آپ آج آفس میں سب خیریت تو ہے؟ میرا مطلب ہے اجمل کی
اسٹڈی کیسی چل رہی ہے؟ داریناسکے آفس آنے پرحیران تھا۔
اگر مجبوری نہ ہوتی دارین صاحب تو میں یہاں کبھی نہیں آتی۔ اصل میں اجمل کی
پڑھائی کے سلسلے میں ہی آئ ہوں۔ میں نے تو ابیشہ بی بی کو کئ کالز کیں لیکن
انھوں نے فون ہی نہیں اٹھایا اور آپکا نمبر تو جی ڈیلیٹ ہی کردیا تھا میں
نے۔ تو آفس آنا پڑا آپکو برا لگا ہے صاحب؟ وہ اپنی ٹون میں
بولے جا رہی تھی۔
نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ آپبتائیں کیا مجبوری تھی؟؟ دارین جلد از جلد
اسے نمٹانا چاہتا تھا۔
یہ لیٹر آیا ہے اجمل کے اسکول سے۔ سدرہ نے ہاتھ میں پکڑا لیٹر اسے تھمایا۔
دراصل 5 مہینے سے آپ نے پیسے نہیں بھیجے۔ دو مہینے تو میں نے جو پیسے بچا
کر رکھے تھے اس سے فیس دے دی۔ لیکن 3 مہینے سے بچت ہی نہیں ہوئ۔اب یہ آخری
لیٹر ہے جو اسکول سے آیا ہے اگر ابھی بھی فیس نہیں دی تو امتحان میں نہیں
بیٹھنے دیں گے اجمل کو۔میں تو جی بس نکالنا چاہتی ہوں اب اس اسکول سےکسی
گورنمنٹ اسکول میں داخل کروا دوںگی پر اماں ابا نے بولا ایک بار آپ سے پوچھ
لوں۔ وہ شرمندگی سے بتا رہی تھی اور چلو بھر پانی میں ڈوبنے کا دل دارین کا
چاہ رہا تھا۔ ایک بچے کی معمولی سی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں تھا وہ اور
سجدوں میں رو رو کر اپنے لئے اولاد کی دعائیں کرتا تھا۔
اس نے لیٹر ہاتھ میں لیکر ایک سرسری سی نظر ڈالی۔ آپ نے اچھا کیا جو آپ
یہاں آگئیں۔ اسکول بدلوانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں نے آپ سے پہلے بھی
کہا تھا اجمل اسی اسکول میں پڑھے گا۔ میں آج ہی پیسے ٹرانسفر کردیتا ہوں۔
دیکھیں دارین صاحب اگر کوئی مسئلہ ہے تو آپ اجمل کی پڑھائی کی فکر رہنے دیں
میرا مطلب ہے اگر ابیشہ بی بی کو اعتراض ہے تو۔۔۔۔ سدرہ نے دل کی بات بل
آخر بول ہی دی۔ وہ ابیشہ کے روئیے پر بہت دکھی تھی۔ ابیشہ نے اتنے عرصے میں
ایک دفعہ بھی اس سے ٹھیک طرح بات نہیں کی تھی ہاںہر مرتبہ وہ اسے دارین سے
دور رہنے کی تنبیہہ کرنا نہیں بھولتی تھی۔ لیکن پچھلے 5 ماہ سے وہ اسکی
کالز ہی ریسیو نہیں کر رہی تھی۔
میں نے آپ سے کہا نا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔آج کے بعد آپکو یہاں آنے کی ضرورت
نہیں پڑے گی۔اس نے سدرہ کی بات کاٹتے ہوئے بولااور لیٹر اسکی طرف بڑھایا۔
سدرہ نے لیٹر ہاتھ میں لیا ہی تھا جب ابیشہ کی زور دار آواز اسکے کانوں سے
ٹکرائ۔
دارین۔۔۔۔۔۔
سدرہ نے مڑ کر دیکھا وہ دروازہ کھول کر سامنے ہی کھڑی تھی اپنی خونخوار
نظریں سدرہ پر جمائے وہ گھبرا کر کھڑی ہوگئ۔ البتہدارین کے لئے اسکی آمد
غیر متوقع نہیں تھی وہ اسی اطمینان نے اپنی نشست پر براجمان تھا۔
یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟؟؟ اس نے غصے سے پوچھا۔اور دارین نے اسی اطمینان سے
جواب دیا۔
یہ تو تم بتاو۔ تم نے 5 مہینے سے فیس کے پیسے نہیں بھیجے اوپر سے تم انکی
کال بھی ریسیو نہیں کر رہیں۔
دارین ہم نے ان لوگوں کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا۔ بلکہ کسی کا بھی نہیں لیا تم
ہر چیز کو اپنے سر پر کیوں سوار کر لیتے ہو۔ جتنا کیا ہے اتنا بہت ہے ان
لوگوں کے لئے۔ اتنا بھی سر پر چڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بولے جا رہی تھی
یہ سوچے بغیر کے اسکے الفاظ سدرہ کے دل کو چھلنی کر رہے تھے۔
بہت ہوگیا ابیشہ تم اب حد سے بڑھ رہی ہو۔ دارین کا صبر جواب دے چکا تھا۔وہ
کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔
حد سے تو یہ بڑھی ہے۔ابیشہ نے سدرہ کی طرف اشارہ کیا۔ جو ابھی بھی بے یقینی
کی کیفیت میں تھی۔
اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی؟ ہم نے پیسے ادھار لئے تھے کیا
تمہارے شوہر سے جو اس طرح دندناتی ہوئی مانگنے آجاتی ہو۔وہ سدرہ کے قریب جا
چکی تھی۔
سدرہ گھبرا کر پیچھے ہٹی۔ دارین کو ماحول کی سنگینی کا اندازہ ہو چکا تھا۔
باہر اچھا خاصا اسٹاف جمع تھا۔ اس نے ابیشہ کو پیچھے دھکا دیا۔
کیوں تماشا کر رہی ہو ابیشہ ایسا کچھ نہیں ہے جو تم سمجھ رہی ہو ۔
میں بالکل ٹھیک سمجھ رہی ہوں دارین اگر ہماری اولاد نہیں ہے تو کیا تم ایسی
عورتوں سے تعلق رکھو گے۔
ابیشہ۔۔۔۔۔۔۔ غم و غصے میں دارین کا ہاتھ اٹھ چکا تھا۔
دارین تم نے مجھے تھپڑ مارا اس عورت کے لئے ۔
اس عورت کے لئے نہیں تمہارے اس پاگل پن کے لئے جسے میں سالوں سے برداشت کر
رہا ہوں۔اور اگر ہماریکوئی اولاد نہیں ہے تو اسکی وجہ بھی تمہارا یہی پاگل
پن ہے۔وہ شدید طیش میں آچکا تھا۔
نہیں دارین نہیں اب تم مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔ پہلے مجھےصرف شک تھا اور
اسی لئے میں اسے پیسے نہیں بھیج رہی تھی تاکے تمہارا ری ایکشن دیکھ سکوں۔
اور اب یقین ہے مجھے جس پابندی سے تم اجمل کی ذمے داری اٹھا رہے ہو تمہارا
تو کوئی گہرا تعلق ہے اسکے ساتھ ۔
ابیشہ۔۔۔۔ دارین غصے سے چلایااتنا تو سوچو اگر ہماری اپنی اولاد ہوتی تو
کیا ہم اسکی ذمے داری اٹھانے میں کوئی کسر چھوڑتے۔
یہی تو میں کہہ رہی ہوں دارین اتنی ذمےداری کوئی صرف اپنی اولاد کی اٹھاتا
ہے غیروں کی نہیں۔ابیشہ ہار ماننے کے لئے تیار نہیں تھی۔اسسے پہلے دارین
کچھ بولتا سدرہ جو اس سارے معاملے میں خاموش تماشائی بنی تھی بول اٹھی۔
بس کردیں ابیشہ بی بی۔ خدا کے لئے چپ ہو جائیں آج کے بعد میں اور اجمل
دارین صاحب سے کوئی واسطہ نہیں رکھیں گے۔ وہ ہاتھ جوڑ کر بولی۔
نہیں سدرہ آپ کے بیٹے کی ذمےداری لی ہے میں نے۔آپ سے واسطہ ختم نہیں کرسکتا
لیکن اس عورت سے اب میں کوئی واسطہ نہیں رکھ سکتا۔دارین نے ابیشہ کو دیکھ
کر بولا۔
اس عورت کی وجہ سے تم مجھ سے واسطہ ختم کردوگے دارین۔ابیشہ نے بے یقینی سے
پوچھا۔
ہاں۔ وہ اپنے فیصلے پر قائم تھا۔
ٹھیک ہے دارین تمہیں جو کرنا ہے کرو میں بھی ایک ایک کو بتاونگی کے تم کیا
ہو اور تم سدرہ اس غلط فہمی میں مت رہنا کے میرا گھر برباد کرکے خوش رہ لو
گی۔ ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مروگی تم۔ خدا بھی تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔
ابیشہ غصے سے روتی ہوئ وہاں سے نکل گئ۔ باہر بھیڑ بڑھ چکی تھی۔
پلیز دارین صاحب میری وجہ سے آپ ایسا کوئی فیصلہ مت کیجئے گا۔ سدرہ نے منت
کی۔
آپ کے لئے جو فیصلہ میں نے کیا تھا وہ میں آپکو بتا چکا ہوں۔ یہ فیصلہ میں
نے اپنے لئے کیا ہے۔ اس نے ہارے ہوئے لہجے میں جواب دیا اور آفس سے چلا
گیا۔
سدرہ مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو مجرم سمجھ رہی تھی۔ یہ میں نے کیا
کردیا۔ کاش میں یہاں نہ آتی۔ وہ ندامت اور پشیمانی کے احساس میں گھری ہوئ
تھی ابیشہ اور دارین جا چکے تھے۔ اب یہ پل صراط اسے ہی پار کرنا تھا وہ
روتے ہوئے تیزی سے وہاں سے چلی گئ۔ بھیڑ میں اٹھنے والی سب نظریں اسی کے
تعاقب میں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی آئندہ
|