادہ کر لیا اور اس ارادے کی تکمیل کے لیے وہ سب سے پہلے مخالف سمت کبڈی
ڈالنے کے لیے گیا اور دانستہ اس نوجوان کو ہاتھ لگایا جس نے کچھ وقت پہلے
میری پٹائی کی تھی۔ جب وہ نوجوان پکڑنے کے لیے آگے بڑھا تو بھائی رمضان نے
اس کی اس قدرپٹائی شروع کردی کہ وہاں کھڑے ہوئے لوگ یہ کہہ کر درمیان میں
کود پڑے کہ رمضان اپنے بھائی کا بدلہ لے رہا ہے۔ اس لمحے مجھے اپنے بھائی
پر بے حد فخر محسوس ہو رہا تھا۔ اس دن مجھے اپنا بڑا بھائی ( محمد رمضان
خان لودھی )"ایک سائبان تھا مہربان سا " لگا۔
پھر جب والد صاحب کا تبادلہ واں رادھارام سے 1964ء میں لاہور کینٹ ہو گیا
تو بھائی رمضان نے سروس شوز فیکٹری میں 25روپے ماہوار پر ملازمت کرلی ۔
سردیوں کی رات دس بجے جب وہ تنخواہ لے کرتاج کمپنی کی مسجد کے پاس (جہاں آج
کل ڈان کا دفتر ہے) پہنچے۔ وہاں دو لیٹروں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اچانک
حملے سے گھبرا کر جب بھائی بھاگنے لگا تو جسم پر لپٹی ہوئی گرم چادر اتر کر
لیٹروں کے پاس رہ گئی اور بھائی رمضان ہانکتا کانپتا دوڑتا ہوا گھر پہنچا۔
جب بھائی نے رات گیارہ بجے دروازے پر دستک دی تو بچوں کے لیے اپنا سکھ چین
قربان کرنے والی ماں نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا میرا شیر آ گیا ۔ بھائی
رمضان نے جواباً کہا‘ ہاں آپ کا شیر اغوا کرنے والوں سے بچ کر آ گیا ہے۔
بھائی چونکہ سردی سے کانپ رہا تھا اس لیے ماں نے گرم چادر کے بارے میں
پوچھا بھائی نے بتایا کہ گرم چادر لیٹروں کے پاس ہی رہ گئی ہے جو گتھم گھتا
ہوتے وقت اتر گئی تھی۔ یہ واقعہ ماں کو شدید مضطرب کر گیا اور وہ خدا کا
شکر ادا کر کے والد صاحب کی واپسی کا انتظار کرنے لگی جنہوں نے رات کے بارہ
بجے ڈیوٹی سے واپس آنا تھا۔ ماں کو یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں وہ اچکے پیچھا
کرتے ہوئے گھر تک ہی نہ پہنچ جائیں ۔
خوف کے سائے میں وقت چونٹی کی چال چل رہا تھا اور تھوڑی سی آہٹ بھی ماں کو
پریشان کر جاتی۔ خدا خدا کرکے بارہ بجے اور والد صاحب نے دروازے پر دستک دی
جب یقین ہو گیا کہ دستک دینے والے والد صاحب ہی ہیں تو دروازہ کھول دیا
گیا۔ گھر کا آسیب زدہ ماحول والدصاحب کے لیے بھی پریشان کن تھا۔ انہوں نے
اس کی وجہ پوچھی تو ماں نے سارا واقعہ سنا دیا۔ خدا جنت نصیب کرے میرے والد
صاحب کو۔ وہ بہت نڈر اور حوصلہ مند بہادر انسان تھے۔ خوف تو ان سے چھو کر
بھی نہیں گزرا تھا۔ وہ اسی لمحے بھائی رمضان کو اپنے ساتھ لے کر اس مقام پر
پہنچے جہاں لیٹروں نے ان پر حملہ کیا تھا۔ بیٹری کی روشنی میں ہر طرف دیکھا
وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ اطمینان کر کے والد صاحب گھر واپس پہنچے اور اگلی
صبح پھر وہاں پہنچے بہت دنوں تک وہ اس جستجو میں رہے کہ جس نے بھائی رمضان
کی گرم چادر اوڑھی ہو گی وہی رات والے واقعے کا ذمہ دار ہو گا۔ کچھ عرصہ تک
