ایک ایسے وقت میں جب مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ کے
نام پراسلام آباد پریلغار کی تیاریاں کررہے تھے ۔میں نے وقت سے پہلے ہی اِن
کا ایجنڈاواضح کرتے بتادیاتھا کہ وہ شرمندگی وندامت ہی سمیٹ کرجائیں گے۔
بعدمیں جب وہ اپنے بھاری بھرکم ورکروں کے ہمراہ آزادی مارچ دھرنا سجائے
سلام آباد آگئے تو تقریباًسارے سیاسی وصحافتی تجزیہ نگار پتانہیں کیاکیا
کہے جارہے تھے۔ہرکوئی اپنی اپنی دانست میں اِسے مختلف طریقوں اور زاویوں سے
جانچ رہاتھا۔کوئی اِسے حکومتی نکیل میں آخری کیل ٹھونکنے سے
تعبیرکررہاتھا۔کوئی اب حکومت گئی کااراگ الاپ رہاتھا۔الغرض جتنے منہ اُتنی
باتیں۔سبھی احباب جانتے ہیں کہ کس نے کیاکہا اورکون کون سی بات کی۔ایسے وقت
میں جب ہرطرف پرنٹ والیکڑانک میڈیامیں فضل الرحمان کی بلے بلے ہورہی تھی
اور ہر کوئی صرف چندایک کو چھوڑکرحکومت کی گرتی ہوئی دیواروں کو ایک
دھکااور دو کہہ اوردوسروں کو غیر محسوس طریقے سے سمجھااور بتارہاتھا۔تب بھی
راقم الحروف اپنی بات پر ڈٹارہااور اِس مارچ اور دھرناکی ناکامی پرمسلسل
بہت سے کالم لکھے اور پاکستانی باشعور عوام کو باور کروایا کہ اِس دھرنے
میں کچھ نہیں پڑاہوا۔اِس دھرنے سے کچھ نہیں ملنے والا،مولانا فضل الرحمان
شرمندگی وندامت ہی سمیٹ کر جائیں گے۔بعدمیں پوری قوم نے دیکھاکہ فضل
الرحمان کیسے آئے اور کیسے گئے۔
اِس مارچ سے کچھ بھی حاصل نہ کرپائے۔اگریہ کہوں کہ ’’بڑے بے آبروہوکر تیرے
کوچے سے ہم نکلے‘‘والامعاملہ ہواتوبے جاء نہ ہوگاکہ آزادی مارچ دھرنا
ناکامی کے بعد اپنی باعزت واپسی کے لیے ہرطرف نگاہیں ڈالے ہاتھ پاؤں مارتے
نظرآئے ۔جب اِن سے رابطے پر ہرایک حکومتی کمیٹی کے رکن نے اِن کے پیش کردہ
مطالبات کو صحیح نہ مانتے ہوئے اِن کو اِن کے حال پر چھوڑدیاتو اپنا
بوریابستر ’’اپنے پیارے دوستوں‘‘ اور رہبرکمیٹی کوبتائے بغیر ہی گول کرکے
چلتے بنے۔بعدکی اِ ن کی بتائی گئی کہانی بھی بس اِن کی ایک خود گھڑی ہوئی
من گھڑت باتیں ہیں کہ مجھے چیئرمین سینٹ،گورنر خیبرپختونخواہاور بلوچستان
اسمبلی میں نمائندگی کی آفرکی گئی۔ایسی کوئی بات نہ ہے۔جتنا میں اِن کو
جانتا ہوں اگرایسی کوئی بات ہوئی ہوتی تو مولانا اب تک چھلانگیں مارتے نظر
آتے اور اِن کی اَڈیاں زمین پرنہ لگتی اور یہ خوشی سے پاگل دیوانے ہوئے
خوشی سے مرنہ جاتے۔ویسے اب بھی اِن کا حال مجنوں دیوانے والاہے ۔اپنے
بیانوں سے حکومتی افراد میں موجود یکجہتی کو پارہ پارہ کرکے حکومت وقوم کو
اپنی لیلیٰ بنانا چاہتے ہیں۔اپنے جھوٹ کو اتنے تواتر سے بول کر اِسے
پروپیگنڈہ کی چکی میں پیس کر سچابنانا چاہتے ہیں۔اپنے ہم نشین لوگوں کے
سامنے کی جانے والی باتوں کو عوام کے قلوب وارواح میں گھسانا چاہتے
ہیں۔ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ جو فرمارہے ٹھیک فرمارہے ہیں۔اِن کی چوہدری
