شہریت ترمیمی بل کے تعلق سے یہاں تک کہا جارہا ہے کہ اس
کے ذریعہ سارے ہندوستان کے مسلمانوں کی شہریت سے محروم کردیا جائے گا ۔
ویسے ہونے کو توآئین ہی منسوخ ہوسکتا ہے تو پھر دستور میں ترمیم وغیرہ کا
تکلف کیوں کیا جائے؟ یہ ایک مبالغہ آرائی ہے لیکن بنگلا دیش سے متصل مغربی
بنگال اور آسام وغیرہ میں اس کے سبب بنگالی زبان بولنے والے مسلمانوں کو
پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے اور ہندو اس ترمیم کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس
سلسلے کی ابتداء آسام معاہدے سے ہوئی ۔ اس کے بعد این آر سی تیار کیا گیا
جس سے چالیس لاکھ لوگوں کی شہریت خطرے میں پڑ گئی ۔ ان لوگوں کو پھر سے
موقع دیا گیا تو 19 لاکھ پھر بھی اپنے آپ کو ہندوستانی شہری ثابت کرنے میں
ناکام رہے ۔ یہ سب کے سب اگر مسلمان ہوتے تو شہریت کے قانون میں کسی ترمیم
کی ضرورت پیش نہیں آتی لیکن اتفاق سے ایسا ہوا کہ ان میں سے 13 ہندو نکل
آئے ۔ بی جے پی کے لیے ان کو بنگلا دیش یا عقوبت خانے میں بھیجنا مشکل تھا
اس لیے اس آئین میں ترمیم کرنی پڑی تاکہ صرف مسلمانوں کو پریشان کیا جائے
اور ہندووں کو اس سے محفوظ کرلیا جائے ۔
شہریت کے قانون میں چونکہ صوبائی حکومت ترمیم نہیں کرسکتی اس لیے مرکزی
حکومت کو یہ زحمت کرنی پڑی اور یہی وجہ ہے یہ سارے ہندوستان کے لیے ایک غیر
ضروری قانون بن گیا۔ بی جے پی نے بڑی صفائی سے اس میں پاکستان اور
افغانستان کو شامل کرکے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی مذموم کوشش کی لیکن عملاً
اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ شمال مشرقی علاقہ جو سب
سے زیادہ متاثر ہے وہیں ہندو مسلم سب اس کے مخالف ہیں ۔ قبائلی علاقوں کو
تو اس سے استثناء قرار دے دیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان علاقوں میں
رہنے والے ہندو ہوں یا مسلمان اس ترمیم سے استفادہ نہیں کرسکیں گے ۔یہ
استثناء دفع ۳۷۰ کے تعلق سے بی جے پی کا دعویٰ کہ ایک ملک میں ایک قانون
نافذ ہونا چاہیے ازخود کھوکھلا ثابت کرتا ہے۔ ایوان پارلیمان میں منظور
ہونے والے قانون سے اگر شمال مشرقی ہند کی کئی ریاستیں استثناء حاصل کرسکتی
ہیں تو جموں کشمیر کیوں نہیں؟
اس ترمیمی بل میں ناگالینڈ وغیرہ کی مخالفت کے بعد قبول کی جانے والی ترمیم
نے یہ بات بھی ثابت کردی کہ جو بی جے پی سارے ہندوستان کو اکھنڈ بھارت
بناکر اسے ہندو راشٹر بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے اس کو ناگالینڈ، منی پور
اور اروناچل پردیش جیسی ننھی منی ریاستوں کے آگے بھی جھکنے پر مجبور ہونا
پڑتا ہے۔ خیر اس کی سب سے زیادہ مخالفت فی الحال آسام میں ہورہی ۔ این ڈی
اے میں شامل اے جی پی بھی اس کی مخالفت میں احتجاج کررہی ہے۔ اس طرح اگر
آسام میں شہریت ترمیم بل اے جی پی ، یوڈی ایف اور کانگریس کو متحد کردے تو
مہاراشٹر کی طرح بی جے پی اکیلی پڑ کر اقتدار سے محروم ہو سکتی ہے۔ یہ حسن
اتفاق ہے کہ جس آسام پر اقتدار مستحکم کرنے کے لیے یہ ساری مشقت کی جارہی
ہے وہی بی جے پی کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ آسام کے اندر اقتدار کی تبدیلی
کے بعد بہت سارے اندیشے اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔
یہ قانون دوسری مرتبہ ایوانِ زیریں میں پیش ہوا۔ پہلی مرتبہ جب فروری
2019میں آیا تھا تو اس وقت شیوسینا این ڈی اے میں شامل تھی اور اس نے کھل
کراس کے حق میں ووٹ دیا تھا ۔ اس بار شیوسینا نے اقتدار کی خاطر این ڈی اے
کو خیر باد کہہ دیا ہے ۔ اس بات کا امکان تھا کہ یہ ترمیم مہاراشٹر کے اندر
الحاق میں شامل مختلف جماعتوں میں نزاع کا سبب بنے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
شیوسینا نےپہلے تو دھرم سنکٹ میں مبتلا ہوکراس کو قومی مفاد کے خلاف قرار
