پولیو

پولیو ایک ایسی بلا جس سے پاکستان ابھی تک جان نہ چھڑا سکا۔ پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں سے ایک ہے جو ابھی تک پولیو کی گرفت میں ہیں۔ پاکستان میں پولیو کی مہم 1974 میں شروع ہوئی 2014 میں سب سے ذیادہ پولیو کیسز پاکستان میں سامنے آئے۔ اگست 2015 میں ، ملک نے چار لاکھ بچوں کا علاج کرنے اور 2016 تک پاکستان کو اپنے کے مقصد کے قریب لانے یعنی پولیو کے خاتمے کے لیئے انجیکشن پولیو ویکسین شروع کی۔ اگرچہ نئی ویکسین روایتی منہ سے دینےوالی پولیو ویکسین (او پی وی) سے کہیں زیادہ عمدہ ہے اس انجیکشن کو استثنیٰ پیدا کرنے کے لئے صرف ایک خوراک کی ضرورت ہے ، بار بار نہیں۔ 2012 میں 70 کے قریب پولیو ورکر قتل کیئے گئے۔ 2015 میں ، خیبر پختونخوا حکومت نے اپنے بچوں کو ویکسین پلانے سے انکار کرنے والے 1،200 والدین اور سرپرستوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ 512 افراد کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد انہیں رہا کردیا گیا تھا کہ وہ ویکسینیشن کی مخالفت نہیں کریں گے کی موجودہ وباء اب بھی وابستہ ہے۔ 2014 میں مقدمات کی تعداد 306 سے کم ہوکر 2015 میں 54 ، 2016 میں 20 ، 2017 میں 8 ، اور 2018 میں 12 ہوگئی ہے۔ 2019 میں اب تک 62 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں خیبر پختونخوا سے 46 ، پنجاب سے 5 ، 5 مقدمات بلوچستان سے اور 6 مقدمات صوبہ سندھ سے۔ اب اس وباء سے اپنے بچوں اور ملک کو بچانے کے لیئے حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور حکوت بھی مستقبل کے لیئے بہتر انتظامات کرے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ansha Moeen
About the Author: Ansha Moeen Read More Articles by Ansha Moeen: 4 Articles with 4572 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.