دنیائے تاریخ کے قبرستان میں ہر دن ایک نئی قبر بند کر
محفوظ ہو جاتا ہے جس طرح ایک حقیقی قبرستان میں قبر اچھے اور برے دونوں
کرداروں سے منسلک ہوتی ہیں بالکل اسی طرح تاریخ کے اس قبرستان میں بھی ہر
طرح کی قبر دیکھنے کو ملتی ہے جو اپنے اندر ایک منفرد کہانی اور اہم راز
لئے دفن ہے جس کی قبر کشائی سے بہت سی اہم معلومات اور تاریخی ریت چھاننے
کا موقع ملتا ہے لیکن اگر وہ قبر آپ کے اپنے برے کردار اور خوفناک تاریخ سے
منسلک ہو تو اس کی ریت چھاننا انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے بالکل اسی طرح
ایک قبر ١٦ دسمبر ١٩٧١ سے منسوب ہے۔جس کی تاریخ کو اگر چھانا جائے تو دل آج
بھی خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے اور تاریخ ہمیں سبق
سکھاتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ تاریخ سے ہم نے کیا سبق سیکھا؟
١٦ دسمبر ١٩٧١ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن کہ جب نظریہ پاکستان کی
بنیاد پر قیام پاکستان کی قراردار پیش کرنے والوں نے ڈھاکا میں نظریہ
پاکستان کو دفن کرکے محض لاثانی بنیاد پر پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے۔
تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو میرا یہ آرٹیکل آٹے میں نمک کی مانند ہوگا
البتہ ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ ۴٨ سال پہلے ہمارے حکمرانوں کی وہ
کونسی غلطیاں اور اقتدار کی حوس تھی وہ کون سے اقدامات تھے جس کے باعث ملک
کی اقلیت کی بجائے اکثریت میں احساس محروم کا بیچ بوکر تناور درخت بنا گئے
جس کے باعث اکثریت نے اقلیت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرلیا اور اس درخت کی
چھاؤں کے نتیجے میں آج تک پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے کے قریب نہیں آ
سکے ۔
ہم آج بھی سقوط ڈھاکہ میں بھارتی مداخلت اور عالمی سازشیں تلاش کرتے ہیں
اور اس ہی کی آڑ میں اپنے کیے کرائے پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش میں لگے
رہتے ہیں۔کیونکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔شروع دن سے لے کر سقوط ڈھاکہ تک ہم
نے کئی ایسی غلطیاں کی ایسے اقدمات کیے جس کے باعث یہ سانحہ برپہ ہوا۔ عوام
کے ساتھ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور معاشی استحصال جس کا اندازہ اس بات
سے لگایا جاسکتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں سرکاری اداروں میں خدمات انجام
دینے والوں میں اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جو کہ بنگالی زبان سے
بھی ناآشنا تھے۔مشرقی پاکستان کے لوگ بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ
دینے کے لیے کوشاں تھے جس ضمن میں وہ ١٩۴٨ سے ہی جدوجہد کر رہے تھے صورتحال
اس وقت خراب ہوئی جب ٢٢ فروری ١٩۵۴ کو احتجاج کرنے والے ڈھاکہ یونیورسٹی کے
طالب علموں پر پولیس نے تشدد کیا اس کے نتیجے میں پانچ طالب علم شہید ہوئے
جس کے باعث مشرقی پاکستان کے حالات مزید بگڑ گئے اور پورے مشرقی پاکستان
میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی ١٩۵۴ میں ہی مشرقی پاکستان میں صوبائی الیکشن کا
انعقاد کیا گیا جس میں مولوی فضل الحق کی پارٹی عوامی مسلم لیگ نے 97 فیصد
ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اور مشرقی پاکستان سے مسلم لیگ کا قلع قمع کردیا
جس کے بعد مشرقی پاکستان میں ایک سیاسی جماعت عوامی مسلم لیگ کی گرفت مضبوط
ہو گئی۔مشرقی پاکستان کے حکمران مکمل صوبائی خودمختاری چاہتے تھے ۔لیکن
