اگرہم کہیں کہ دسمبرکامہینہ ہمارے ملک کیلئے نقصان دہ
ثابت ہواہے کیونکہ اسی مہینے میں سانحہ پشاورجسے یاد کرکے آج بھی روح کانپ
جاتی ہے کیونکہ اس سانحہ میں سکول کے چھوٹے چھوٹے بچے شہیدہوئے تھے
جنیدجمشیدبھی اسی مہینے میں ہم سے بچھڑگئے ایسے کئی واقعات ہیں مگرمیرے
آرٹیکل کامقصدہے انسانی حقوق کاعالمی دن یعنی 10دسمبر1948کواس دن اقوام
متحدہ نے کی جنرل اسمبلی نے قراردادنمبر(111)217Aکے ذریعے اعلان کیاگیا کہ
ہرسال 10دسمبرکوانسانی حقوق کاعالمی دن منایاجائے گا جس کے ذریعے انسانوں
کوایک خاندان مان کرآزادی اظہار،نقل حرکت،عقیدہ،انصاف کی فراہمی ،دنیامیں
امن کاقیام اس کاایک ناقابل تنسخ حق اورانکے خلاف کیے گئے اقدامات کوکھلم
کھلا بربریت قراردیا۔اگرنصاف کی بات کریں توآج کے معاشرے میں یہ بہت مشکل
ہوگیاہے مہنگائی بے روزگاری بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے روز مظاہرے اوراحتجاج
ہوتے ہیں احتجاج کی بات ہوئی ہتومیرے خیال سے طلباء نے جومظاہرے کیے انکے
مطالبات قارائین کویاد لاتاچلوں کہ: طلبہ یونین پرعائد پابندی ختم کی جائے
اورفی الفورملکی سطح پرطلبہ یونین کے الیکشن کرائے جائیں،تعلیمی اداروں کی
نجکاری کاخاتمہ ،حالیہ فیسوں میں اضافے کی واپسی اورمفت تعلیم کی فراہمی
یقینی بنائی جائے،ایچ ای سی کے بجٹ کی کٹوتیاں واپس لی جائیں،تعلیمی اداروں
میں حلف نامے کاخاتمہ اورسیاسی سرگرمیوں پرپابندی کوہٹایاجائے،تعلیمی
اداروں میں سیکورٹی فورسز کی مداخلت بندکی جائے اورتمام سیاسی طلبہ اسیران
کورہاکیاجائے ،تمام طلبہ کومفت ہاسٹل ٹرنسپورٹ فراہم کیاجائے،ہاسٹل اوقات
کار طلبہ وطالبات کیلئے یکساں کیاجائے،جنسی ہراسانی،کے قانون کے تحت
کمیٹیاں تشکیل دی جائیں،اوران میں طلبہ کی نمائندگی کویقنی
بنایاجائے،طبقاتی تعلیمی نظام کاخاتمہ اورتعلیم کوجدیدسائنسی تقاضوں
پراستوارکیاجائے،ہرضلع میں ایک یونیورسٹی کاقیام یقینی بنایاجائے
اورپسماندہ علاقوں کاکوٹہ بڑھایاجائے،فارغ التحصیل نوجوانوں کوروزگاریاکم
ازکم اجرت بطوربے روزگارالاؤنس دیاجائے ،تعلیمی اداروں میں قوم
،زبان،صنف،یامذہب کی بنیاد پرطلبہ کے ساتھ،تعصب،اورہراسانی
بندکیاجائے،اسلام آباداوردوردراز کے علاقوں سے آئے طلباء کوہاسٹل کی فراہمی
یقینی بنائے جائے اورفی الوقت سی ڈی اے کوپرائیویٹ ہاسٹلزکوسیل کرنے سے
روکاجائے اگران کے مطالبات بھی ہم نہیں مانتے تومیرے خیال سے ہمیں انسانی
حقوق کے عالمی دن کابائیکاٹ کرناچاہیے کیونکہ جب ہم انسانوں کے حقوق ہی سلب
کررہے ہیں توہمیں اس دن کومنانے کاکوئی حق نہیں ۔اب آتے ہیں کاشانہ سکینڈل
پریعنی درالامان لاہورجس کی سپریٹنڈنٹ نے پہلے یہ انکشاف کیاکہ لڑکیاں
امراء اپنے استعمال کیلئے منگواتے تھے اورکم عمرلڑکیوں سے نکاح کیلئے
