انسانیت کے توالد و تناسل کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے
رب العزت نے مرد و زن کے باہمی جوڑے کو تخلیق فرمایا ہے اور مرد کو اعصابی
اور شعوری دونوں قوتیں عورت سے زیادہ عطاء کی ہیں۔ جس کا واضح ثبوت سورۃ
النساء آیت نمبر 34 میں ہے. ارشاد فرمایا '' مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل
ہے ''۔ قبل از اسلام دورِ جاہلیت کا نقشہ اور اس کے رسوم و رواج، روایات و
اقدار، میل ملاپ کے انداز و اطوار کو دیکھا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ
عورت ذات کو گالی سمجھا جاتا تھا۔ یتیم عورتوں سے ان کے مال کی طرف نگاہ
کرتے ہوئے بیاہ تو رچا لیتے مگر حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرتے ہوئے عار محسوس
کرتے تھے۔ بیٹا باپ کی وفات کے بعد اپنی ماں سے شادی کرتا تھا۔ اگر کسی کے
گھر میں بیٹی پیدا ہوتی تو وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ منحوس تصور کرتا۔ پھر
اسلام کا سورج اپنے انوارات کے ساتھ فاران کی چوٹی سے صدائے وحدانیت دیتے
ہوئے ابھرا۔ انسان نما درندوں کو انسانیت کا سبق پڑھایا اور مرد و زن کے
علیحدہ علیحدہ حقوق اور ان کے مراتب مقرر کیے۔ جہاں معاشرہ ان کے مراتب سے
کھیلتا وہاں اسلام نے فضیلت کی چادر سے نوازا اور جہاں عورت کے احساسات کی
پامالی ہوتی تھی وہاں اس کے قدموں میں جنت لا کر رکھ دی۔ پھر جوں جوں اسلام
کا بول بالا ہوا اور ارض و فرش پر اسلام کی منقش چادر نے سایہ کیا تو ویسے
ویسے عورت ذات کو بھی بلندیوں پر پرواز کرنے کا حوصلہ اور جرأت نصیب ہوئی
لیکن آج کے اس جدید دور میں ہم نے بارہا دیکھا اور سنا کہ عورت کے حقوق کی
پامالی ہو رہی ہے۔ باپ اس کی پسند کا لحاظ نہیں رکھتا تو بھائی جائیداد میں
حصہ نہ دینے کی بات کرتے ہیں۔ رشتے دار اسکی حرکتوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں
اور محلے والے سوشل میڈیا کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔سب سے پہلے ان درپیش
مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ وجہ کیا ہے کہ عورت ذات کو کمزور
سمجھ کر یا اس کی ذہنی نا پختگی کا فائدہ اٹھا کر اسے حراساں کیا جاتا ہے
اور قانونی شرعی حق سے محروم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ دیکھا جائے
تو اسلام نے جہاں عورت کو مقام و مرتبہ دیا ہے وہاں اس کے کے لیے کچھ اصول
و ضوابط کا بھی اہتمام کیا ہے کہ اس دائرہ کار میں رہتے ہوئے اگر اپنی
آزادی و خود مختاری کا استعمال کرے گی، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے
ہوئے منجملہ خصوصیات کی بہرہ مند ہو گی تو درپیش مسائل کا خاتمہ خود بخود
ہو جائے گا مثلاً ہم رسول اﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زوجہ طیبہ حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی ذات اقدس کو دیکھیں کہ اصحابِ رسول صلی
اللّٰہ علیہ وسلم جس مسئلے کا حل تلاش کرنے میں دقت محسوس کرتے یا انہیں
احساس ہوتا کہ ہمارے پاس کوئی نظیر یا حدیث نہیں ہے تو درِ عائشہ کا رخ
کرتے اور حل طلب مسئلے کو بیان کرتے۔ یہ ایسا کیوں ہوا کہ جہاں امی جان رضی
اللّٰہ عنہا اپنے حجرے میں بند سارا دن گزارتی تھیں وہیں ان سے کبار صحابہ
کرام مسائل کا حل مانگتے تھے۔ اگر یوں دیگر خواتین بھی اسلام کے متعارف
کردہ دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کریں تو بہت سارے
مسائل سے نجات پائیں گی۔
ہر چوتھے ماہ پاکستان کے کسی شہر میں حقوقِ نسواں کے لیبل کے ساتھ ایک
تنظیم احتجاج کرتی ہے اور '' میرا جسم میری مرضی'' جیسے بیہودہ راگ الآپتی
ہے۔ اگر ہم معاشرے پر نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ ہمارے ہاں عورت ذات کے
ساتھ عمومی رویہ کیا اپنایا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بس میں کوئی
نشت خالی نہیں ہے اور کوئی خاتون سوار ہو جاتی ہے تو مرد اپنی نشت چھوڑ
دیتے ہیں۔ سیاسی یا ادبی محفلوں یا تقریبات میں اگر کسی خاتون کی آمد ہوتی
ہے تو مرد حضرات کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں محفل
کا ماحول بھی متأثر ہوتا ہے۔ جبکہ خواتین کسی مرد صاحب کی آمد پر اپنی نشت
چھوڑنے کو اپنی توہین قرار دیتی ہیں۔
اب اس معاشرتی رویے کو مد نظر رکھتے ہوئے تحریک حقوقِ نسواں کے مطالبے کا
جائزہ لیں۔ تو ان کا مطالبہ دو حال سے خالی نہیں اول تو وہ مردوں کی برابری
چاہتی ہیں۔ ثانی کہ مخصوص رویے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ اگر مطالبہ ثانی کو
دیکھا جائے تو وہ معاشرے کے مرد حضرات بخوبی انجام دے رہے ہیں اور اگر کسی
فرد سے ذرا بھر کوتاہی ہو جائے تو بقیہ عناصر اپنی تنقید کا ہدف بنا کر
نہایت عمدہ تربیت کرتے ہیں کہ آئندہ اس جیسے سلوک کا سوچے بھی مت۔ یا پھر
مطالبہ اولی کا احترام کرتے ہوئے خواتین کو بسوں کے ساتھ لٹکنے کو کہا جائے
اور'' پہلے آئے پہلے پائے'' کے قانون کے مطابق سارے سسٹم کو چلایا جائے۔
خواتین بھی تقریبات میں مردوں کی آمد پر کھڑے ہو کر ان کے مقام و مرتبے کا
اعتراف کریں یا پھر اپنی تشریف آوری پر نا کھڑے ہونے کا عندیہ دیں۔
دراصل اس تحریک کا جو کہ مغربی عناصر کی تھپکی پر سڑکیں بند کرتی ہے کوئی
مقصد نہیں۔ وہ کون سی برابری کا مطالبہ چاہتیں ہیں اگر یہ بھی اپنے بیانات
میں واضح کردیں تو ہم مظلوم مردوں کو اپنے تئیں سوچنے کا وقت مل جائے
|