پاکستان کے 1954 کے آئین میں بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا
گیا لیکن مشرقی پاکستان کو مکمل صوبائی خودمختاری نہیں دیں گی جس کے بعد
مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں مغربی پاکستان کے لیے نفرت کی آگ اور
بڑھ گئی اور بھارت ایندھن فراہم کرتا رہا۔
مشرقی پاکستان میں صوبائی الیکشن کے دو ماہ بعد ہی وزیر اعلی مولوی فضل حق
پر غداری کا الزام لگاتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا اور مشرقی پاکستان
میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا جس کے بعد مشرقی پاکستان میں ہنگامے اور
فسادات پھوٹ پڑے اور نظام سنبھالنے کیلئے فوج کو میدان میں اتار دیا گیا
عوام احتجاج کرتے اور فوج صورتحال پر قابو پانے کے لیے عوام پر تشدد کرتی
جس کے باعث عوام میں پاک فوج کے لیے نفرت اور بڑھ گئی تھی یہ وہی وقت تھا
جب مشرقی پاکستان میں علیحدہ ریاست بنانے کے نعرے گونج رہے تھے اور حالات
حکومت کے بس سے باہر ہوتے جارہے تھے۔
اس دوران پاکستان کے دونوں حصوں میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کی گرفت مضبوط
تھی ایک طرف عوامی مسلم لیگ تھی تو دوسری جانب مغربی پاکستان میں پاکستان
پیپلز پارٹی خاصی مقبول تھی دونوں ہی پارٹیاں ایک دوسرے کے سخت مخالف تھی۔
عوامی مسلم لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمن اپنے خاص ایجنڈے کے باعث مشرقی
پاکستان میں خاصے مقبول تھے۔ مشرقی پاکستان کے حالات ایسے تھے کہ کبھی
پاکستان میں کبھی کرفیو لگایا جاتا کبھی ختم کیا جاتا اور احتجاج پر پرتشدد
واقعات روز کا معمول بنتے جارہے تھے بالآخر ١٩٧١میں پاکستان کے دونوں بڑے
حصوں میں انتخابات منعقد کیے گئے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی
پارٹی عوامی لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور پاکستان
پیپلزپارٹی مغربی پاکستان میں برتری حاصل کر سکیں بھاری مینڈیٹ اور واضح
اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد اقتدار پر حق عوامی لیگ کا بنتا تھا
یہاں زولفقارعلی بھٹو لے کردار پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا جنہوں نے پاکستان
کے مفادات سے زیادہ پارٹی، سیاسی، زاتی مفادات اور اقتدار کو ترجیح دی۔
یحیٰی خان کی جانب سے اقتدار کی منتقلی میں تاخیر نے مشرقی پاکستان کے عوام
کے دلوں میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا کردی اور اسی صورتحال کا ملک دشمنوں
نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے منفی پروپیگینڈے شروع کر دیے احتجاج اور
پرتشدد کاروائیاں مشرقی پاکستان میں روز کا معمول تھے اور وہاں کے عوام فوج
کے سخت خلاف تھے ان پرتشدد کاروائی اور خون خرابے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
بھارت نے جو کہ پہلے سے ہی مختلف تنظیموں کے ذریعے مشرقی پاکستان میں
پرتشدد کاروائیاں کر رہا تھا صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان
میں اپنی فوجیں اتار دیں اور 3 دسمبر 1971 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان
باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوگیا پاکستان کے حالات اس وقت سازگار نہ تھے جبکہ
بھارت کا ساتھ اس وقت کی عالمی طاقتوں نے دیا دنیا کی کوئی بھی فوج اپنی
عوام سے کبھی جنگ نہیں جیت سکتی یہی پاکستان کے ساتھ بھی ہوا۔
پاکستان کو دولخت کرنے میں بھٹو، یحییٰ اور مجیب، سب نے اپنا کردار بخوبی
ادا کیا لیکن شکست درحقیقت صرف اور صرف ملک و قوم کے حصے میں آئی۔ ذوالفقار
علی بھٹو کا پولینڈ اور دیگر ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی
جنگ بندی کی قرارداد کو طیش میں آکر پھاڑنا اور اجلاس کا واک آئوٹ کرنا
سمجھ سے بالاتر تھا کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یہ امید کی جارہی تھی کہ
چین اور دیگر عالمی طاقتوں کے دبائو میں آکر اقوام متحدہ کچھ ہی دنوں میں
جنگ بندی کے احکامات جاری کردیتی تاہم قرارداد پھاڑنے کے 2 دن بعد ١٦ دسمبر
١٩٧١ کو جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال دیئے اور اس طرح
مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کہ نقشے پر نمودار ہوگیا ۔
پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ باب کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جس کی
تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ عدم مفاہمت اور دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہ
کرنا ملک کو دولخت کرنے کا سبب بنتا ہے۔آج پاکستان ایک بار پھر اسی طرح کے
حالات سے دوچار ہے اور دشمن طاقتیں ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سازشوں کے
جال بن رہی ہیں لیکن ایسے کڑے وقت میں حکمران اور سیاستدان اقتدار اور ذاتی
مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ملکی سلامتی
کی کوئی پرواء نہیں۔
آج پھر سے پاکستان لاثانی فسادات کی زد میں ہے فرقہ پرستی اور قومیت کی
بنیاد پر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم عوام کے دلوں میں احساس محرومی کا سبب
بن رہی ہے اور دشمن اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کی قیمتی سرزمین
بلوچستان میں فسادات پیدا کرنے کی پہ در پہ کوشش کر رہے ہیں۔جو پاکستان
پیپلزپارٹی ١٩٧١ میں مشرقی پاکستان کی مکمل صوبائی خود مختاری کی مخالف تھی
اپنے دور اقتدار میں آئین میں اٹھاروی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خود مختار
کر کے پچھلے دس سال سے سندھ پر قبضہ کیے ہوئے ہے اور سندھ کے شہری ضلع کے
عوام وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سرکاری اداروں میں ان کے لیے روزگار کے
مواقع نہ ہونے پر احساس محرومی کا شکار ہیں اپنا حق مانگنے پر انہیں
اسمبلیوں اور ایوانوں میں اقتدار پر فائزاشرافیہ کی جانب سے مختلف طعنوں
اور القابات سے نوازا جاتا ہے جو کہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ ملک کے سب سے بڑے
صوبے پنجاب میں مزید صوبے بنانے کی قراردار پر عمل نہ ہونا ملک کے مختلف
حصوں کی عوام میں ریاست پر عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے اور ہمارے حکمران
انتظامی بنیادوں پر ملک کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے اپنے اقتدار کے مزے
لوٹنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ملک کے انتظامی ڈھانچے کا اگر بغور جائزہ
لیا جائے توانتظامی بنیادوں پر بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ عوام
اپنےجائز حقوق حاصل کر سکےاور ان کا ریاست پر اعتماد بہال ہو سکے۔
آج سقوط ڈھاکہ کے ۴٨ سال بعد بھی ملک کے انتظامی نظام میں حکومتوں کی
نااہلی ناکامی اقتدار کی ہوس کرپٹ نظام اور زاتی مفادات پر مبنی اقدامات کے
باعث ملک آج بھی بیرونی سازشوں کے ساتھ ساتھ مختلف جانب سے اندرونی سازشوں
کا بھی شکار ہے ان سب چیزوں کا مطالعہ کیا جائے اور دنیائے تاریخ کے
قبرستان میں 16 دسمبر 1971 سے منسوب اس قبر کی قبر کشائی کرکے ریت کو چھانا
جائے تو نہ صرف شرمندگی کا احساس ہوتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آج
تک تاریخ سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔
|