اس واقعے کی سنگینی ذہنوں میں تازہ رہی پھر رفتہ رفتہ ذہنوں سے محو ہو گئی۔
پھر والد صاحب کی کوششوں سے بھائی رمضان کو ریلوے شیڈ میں ہیپلر کی حیثیت
سے ملازمت مل گئی اور بھائی صبح شیڈ جاتا اور شام ہونے سے پہلے پہلے گھر
لوٹ آتا۔ بھائی نے آمدنی میں اضافے کے لئے ریڈیو ٹھیک کرنے کا فن بھی سیکھ
لیا تھا۔ اس زمانے میں ریڈیو میکنک چیدہ چیدہ ہوا کرتے تھے جبکہ ریڈیو ہر
گھر میں موجود ہوتا۔ اس لیے دور دور سے لوگ اپنا ریڈیو ٹھیک کروانے کے لیے
بھائی رمضان کے پاس آتے۔ کسی کی ڈوری ٹوٹ جاتی۔ کسی پر آل انڈیا ریڈیو (جو
ان دنوں بہت شوق سے سنا جاتا تھا) نہ آتا۔ لاہور نمبر دو پر اکثر گانے نشر
ہوا کرتے تھے۔ اس لیے اگر وہ بھی نہ آتا تو سننے والوں کو تشویش ہوتی کچھ
شوقین لوگ بی بی سی اور ریڈیو سیلون سننے کے بھی عادی تھے۔ بھائی کاویئے سے
کبھی ٹانکے لگاتے۔ کبھی میٹر کی تاروں سے نقص تلاش کرتے اور کبھی بٹن کے
ساتھ گھومنے والی ڈوری نئی تبدیل کر دیتے۔ قسم قسم کے ریڈیو جب گھر میں آتے
تو میں انہیں شوق سے دیکھتا۔ ان دنوں ہمارے گھر میں صرف ایک بینڈ کا ریڈیو
تھا جس پر صرف ریڈیو پاکستان اور آل انڈیا ہی سنا جا سکتا تھا جب لوگ بی بی
سی اور ریڈیو سیلون کا ذکر کرتے تو ہم احساس کمتری کا شکار ہو جاتے اور دل
میں عہد کرتے کہ جیسے ہی والد صاحب کی تنخواہ (جو 80 روپے تھی) میں اضافہ
ہوگا۔ ہم بھی تین بینڈکا ریڈیو خریدیں گے ۔چونکہ بھائی رمضان ننھیال کے
زیادہ قریب تھے۔ نانی نانا‘ ماموں اور تمام خالائیں بھائی رمضان کو بہت
پیار کرتے تھے۔ اس لیے جب گھروالوں نے محسوس کیا کہ اب ان کی شادی ہو جانی
چاہیے تو نانی جان نے میری والدہ کو مجبور کیا کہ وہ اپنی چھوٹی بہن اقبال
جسے ہم سب ماسی بالو کے لقب سے پکارتے تھے کی بیٹی ’’ارشاد‘‘ کو اپنے بیٹے
رمضان کے لیے مانگ لے۔
میری والدہ چونکہ اپنی ماں کی بہت عزت کرتی تھی۔ ویسے بھی پرانے زمانوں میں
رشتے خاندان کے اندر ہی کرنے کا رواج تھا۔ ماں نے اپنے بیٹے رمضان کے لیے
بہن کی بیٹی ارشاد کا رشتہ قبول کر لیا اور خوشی میں باقاعدہ لڈو بھی تقسیم
کیے گئے۔ نکاح تو بھائی اکرم کا بھی ایک ساتھ ہی ہوا تھا لیکن بھابی ارشاد
کی رخصتی دو تین سال بعد ہوئی۔ پھرجونہی ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آیا
تو بھائی رمضان نے محلے کی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس وقت چونکہ
ہر طرف پیپلزپارٹی کا ہی زور تھا اس لیے غریب عوام کا زیادہ تر حصہ بھٹو کا
حامی بن گیا۔ اس سے پہلے چونکہ ملک پر یکے بعد دیگرے دو مارشل لاؤں کا دور
عوام دیکھ چکی تھی۔ اس کے برعکس بھٹو کا نعرہ روٹی‘ کپڑا‘ مکان عوام الناس
کے دلوں میں گھر کر گیا۔ سندھ اور پنجاب کی اکثریت بھٹو کی زبردست حامی
تھی۔ انہی وجوہات کی بنا پر بھائی رمضان بھی عملی سیاست میں اتر گئے۔ شورہ
کوٹھی سے صوفی رفیق‘ آبادی قربان لائن کے وسیم خان اور گنگا آئس فیکٹری کے