برادران سے دُوپل کی خفیہ ملاقاتوں نے چوہدری برادران کے سارے حکومتی بھائی
چارے اور یکجہتی کواُدھیڑکے رکھ دیاہے۔اِن کی چوہدریوں سے ایک دُو ملاقاتوں
نے اور اِن ملاقاتوں کی کہانی کو بطورِامانت چھپاناکہنا چوہدریوں کواقتدار
میں ہوتے ہوئے بھی آسمان سے زمین پر لے گئی ہیں اور خود پرمہربان وقت کے
باوجودہیرو سے زیرو بناگئی ہیں۔شکوک وشبہات پیدا کرگئی ہیں۔جس کی اب چوہدری
برادران ہم حکومت کے ساتھ ساتھ کہتے وضاحتیں کرتے نظر آتے ہیں مگر جتنی
زیادہ وضاحتیں پیش کر رہے ہیں اتناہی زیادہ اپنے آپ کو مشکوک کرتے جارہے
ہیں۔اگر یہ کہوں کہ مولاناکی دُوملاقاتوں کی صحبت اب کے بار چوہدری برادران
کاسارابھرم ،ریت رواج اور اپنوں کے لیے احساس کو بہاکر لے گئی ہے توغلط نہ
ہوگا۔میرا اپنا خیال ہے کہ حالات کو اپنے موافق نہ پاکر چوہدری برادران نے
وزیراعظم کو ساری فضل الرحمان ملاقات کہانی سناکر ضرور مطمن کیاہوگامگر بات
اب یہ ہے کہ بات اب کچھ بھی نہیں ہے۔ق لیگ اور پی ٹی آئی میں آپسی نفرتیں
پہلے سے موجود تھی۔ دل ایک دوسرے کے لیے مکمل صاف نہ تھے۔بس ’’حب علی بغض
معاویہ ‘‘کے تحت ایک پارٹنرشپ چلی آرہی ہے جو ایک دوسرے کی مجبوری کے تحت
چلی آرہی ہے۔یہ ایک ایسی پارٹنرشپ ہے کہ جونہ تو پوری طرح جڑی ہوئی ہے اور
نہ ہی ٹوٹی ہوئی ہے۔ بس چلی آرہی ہے اور چلتی رہے گی۔ٹوٹنے پر نہیں آئے گی
۔ اِس لیے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ چوہدریوں کی سیاسی ومالی بقاء اِسی میں ہی
ہے کہ یہ یارانہ چلتارہے ٹوٹے نہ۔اغراض اور مفادات کے لیے جڑی اِس پارٹنر
شپ کی وجہ سے بات کوئی بھی ہو۔معاملہ جیسابھی ہو۔یقین دہانیاں کس طرح کی
بھی ہو۔اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکی۔حقیقت تو یہ ہے کہ چوہدریوں نے مولانا
فضل الرحمان کو خوبصورت کیپسول میں بھرکر ،خوش فہمیوں پرمبنی داستان
سناکر،ہم آپ کے پرانے ساتھی کہہ کراورایک سنہری لالی پاپ دے کر
چلتاکیاہے۔یہ جو فضل الرحمان کہانی بتارہے ہیں۔اِس میں صداقت قطعی طور پر
نہیں ہے۔خود سے گھڑی ہوئی کہانی اور عمران حکومت کے بندوں کے دلوں میں شک
کا بیج بونے کی ایک کوشش ہے۔ جس میں فضل الرحمان کے ہاتھ کچھ نہیں آیااور
نہ ہی آئے گامگراپنا منہ ضرور کالاکرواگئے اور اب دُم کٹی لومڑی کی طرح اِس
خود پر مسلط عذاب میں پوری قوم کو دھکیلنا چاہتے ہیں اور اپنے جھوٹ پر
شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔مولانا کی حکومت کوگیڈربھبھکیاں اِس سے زیادہ اور
کوئی وزن نہیں رکھتی صرف ایک ڈراوا ہے۔تیر چھوڑاٹھکانے پرلگ گیاتو ٹھیک
ورنہ ہماراکیاجانا۔ فضل الرحمان کی ’’کھنیوں بار‘‘مطلب اُوقات سے باہر
باتوں کی وجہ بھی یہی ہے کہ بھاری بھر ورکروں کی طاقت کے زعم میں مبتلا
مولوؤں کی باتیں بھی دوسروں کے لیے کھڑاک جیسی ہوتی ہے جس میں ہر سٹروک