زبردستی کرتے تھے مگرپھراس نے حیران کردہ بیان دیاکہ دارلامان سے 9لڑکیاں
غائب کرادی گئیں اس میں عوامی رکشہ یونین سپریٹنڈنٹ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں
مگران کاموقف یہی ہے کہ سچ سامنے لایاجائے اگرافشاں لطیف غلط ہے تواسے
سزادی جائے اگراس کے بیان صحیح ہیں توانسانی حقوق کی تنظیموں کوساتھ
دیناچاہیے کیونکہ یہاں مسئلہ یتیم بچیوں کاہے اب پھرمیں یہاں پروہی بات
کروں گاکہ اگرہم یتیم بچیوں کی عزت نہیں بچاسکتے انکودارلامان میں تحفظ
نہیں دے سکتے توہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم انسانی حقوق کاعالمی دن منائیں
انسانی حقوق کے تحفظ کی نام نہادباتیں کرنے والی حکومت یتیم بچیوں کے
پٹیشنرکی تنظیم عوامی رکشہ یونین کوہٹ کررہے ہیں مگروہ لوگ بھول رہے ہیں کہ
جن میں خدمت خلق کاجذبہ ہووہ سوائے خداکے کسی سے نہیں ڈرتے ۔اگرانسانی حقوق
کے عالمی دن پرتھرمیں سسکتے بلکتی عوام کی بات نہ کی تومیراضمیرمجھے ملامت
کرتارہے گا جہاں پرروز کئی لوگ بھوک پیاس سے مررہے ہیں مگرہماری حکومت
جوانسانی حقو ق کی علمبرداربننے کادعویٰ کرتی ہے تھرکی طرف توجہ لینے کانام
نہیں لے رہی ۔آئے روز بچوں اوربچیوں کوجنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات لمحہ
فکریہ ہیں کیونکہ اب انسان کم درندے زیادہ پیداہورہے ہیں انسانی حقوق کے
عالمی دن پرراقم کاایک سوال ہے کیابچے اوربچیاں کوانسانی حقوق حاصل کرنے
کاحق نہیں اگرہے توپھران کے مجرموں کوسرعام پھانسی دے جائے تاکہ بچوں
اوربچیوں کونگلنے والے اژدھے کاسرکاٹاجاسکے ۔10دسمبر1948میں انسانی حقوق
کاعالمی چارٹرمنظورہواتھا جس میں بنی نوانسان کوآزاد،یکساں توقیرق اورحقوق
کاحامل قراردیاگیا۔کسی فردکے خلاف رنگ نسل ،جنس،زبان،نسل،مذہب،سیاسی
نظریہ،قدرتی،یاسماجی تعلق یاکسی بھی وجہ سے کوئی نسلی امتیازنہیں برتاجائے
گا3۔تحت غلامی ۔تحت تشددتذلیل۔دنیامیں تمام انسان یکساں حیثیت کے قرارپائے
۔غیرقانونی گرفتاریاں،نظربندی یاجلاوطنی،سے تحفظ فراہم کیاگیا۔ہرانسان
کیلئے غیرجانبدارانہ اورمنصفانہ عدالتی نظام نظام کے تحت انصاف کاحصول
۔خودکوبے گناہ ثابت کرنے کاحق تسلیم کیاگیا۔فردکوپردہ ،خانگی
امور،گھریلومعاملات ،خط وکتابت میں مداخلت سے تحفظ فراہم کیاگیا۔ہرفردملک
کے اندراورباہرآزادانہ نقل وحرکت اوررہائش رکھ سکتاہے ۔جائیدادکے حصول
اوراس کی ملکیت سے محروم نہ کرنے کاتحفظ حاصل ہے ۔فردکوفکری نظریاتی سوچ
وعقیدہ کی آزادی کاحق ہے ۔فردکے پرامن اجتماع کاحق اورجابرانہ طورپراسے کسی
اجتماع میں شامل کرنے کاتحفظ دیاگیا۔ہرفردکوحکومت میں شامل ہونے اورسرکاری
ملاذمت کے حصول کاحق تسلیم کیاگیا۔ملازمتوں کاچناؤاس کے حصول اوریکساں اجرت
