حکمران اور عوام

عدل وانصاف حکمرانی کا سب سے بنیادی تقاضہ ہے۔حکمرانی عدل وانصاف کے مطابق کی جائے توبہت بڑے اعزاز،سعادت اورخوش نصیبی کی بات ہے۔اﷲ عزوجل نے انسان کوزمین پراپنا خلیفہ قراردیا ہے۔ کہا گیا کہ اگرکسی کوحکومت عطاء کی جائے تواُسے چاہیے اﷲ کے ہرامرکی اطاعت کرے۔حکمرانی اگرعدل وانصاف سے کی جائے تویہ عظیم کام اورزمین پراﷲ تعالیٰ کے خلیفہ کی نشانی اوراﷲ کے قرب کاذریعہ ہے۔ رسول پاک ﷺ کے ارشادکامفہوم ہے،حاکم کا ایک دن کا عدل کرناساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے۔جن سات آدمیوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ عرش کے سائے میں ہوں گے توان میں پہلاعادل حکمران ہوگا۔

اسلام اجتماعی زندگی چاہتا ہے اورفطرت کا تقاضہ بھی یہی ہے۔جس کے لئے لازم ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے،جس میں تمام انسان بغیرکسی امتیازاورفرق کے امن وچین سے زندگی بسرکرسکیں اورجس میں ہرفردکواپنی ذمہ داری کا احساس ہو۔اس اجتماعی زندگی میں حکمران کا کردار ذمہ دار ، نگران،نگہبان اورمحافظ کاہے۔خلق خدا کی ذمہ داری اتنی سہل نہیں،جوشخص اس ذمہ داری کا حق اداکرنے کی توفیق پاتا ہے،تو یہ ایسی سعادت ہے کہ اس سے بڑھ کردوسری کوئی اور سعادت نہیں۔حکمران کوچاہیے کہ سادگی اپنائے،ہروقت اپنی غیر ضروری خواہشات کی تکمیل میں مصروف نہ رہے،بلکہ حاجت مندوں کی حاجت روائی اوران کی مشکلات کم کرنے کی سعی کرے،یہاں تک کہا گیا ہے کہ جب تک حاجت مند تیرے پاس موجود ہیں ،نفل عبادت میں مشغول نہ ہو،کیونکہ کسی کی حاجت روائی تمام نفلوں سے بڑھ کرہے۔حکمران کوتکبرسے بازرہنے کا کہا گیا ہے کیونکہ تکبرسے غصہ پیدا ہوتا ہے ،غصہ انسان کوعقل سے محروم کردیتا ہے اورغصے میں انتقام لینے کی خواہش جنم لیتی ہے اورانتقام کی صورت میں عدل وانصاف قائم نہیں رہتا۔

حکمران کو اعتدال،نرمی،سادگی اورقناعت اختیارکرنے کاکہاگیا ہے،کہ قناعت کرنے والا ہی عدل کرسکتا ہے۔ سرکاردوعالم ﷺکا ارشاد گرامی ہے (مفہوم)کہ اپنے نفقے میں اعتدال برتناآدھی معیشت ہے۔رسول نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا(مفہوم)کہ جس نے میانہ روی اختیارکی وہ کبھی محتاج نہیں ہوگا۔سرکاردوعالم ﷺ نے قناعت کومعیشت کی آدھی روح قراردیا۔میانہ روی کی یہاں تک تاکید کی گئی کہ خداکی راہ میں خرچ کرنے میں بھی اس کا پورا لحاظ رکھا جائے۔حکمران کو کسی قسم کا لالچ ،خوشامندپسندگی،دغابازی ،خیانت،آرام طلبی اورعیش سے منع فرمایاگیا۔حضرت معاذبن جبل ؓسے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ان کوجب یمن روانہ کیا تونصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا(مفہوم):"معاذ!آرام طلبی اورعیش کوشی سے بچے رہنا۔اﷲ کے خاص بندے آرام طلب اورعیش کوش نہیں ہوا کرتے۔

اسی طرح رعایا کے ساتھ سختی اورظلم روارکھنے سے منع فرمایا گیا، نہ صرف یہ کہ حکمران خود ظلم اورسختی روا نہ رکھے بلکہ اپنے ماتحتوں (وزیروں مشیروں) کوبھی ظلم کرنے سے دوررکھے کیونکہ ان کے مظالم کا بھی روز قیامت وہی ذمہ داراورجوابدہ ہوگا۔ حضور ﷺ کے ارشاد پاک کامفہوم ہے ،جوحاکم رعیت کے ساتھ نرمی کرے گااﷲ تعالیٰ قیامت میں اس کے ساتھ نرمی کریں گے اورآپ ﷺ نے دعابھی فرمائی کہ اے اﷲ جوحاکم وقت رعیت کے ساتھ نرمی کرے توقیامت کے دن توبھی اس کے ساتھ نرمی فرمااورجوسختی کرے توبھی اس کے ساتھ سختی فرما۔

اجتماعیت اورامن وامان کے معاشرے کے قیام اوربرقراررہنے کے لئے حکمرانوں کی طرح عوام الناس کے لئے بھی ہدایات دی گئی ہیں۔معاشرے میں امن وسکون اوراستحکام برقراررکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔حکمرانوں کو برابھلاکہنے ،فساداورانتشارپھیلانے سے منع کیا گیا۔ہرحال میں حکمران کی اطاعت کی تعلیم دی گئی ہے۔قرآن مجیدمیں ارشاد باری تعالیٰ کامفہوم ہے، "اے لوگو!جوایمان لائے ہو،اطاعت کرواﷲ کی اوراطاعت کرورسول اﷲ ﷺ کی اوران لوگوں کی جوتم میں سے صاحب امرہوں"۔ہم عوام سمجھتے ہیں،ساری ذمہ داری صرف حکمرانوں کی ہے۔ہمارے صرف حقوق ہی حقوق ہیں،جبکہ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں،حالانکہ معاشرہ اجتماعیت کا نام ہے،جب ہراکائی اپنی جگہ ٹھیک ہوگی تب ہی معاشرہ میں امن اوراستحکام ہوگا۔اس لئے اسلامی معاشرہ میں ہرایک کوذمہ دارقراردیا گیا ہے۔ رسول نبی کریم ﷺ کے ارشادکامفہوم ہے،تم میں سے ہرشخص ذمہ دارہے اوراس سے اس کے ماتحت لوگوں اوررعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔امیراورخلیفہ ذمہ دار ہیں،اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپرس ہوگی۔مرداپنے اہل خانہ کاذمہ دارہے اوراس سے اس کی رعیت کے سلسلے میں بازپرس ہوگی۔عورت اپنے شوہرکے گھرکی نگران ہے اوراس سے اس کے متعلق بازپرس ہوگی۔خادم اپنے آقاکے سامان کاذمے دارہے اس سے اپنے کام کے متعلق بازپرس ہوگی۔پس ہرشخص ذمہ دارہے اوراس سے اس کے ماتحت افراد اوررعایاکے بارے میں بازپرس ہوگی۔
 

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92410 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.