دھماکے جیسا ہوتاہے۔ لگ گیاتو وارے نیارے ورنہ اِن کی حالت جلاب لیے جیسی
ہوجاتی ہے۔پتلی اور کمزور سی،بیچارگی والی۔مولانا کی باتوں میں کوئی دم خم
نہیں ہے۔مولانا کی باتیں قوم کوگمراہ کرنے والی ،سب جھوٹ کہانی اور خود سے
گھڑی ہوئی داستان ِعظیم ہے۔جس نے حکومت کا نقصان تونہیں کیا مگر اپناوقار
ضرور خراب کیاہے۔حلقہ یاراں میں مولانافضل الرحمان اپنی اِنہی حرکتوں کے
باعث ذلیل ورسوا ہوئے پڑے اب آئیاں توائیاں مارتے نظر آتے ہیں۔میراتمام
پاکستانیوں سے کہناہے کہ مولاناکی باتوں کو دیوانوں کا خواب جانتے سریس نہ
لیاکریں۔مولاناپر جب بھی اقتدار سے محرومی کا دورہ پڑتاہے تومولاناکا حال
ایساہی ہوتاہے کہ وہ بے تکی اور بہکی بہکی سی باتیں فرمانے لگتے ہیں۔حقائق
کے برعکس،جھوٹ پرمبنی،صریحاًغلط۔اور ہاں ایک بات اور حکومت کہیں نہیں جارہی
۔عمران بھی یہی ہے۔حکومت اپنی مدت عمران خان کے ساتھ ہی پوری کرے
گی۔اپوزیشن کی مائنس عمران باتیں بس خود کو ایک دلاسااور دل بہلانے والی
باتیں ہیں اور کچھ نہیں۔حکومت کو اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔حکومت مشکل حالات سے
نکل آئی ہے۔کسی بھی کیس میں پھنستی نظر نہیں آرہی۔ہرطرف چین ہی چین ہے
۔جہاں تک حکومت مشکلات میں ہے بتانے والوں کی باتیں ہیں وہ بھی صرف اور صرف
اُن کا اپنا پیٹ بھرنے والی باتیں ہیں۔ورنہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ اِس
وقت ریاست،مقننہ اور فوج ایک پیچ پرہے۔پاکستان کی بہتری کے حوالے سے اچھے
دُوررس نتائج کے حامل فیصلے کررہی ہیں۔عزت ماب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ
صاحب کا آرمی ایکٹ قانون کے حوالے سے اُٹھایاجانے والاقدم ایک چھبتا مگر
حقیقتاًفوج جیسے باوقارادارے کی بہتری کے لیے اُٹھایاجانے والا ایک مثبت
اور اچھاقدم ہے۔جس کے آنے والے دنوں میں اچھے اثرات مرتب ہونگے۔حکومت
،مقننہ اور فوج کے ملک وقوم کی بہتری کے پیش ِنظر اُٹھائے جانے والے اقدام
کے نتیجے میں پاکستان ترقی کی جانب بڑھے گا۔مشکلات دُور ہونگی۔حکومت اپنا
کام جاری رکھے گی اور اﷲ نے چاہاتو اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔پاکستان کو
سیاسی ومعاشی طور پر کمزور کرنے کی کوئی بھی سازش اب پنپنے میں کامیاب نہ
ہوگی۔کرپٹ افراد کا بے لاگ کڑااحتساب ہوگا۔کوئی ابہام میں نہ رہے ،ملک وقوم
کی لوٹی ہوئی دولت ہر ایک کرپٹ فرد کے پیٹ سے ہر صورت حالات چاہے جیسے بھی
ہو،نکالی جائے گی۔ملک عظیم سے عظیم تر بنے گا ۔اداروں کومغرور ،آپے سے
باہر،کرپٹ اشخاص سے نجات دلاکر مضبوط کیاجائے گا۔اشرافیہ کے ساتھ ساتھ ایک
عام فرد کوبھی معاشرے میں عزت ملے گی اور یہ وقت آنہیں رہا ،آچکاہے۔قوم
عنقریب ایک بہتر پاکستان کے ثمرات دیکھے گی۔روشن پاکستان ،مضبوط پاکستان
کے۔ #
|