دیا اور پھر کہہ دیا کہ کوئی قانون بھومی پتروں( بنیادی شہریوں) کے خلاف
نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ۲۵ سال تک ان شہریوں کو ووٹ کے حق سے محروم
رکھنے کی بات کہی اور بالآخر اس کی حمایت کرنے کے لیے یہ راستہ نکالا کہ
کامن منیمم پروگرام صرف مہاراشٹر کی حدتک ہے۔ اس کا اطلاق قومی سطح پر نہیں
ہوتا۔ہندوستان کے اندر علاقائی جماعتیں کمال ابن الوقتی کا ثبوت دیتی ہیں ۔
مہاراشٹر میں شیوسینا کانگریس کے ساتھ اور مرکز میں بی جے پی کے ساتھ ہے
مگر اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح تلنگانہ میں ٹی آر ایس اور
ایم آئی ایم ایک ساتھ انتخاب لڑتے ہیں لیکن ایوان پارلیمان میں ایک بی جے
پی کے خلاف اور دوسری اس کے ساتھ نظر آتا ہے۔ کانگریس پر برسنے والے
بیرسٹر اویسی صاحب ٹی آر ایس کو کبھی بھی تنقید کا نشانہ نہیں بناتے ۔ اس
طرح ان سیاسی جماعتوں کو کہاں جس کے ساتھ جانے میں فائدہ نظر آتا ہے چلے
جاتے ہیں۔
شہریت ترمیم بل کے تعلق سے یہ غلط فہمی پائی جارہی ہے کہ ساری دنیا کے ہندو
بلا چوں و چرا ہندوستان کی شہریت کے حقدار ہوجائیں گے حالانکہ ایسا نہیں ہے
۔ اس بل میں صرف تین ممالک کی تحدید ہے ۔یعنی بنگلا دیش، پاکستان اور
افغانستان سے آنے والے غیر مسلمین کے لیے اس سے فائدہ اٹھانے کی خاطر لازم
ہے کہ درخواست گذار مذکورہ تین ممالک سے اپنا تعلق ثابت کریں ۔ آسام اور
شمال مشرقی صوبوں میں رہنے والے ہندووں کو اس ترمیم سے استفادہ کے لیے یہ
ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بنگلا دیش سے ہندوستان آئے ہیں۔ یہ غریب لوگ جو کئی
سال قبل وہاں سے نقل مکانی کرکے ہندوستان کے اندر آن بسے کیا بہ آسانی یہ
ثابت کرسکیں گے ؟ یہ کوئی آسان کام نہیں ۔ ہندوستانی شہریت کا اپنے آپ کو
حقدار بنانے کے لیے صرف بنگالی یا افغانی زبان بولنا کافی نہیں ہے ۔زبان تو
کوئی بھی سیکھ اور بول سکتا ہے ۔ اس لیے ایوانِ پارلیمان میں اہل اقتدار کا
شور شرابہ کرکے قانون پاس کروا لینا جس قدر آسان ہے زمین پر عام آدمی اس
سے فائدہ اٹھانا ویسا سہل بھی نہیں ہے۔ ویسے سیاستدانوں کو اس سے کیا غرض
کہ ان کے کسی اقدام سے کوئی فائدہ اٹھاتا ہے نہیں ۔ ان نزدیک تو ان کا اپنا
فائدہ ہی سب کچھ ہے۔
شہریت ترمیمی بال پر ہرش مندر جیسے باضمیر لوگ بہت بے چین ہیں ۔انہوں نے
اپنے ایک قابل تعریف ٹویٹ میں لکھا کہ اگر سی اے بی منظور ہوجائے تو یہ
میری سول نافرمانی ہے۔ میں سرکاری طور پر اپنا اندراجمسلمان کی حیثیت سے
کرادوں گا۔ اس کے بعد میں این آر سی کو اپنے دستاویز نہیں جمع کراوں گا
اور بالآخر اپنے لیے بلا ستاویز شہریت سے محروم مسلمانوں کے لیے بنائے گئے
عقوبت خانے کی سزا کا مطالبہ کروں گا ۔ ہرش مندر کا یہ جذبہ قابلِ ستائش
ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو مساوات و رواداری کے علمبردار ہیں اور جنہیں اس کے
ختم ہونے کا احساس ابھی ہورہا ہے اس لیے غمگین ہیں لیکن ہندوستانی مسلمان
آزادی کے بعد سے اس صورتحال سے دوچار ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں
جمہوری نظام نے انہیں ہمیشہ عدل و مساوات سے محروم ہی رکھا ہے۔ فرق صرف یہ
ہے کہ کانگریس یہ سب بغیر بولے ہوتا تھا اور جب شکایت کی جاتی تو مسلم ووٹ
کے لیے اس کا انکار کیا جاتا تھا اب بی جے پی ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لیے یہ
سب علی الاعلان کررہی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے اندر ہرش مندر جیسا اضطراب
نہیں پایا جاتا۔ ہرش مندر جیسے لوگ اس نظام کے حوالے سے اب بھی بڑی خوش
فہمی کا شکار ہیں لیکناس کی حقیقت ہندوستان کے مسلمانوں پر بہت پہلے کھل
چکی ہے اور انہوں نے اس مشکل صورتحال کا مقابلہ کرنا سیکھ لیا ہے۔وہ پہلے
بھی ان سے نبرد آزما رہے ہیں اور آگے بھی لڑتے رہیں گے ۔ اس بیچ کئی
چدمبرم اور شاہ آتے رہے ہیں اور جاتے رہیں گے۔
|