چند قابل ذکر افراد(جن میں بھولا ڈپو والا ) بھی شامل تھا۔ بھائی رمضان کے
رفقا میں شامل تھے۔ وہ ملازمت سے واپس آتے اور کھانا کھا کراپنے سیاسی رفقا
کے پاس چلے جاتے اور رات گئے تک ان کی سیاسی میٹنگیں جاری رہتیں۔
بھائی رمضان والی بال کے بھی اچھے کھلاڑی تھے۔ قربان لائن کی گراؤنڈ میں وہ
اکثر والی بال کھیلنے جایا کرتے تھے۔ بھائی رمضان والی بال کے ساتھ کرکٹ
کھیلنا بھی خوب آتا تھا۔ گھسی بال کو سویپ کرنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔
باولر جونہی انہیں گیند کرواتا وہ بایاں گھٹنا زمین پر ٹیک کر دائیں ہاتھ
سے زمین پررینگنے والی گیند کو بلے کے ذریعے ایسے گھماتے کہ گیند باؤنڈی
لائن سے باہر جا کر رکتی اور فیلڈر دیکھتے ہی رہ جاتے۔ اس طرح بھائی رمضان
نے ون مون ٹن سٹار کرکٹ کلب کو کئی میچ جتوائے۔ اگر گھر میں دادا موجود
ہوتے تو وہ بھائی رمضان سے حضرت یوسف علیہ السلام کی کتاب سنانے کی فرمائش
کرتے۔ رات کو سونے سے پہلے ان کا یہ معمول تھا۔ جب انہیں ریلوے کی جانب سے
کوارٹر مل گیاتو وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ منتقل ہوگئے ۔
جب بھی میں ان کے گھر جاتا تو وہ میری آمد پر اس قدر خوش ہوتے کہ اس کا ذکر
الفاظ میں نہیں کیاجاسکتا۔ فوراً تھیلا ہاتھ میں پکڑے بازار کو چل پڑتے
وہاں سے گائے کا بہترین گوشت اور پھل لے کر گھر واپس لوٹتے اپنی بیگم کو
حکم دیتے کہ میرے بھائی آیا ہے ۔ ان کو کھانا کھلا کر بھیجنا ۔پہلے بھائی
ریل کار شیڈ میں کا حصہ ہوا کرتے تھے ‘ کچھ عرصے بعد وہ ٹربل شوٹر کی حیثیت
ریل کار کے ساتھ جانے لگے ‘ کئی ایک مرتبہ میں نے بھی ان کے ساتھ سفر کیا
تو بہت مزا آیا ۔ کچھ عرصے بعد انہیں گراؤنڈ کردیاگیا ۔ان کا آفس ریل کا
ایک ڈبہ ہوا کرتے تھاجو پتہ نہیں کب سے ایک ہی جگہ کھڑا ہوا تھا ۔ اس ڈبے
کے سامنے ایک شیشم کادرخت تھا جس کے نیچے بیٹھ کر بھائی رمضان ماہر مستری
کی طرح ریل کار کے مختلف حصوں کی مرمت کیا کرتے تھے ‘الحمد اﷲ میں چونکہ اس
وقت بھی اخبارات میں کالم لکھتا تھا اس لیے جب بھی میں ورکشاپ جاتا تو وہ
بڑے فخر سے اپنے ساتھیوں سے میرا تعارف کروایا کرتے تھے ۔جوں جوں وقت گزرتا
چلا گیاان کی صحت خراب رہنے لگی۔ گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے وہ بہت کمزور
دکھائی دینے لگے۔ شاید انہیں ٹی بی کا مرض لاحق ہو چکا تھا۔ اپنے طور پر
علاج تو بہت کروایا لیکن موت کو کون ٹال سکتا ہے۔
27دسمبر1995ء کی منحوس شام وہ ہم سے جدا ہوکر اس دنیا میں جاپہنچے جہاں سے
کوئی واپس نہیں آتا۔ ان کے پسماندگان میں بیوی ( ارشاد بیگم )‘ دو بیٹے
محمد اعجاز حیدر اور محمد عمران لودھی جبکہ ایک بیٹی ثمینہ رمضان شامل
تھی۔انہیں سنی ویو فلور ملز گلبرگ قبرستان میں دفن کردیاگیا۔یوں وہ کہانی
اپنے انجام کو پہنچی جو اگست 1947 سے شروع ہوئی تھی۔
بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب جانے والے ہیں
************** |