پاکستان کے حالات بھی بدلتے
موسموں کی طرح بے رحمی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ، ٹیلی ویژن لگائیں ، انٹر
نیٹ دیکھیں یا صبح کا اخبار ہر روز نت نئی خبریں اور بریکنگ نیوز چونکا
دینے کے لئے کافی ہیں ۔ سیاست کی بے رحمیاں ، اقتدار کی جنگ اور ذاتی مفاد
کی خاطر پینترے بدلنے کا رواج اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب کوئی کتنا ہی بدل
جائے ، کتنا ہی پینترے بدل لے بالکل عام سی بات لگتی ہے ۔
اب عوام بھی اس چیز کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ وہ ان سب باتوں کو سن کر چپ
ہو کر کام کاج میں لگ جاتے ہیں ۔ اور اسی چیز کا فائدہ یہ مفاد پرست
سیاستدان اٹھا رہے ہیں ۔
عالمی سامراجی قوتوں کا ٹارگٹ صرف اور صرف کسی بھی ملک میں اسلامی انقلاب
کا راستہ روکنا ہے ۔ ان کے لئے ایران کا انقلاب کچھ زیادہ اچھا ثابت نہیں
ہوا تھا اس لئے وہ ملک میں انقلاب کا راستہ روک کر اپنے مرضی کے حکمران
مقرر کرنا چاہتے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں تیونس اور مصر کے ممکنہ انقلاب کا
راستہ اتنی شفافیت سے روکا گیا کہ عوام کو پتہ بھی نہیں اور عوام کی چلی
بھی نہیں بلکہ صرف چہروں کو تبدیل کر کے وہی نظام دوبارہ مسلط کر دیا گیا
ہے۔
یہی حال وطن عزیز پاکستان کا بھی ہے ۔ گزشتہ عشروں سے چلنے والی حکومتوں
اور آمریت کے شکار عوام اب جبکہ آہستہ آہستہ بیدار ہونا شروع ہوئی ہے تو اس
بیداری کے ساتھ ہی عالمی سامراجی قوتوں کے کان بھی کھڑے ہو گئے ہیں ۔ اور
اب کا شکار پاکستان ٹھہرا ہے ۔ وہ کسی بھی طرح ایک ایٹمی اسلامی مملکت کے
بھاگ دوڑ اسلامی تحریکوں کے ہاتھ میں نہیں دیکھنا چاہتے اور نہ ہی وہ چاہتے
ہیں کہ کسی بھی طرح اس انقلاب کے راہنما اسلامی لیڈر شپ بنے ۔ اسی لئے
انہوں نے اپنی پروردہ پارٹیوں کو انقلاب ، انقلاب کا نعرہ الاپنے کا ٹارگٹ
دیا تاکہ ان کرپٹ پارٹیوں کے منہ سے انقلاب کا نعرہ سن کر عوام ان کے کردار
سے بد ظن ہو کر اصل ممکنہ انقلاب سے دور ہو جائیں ۔
اور ان انقلاب کی صداؤں میں بے کردار لیڈر، قاتل اور لٹیرے ، جاگیردار اور
سرمایہ کار سب ہی شامل ہو چکے ہیں اور اپنی اپنی راگ الاپ کر عوام کو
انقلاب کے نام سے ہی دور کر نے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ سامراجی قوتوں نے
پاکستان میں اسی پارٹیز کو اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ بھی پاکستانی ایجنسیز کو
دیا ہے جن کی شبانہ روز محنت سے میڈیا نے اسلامی پارٹیز کو یک سر بھلا کر
سیکولر قوتوں کو پروموٹ کرنا شروع کر دیا ہے ، بے ڈھنگے تبصروں اور
پروگرامات کی بھرمار سے عوام کو اصل مقاصد سے ہٹا کر بے وقوف بنایا جا رہا
ہے ۔
دائیں اور بائیں بازو کی سب جماعتیں گلے شکوے دور کر کے ایک پلیٹ فارم پر
جمع ہونا شروع ہو گئیں ہیں گویا ایجنسیز کے سجائے ہوئے سٹیج پر پرفامنس
شروع ہونے والی ہے ، سکرپٹ لکھے جا چکے ہیں اور کرداروں کا تعین ہو رہا ہے
، بس کھیل اب شروع ہوا کہ ہوا ۔ اس میں پلے بیک سنگرز کا کردار بھی کچھ
کالم نگار کر رہے ہیں جو اپنے ترنم میں سیاسی پارٹیوں اور آرمی کے درمیان
محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ اس سارے کھیل میں
کون کامیاب ہوتا ہے اور کون ناکام ۔۔
لیکن اس میں عوام کو کیا ملے گا ۔۔۔ اس کا تعین کرنا ابھی باقی ہے ۔۔ |