ڈیئر سیلری ! تم کب آؤ گی؟

نیوز ون کے رپورٹر ایس ایم عرفان انتقال کرگئے۔ کراچی پریس کلب کے رکن اور ہمارے ایک بہترین ساتھی ہم سے بچھڑ گئے۔ ان کے انتقال کی خبر ملی تو دل مغموم ہوا. پھر پتا چلا وجہ انتقال ہارٹ اٹیک ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے نیوز ون میں سیلریز نہیں مل رہیں۔ یہ صورتحال اب تقریبا صحافتی ہر ادارے کی ہے۔ ایس ایم عرفان بھی بہت پریشان تھے، ان کے گزشتہ روز کے واٹس ایپ پر ایک مزاحیہ انداز میں اسٹیٹس تھا ’’ڈیئر سیلری ! تم کب آؤ گی، آئی مس یو سو مچ ۔۔‘‘اب وہ سیلری آکر شاید مس ٹو کہے گی۔
آپ سمجھ سکتے ہیں اس وقت کی مہنگائی اور پھر اس پر محدود اور میسر سیلری بھی وقت پر نہ ملے تو کرایے دار کو مالک بھی نوٹس جاری کردیتا ہے۔ بل چاہیے بجلی کا ہو یا گیس کا یا 5سو تک کی کیبل کا وہ بھی کٹ جاتا ہے۔ بچوں کی فرمائشوں کا گلا گھونٹ بھی دیں تو پیٹ کی آگ کا ایندھن تو بھرنا ہی پڑتا ہے آخر کو جینا تو ہے ناں۔ موسم بھی بدل چکا ہے، پرانے کپڑے دھوپ لگا کر نکال بھی لیں تو ممکن ہے وہ اب چھوٹے ہوچکے ہوں۔ ماں باپ سردی میں رات کو سو بھی لیں تو بچوں کے کپ کپانے کو دل کیسے مان لے۔

اﷲ جانے ایس ایم عرفان کے حالات ہماری سوچ سے کتنا زیادہ پریشان کن تھے۔ وہ حالات کی سنگینیوں کو جانتے تھے...... پڑھے لکھے بھی تھے... .خود کشی کو وہ حرام سمجھتے تھے مگر یہ دل…… اس کا کیا کیا جائے... . کبھی تو مان لے مگر ہر بار تھوڑی مانتا ہے... بہت تڑپا ہوگا کئی بار سوچا ہوگا جا کر مالکان کا گلا دبا دے مگر پھر اپنی تعلیم اور مہذب ہونا یاد کر کے خاموش بیٹھ جاتا ہوگا۔ دل ہے ناں کب تک... بالآخر زور سے دھڑکا اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ایس ایم عرفان کی تدفین کے بعد صحافیوں نے کراچی میں نیوز ون کے ہیڈ آفس پر دھرنا دیا احتجاج کیا۔ یہ حل ہے تو یقینا یہی کرتے رہنا چاہیے مگر شاید یہ حل نہ تھا نہ ہے۔ البتہ کچھ نہ ہونے کے لیے یہ کرنا بھی بہت ہے۔

ایس ایم عرفان کا انتقال صحافت سے منسلک ہر فرد کی پریشانی کو عیاں کرتا ہے۔ موجودہ حکومت نے میڈیا کو جس طرح کے بحران دیے وہ شاید صدیوں بھلائے نا جاسکیں گے۔ بڑوں کا کچھ ہوا یا نہیں کم از کم نچلی سطح پر سب ہی پس گئے۔ مالکان اور ایڈیٹران کو جیسے موقع ہی مل گیا۔نکالو ، پھر نکالو اور بار بار نکالو یہاں تک کوئی صرف وہ رہ جائے جو ضرورت سے زیادہ ضروری ہے۔ یوں جسے نکال دیا وہ رل گیا۔ جو رہ گیا اسے سیلری بھی محدود دی گئی اور وہ بھی اپنی مرضی سے۔ کچھ حکومت نے حالات بگاڑے اور کچھ اداروں نے ہاتھ صاف کیا۔ مل بانٹ کر دونوں نے چھوٹے صحافیوں کو رگڑ دیا۔

حکومت کے آتے پہلی فرصت میں بے شمار ملازمین کو فارغ کیا گیا۔ پھر جو بچے ان کو سیلری نہ دے کر نکلنے پر مجبور کیا گیا پھر بھی جو بچ گئے ان کو کئی ماہ سے سیلری نہیں مل رہی۔ حالات یہاں تک گھمبیر ہوچکے ہیں کہ اب ایک اچھا باعزت میڈیا سے منسلک فرد سب چھوڑ کر یا تو جنرل اسٹور چلا رہا ہے یا پھر کہیں مزدور بنا ہوا ہے ورنہ اکثر نے تو اپنا چپس اور برگر کا ٹھیلا سجایا ہوا ہے۔

ایسا ہرگز نہیں کہ میڈیا میں بحران حقیقی ہے۔ مصنوعیت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ جس کی پرچی جاندار تھی وہ آج بھی اپنی جگہ پر ذرا برابر بھی ہلے کام کر رہا ہے۔ اب کام آتا ہے یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بے شمار نیوز پیپر اور چینلز ہوچکے ہیں اب معیار کون دیکھتا ہے۔ اب یہ سلسلہ چل رہا ہے اور یوں چلتا رہے گا۔ ایسے بے شمار صحافی جو بہت کمال کے تھے اب وہ گمنام ہوچکے وجہ وہی کہ ان کے لیے اداروں میں جگہ نہ رہی۔ یہ وہ صحافی ہیں جن کو پہلے باہر نکل کر اپنی جان کی فکر رہتی تھی۔ اب ان کو اپنے آفس میں جان بچانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے موت ہوتی تھی ایک گولی کھا کر اب موت ہوتی ہے روٹی نہ کھا کر۔

ایم ایس عرفان کی موت کو حادثاتی قرار دیا جائے یا پریشانی کی وجہ کیا فرق پڑتا ہے۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ وہ سب کے لیے مقرر ہے، جب آنا ہے آکر رہتا ہے۔ نیوز چینل نے چند روپے ہی تو روکے ہیں اب اس میں کوئی مر ہی جائے تو ان کا کیا لینا دینا۔ ایسا کبھی کسی چینل مالکان کے بچوں کے ساتھ ہوتو شاید ان ہیں اس درد یا تکلیف کا احساس ہو۔ ویسے مالک کائنات کی لاٹھی بے آواز ہے، ایسی کئی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں بڑے بڑے اداروں کے بچے بیرون ملک بھی جا کر صرف تابوت میں واپس آئے۔ اﷲ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔

صحافتی تنظیموں کو ان معاملات کے لیے اپنا بھرپور فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پھر ہم کسی دوست ساتھی کا اﷲ نہ کرے جنازہ پڑھنے جارہے ہوں۔ خدارا اس ڈوبتی صحافتی کشتی کو بچانے کے لیے آگے آئیں۔ وہ بھی جو صحافتی تنظیموں کے بڑے ہیں وہ بھی جو اداروں میں اچھی پوزیشن پر ہیں۔ وہ بھی جو روز انہیں کیمرہ مین رپورٹرز اور ٹیکنیشنز کے ذریعے ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر بھڑکیں مار رہے ہوتے ہیں۔ اﷲ ایس ایم عرفان بھائی کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے، آمین
 

Arif Ramzan Jatoi
About the Author: Arif Ramzan Jatoi Read More Articles by Arif Ramzan Jatoi: 81 Articles with 76131 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.