ہرفردکوبلاتفریق فراہم کی جائے گی ۔آانسانی حقوق کاعالمی چارٹرجس میں یہ
نقاط تھے کہ فردکویونین سازی کاحق دیاگیاہے ۔فردکوخوراک لباس رہائش طبی
امدادکے حصول کی سہولت بلاروک ٹوک دستیاب ہوگی۔بات ہورہی ہے انسانی حقوق کی
توجب تک کشمیر پرمظالم کی داستان نہ لکھیں توآرٹیکل پوراہوہی نہیں سکتا
کشمیرمیں کرفیوکو 120دن سے زائدہوچکے ہیں جس میں عدالتی حکم کے بغیرلوگوں
کونامعلوم جگہ پرمنتقل کیاجارہاہے ،شہریوں کوہلاک کرنے ،املاک تباہ کرنے
،کھیتوں،فصلوں،باغات،ذرائع آمدن کوتباہ کرنے ،ہسپتالوں،مذہبی عمارتوں
تعلیمی اداروں میں لوگوں کوجانے سے روکنے اورمسلسل کرفیوکے نفاذ کے
اختیارات حاصل ہونگے مقبوضہ کشمیر میں مسلم کشمیریوں کیلئے روزگارکے مواقع
نہ ہونے کے برابرہیں مسلمان مقبوضہ کشمیرمیں 80فیصدہونے کے باوجود سرکاری
ملازم 20فیصدسے زیادہ نہیں اپنے قارائین کویاددلاتاچلوں کہ بھارت کی انسانی
حقوق کی خلاف ورزیاں کشمیرتک نہیں بلکہ 1948میں ہندؤں نے دہلی اوراس کے
گردونواح میں 4000سے زائدسکھوں کومارڈالاتھااس وقت جوسیکورٹی فورسز نے
سکھوں پرجوظلم ڈھائے وہ یادکریں تورونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں 2002میں لودھراں
ٹرین حادثہ کے بعدمودی کی نگرانی میں سرکاری سطح پرمسلمانوں کاقتل عام
کیاگیاجس میں 2000سے زائد مسلمانوں کوشہیدکیاگیااورحاملہ عورتوں کے پیٹ چاک
کرکے نومولودوں کوکالی ماتاکی بلی چڑھادیاگیالڑکیوں کی عزتیں پامال کی گئیں
نوجوان لڑکوں کے پیٹ چھریوں کے وارسے کاٹے گئے 1992میں بھی بابری
مسجدشہیدکردی جس پرمسلمانوں نے احتجاج کیاتوفسادی کہہ کرہزاروں مسلمانوں
کوشہیدکردیا۔آخرمیں یقین سے کہوں گاکہ 10دسمبرکوانسانی حقوق کاعالمی
چارٹرجومنظورہواہے وہ یقنیاً حجتہ الودع سے لیاگیاہے جیساکہ 14سوسال پہلے
حجتہ الودع فرماتے ہوئے آپ ﷺ نے غلامی سے ممانعت فرمائی فردکواظہارآزادی
،ملکیت،نقل وحرکت،تحفظ جان ومال،کاحق عطافرمایا،رنگ،نسل ،حیثیت
دولت،خاندانی پس منظرسے ماوراہوکرفردکواس کے کرداراورعمل کی بنیادپرقابل
توقیرعطافرمایاغیرمسلموں کے حقوق،عبادت گاہوں کوتحفظ اورعورتوں کو حقوق
عطافرمائے1400سال گزرنے کے باوجود مسلمان خطبہ حجتہ الوداع کے لفظ لفظ پرمن
وعن عمل کررہے ہیں ہرمسلمان کوحجتہ الوداع پرعمل کرتے ہوئے اپنے فرائض
انجام دینے چاہیے کہ ہم کسی غیرمسلم پرظلم نہ کریں مسلمان کواپنابھائی
مانیں عورتوں کوعزت وتحفظ دیں کسی کالے سے رنگ کی وجہ سے نفرت نہ کریں
کیاپتہ کہ وہ ہم سے زیادہ رب کے قریب ہوہماری حکومت کویہ یادرکھناچاہیے کہ
اسلامی ریاست میں کسی انسان پرظلم ہوتایاکوئی بھوکاسوتاتوحکمران خود کوذمہ
دارسمجھتاتھامگرہمارے ملک میں کروڑوں لوگ بے روزگارپھررہے ہیں جس پرحکومت
کواپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔
|