ناسا کی عظیم رصدگاہی

دیکھتے ہیں کہ اس وقت کے انسان کے پاس فلکیات کا مشاہدہ کرنے کے لیے کون کون سےآلات موجود ہیں اور انکی کیا صلاحیت ہے۔ سب سے پہلے ہم خلائی ادارے ناسا کی خلائی رصدگاہوں کا ذکر کرینگے-

کائنات کے عجائبات کا احاطہ کرنے اور اس کی لامتناہی شان اور تنوّع کو سمجھنے کے لیۓ مکمل برقی مقناطیسی طیف میں کائناتی واقعات سے خارج ہونے والی اشعاع کو جمع کرکے تجزیہ کرنا ہوتا ہے-

اس مشن کو بروئے کار لانے کے لیے ناسا نے عظیم رصدگاہوں کا تصوّر تجویز کیا، یعنی کئ مختلف طول کی موجوں پر فلکیاتی مطالعہ کے لیۓ ڈیزائین کی ہوئی چار خلائی رصد گاہوں ( دوربینوں) کا سلسلہ:
ہبل خلائی دوربین(ایچ ایس ٹی) اس پروگرام کا پہلا قدم ،اور سب سےمعروف ترین، ہبل دوربین ہے- اسے 1990 میں ناسا خلائی شٹل کے ذریعے خلاء میں چھوڑا گیا- اور بعد میں 1993،1997 اور 2009 میں اس کی استعداد بڑھانے اور دیکھہ بھال کے لیۓ مختلف مشن جاتے رہے-یہ دوربین نظر آنے والی مرئی روشنی اور نہ نظر آنے والی بالاۓ بنفشی اور نزدیکی زیریں سرخ طول موج کی غیر مرئی روشنی میں کائنات کا مشاہدہ کرتی ہے-

کامپٹن، گاما-شعاع رصدگاہ(سی جی آر او)
دوسری عظیم رصدگاہ یعنی کامپٹن گاما شعاع دوربین 1991 میں ایک شٹل کے ذریعے خلاء میں ایک اونچے مدار میں چھوڑی گئی -

یہ دوربین کائنات میں کچھہ شدید ترین طبعیاتی مظاہر کےبارے میں اعداد و شمار اکٹّھا کرنے کا سلسلہ جاری رکھےہوۓ ہے، جن کا طرّۂ امتیاز انتہائی شدید توانائیاں ہیں!

چندرا لا شعاع( ایکس رے) رصدگاہ(سی ایکس او)
عظیم رصدگاہوں کے خاندان کاتیسرا رکن یعنی چندرا ایکس رے رصدگاہ جولائی 1999 میں شٹل کے ذریعے چھوڑی گئی اور پھر ایک اونچے مدار میں بلند کی گئی- یہ دوربین برقی مقناطیسی طیف کے ایکس رے والے جز کے ذریعے بلیک ہول، کوثر، اور بلند درجۂ حرارت والی گیسوں جیسے عناصر کا مشاہدہ کررہی ہے۔

اسپٹزر خلائی دوربین
ناسا کے عظیم رصدگاہوں کے پروگرام کے چوتھے حصّہ کی نمائندگی کرتی ہے-اسپٹزر طول موج کے ایک اہم خلاء کو پر کرتی ہے جو زمین سے میسّر نہیں آسکتا، یعنی حرارتی زیریں سرخ-یہ دوربین 2003 میں مدارمیں پہنچائی گئی-

ان دور بینوں کے علاوہ اور کئی ممالک کی دوربینیں بھی خلاء میں موجود ہیں-جیسے یوروپین اسپیس ایجنسی وغیرہ-

ہر دوربین کے طول موج کے حدود مختلف ہیں ، جو فلکی اجسام اور عناصر ایک طول موج میں نظر نہیں آتے وہ دوسرے میں نظر آجاتے ہیں- اس طرح فلکی اجسام کو دیکھنےکے لیۓ مرئی اور غیرمرئی روشنی کے بڑے حدود کا احاطہ کیا گیا ہے- یہ انسانی انہماک،یکسوئی، محنت، لگن اور ذہنی ارتکاز سے حاصل ہونے والاایک اچھوتا کارنامہ ہے-

الّذی خلق سبع سماوات طباقا ط ماتری` فی خلق الرحمان من تفاوت ط فارجع البصر لا ھل تر`ی من فطور ہ ثم ارجع البصرہ کرّتین ینقلب الیک البصر خاسءا" وّ ھو حسیرہ الملک 4-5
جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بناۓ- تم رحمان کی تخلیق میں کوئی بے ربطی نہیں پاؤ گے- پھر پلٹ کے دیکھو ، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ- تمہاری نگاہ تھک کرنامراد پلٹ آۓ گی-

اللہ تعالیٰ نے بار بار کے اعادے اور تکرار کے ساتھہ اپنے علم،قدرت اور حکمت پر آسمان اور زمین کی بناوٹ،رات دن کی آمدورفت،روشنی اورتاریکی کی کیفیت،چاند سورج ستاروں کے حالات سے استدلال کیا ہے- لہٰذہ ان کے حالات پر غورفکر کرنا اور ان پر بحث کرنا اور انکا علم حاصل کرنا باعث ثواب اور باعث تقویت و فروغ ایمان ہے، نیز یہ کہ جس چیز سے انسان میں دنیا کی تحقیر اور آخرت کی رغبت کا قوی جذبہ پیدا ہوجاۓ وہ عمل صالح ہے- فلکیات کا علم دنیا کی حیثیت کو ریت کے ذرّے سے بھی حقیرتر ثابت کرتاہے اور ایک غور کرنے والے کے دل سےاسکی محبّت کو نفی کرتا ہے-
ولقد زیّنّا السّما ء الدنیا بمصابیح۔۔۔الملک
ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے-

آسمان شب میں ہم جس طرف بھی نظر ڈالتے ہیں ستارےہی نظر آتے ہیں- اگر ہم بہت باریک بینی اور صبروتحمّل سے انہیں گنیں تواپنی آنکھہ سے قریب قریب تین ہزار تک گن پائیں گے- معمولی دوربین سے ہم چند ہزارستارے اور دیکھہ پائیں گے- اور ایک سائینسی فلکی دور بین سے کروڑوں کی تعداد میں---آسمان پر ایک سرسری نظر بھی یہ انکشاف کرتی ہے کہ سارے ستارے ایک سے نہیں ہیں! کچھہ زیادہ روشن ہیں اور کچھہ کم ، زیادہ ترسفید ہیں اور کچھہ رنگین بھی- چمک اور رنگ یہ دو اجزاء ہی ستاروں کو ایک دوسرے سے ممیّز کرتے ہیں- مگر جب ہم طاقتور دوربین سے ان ستاروں کا قریبی مشاہدہ کرتے ہیں اور ان کی مدھم روشنی کاتجزیہ کرتے ہیں توہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ کچھہ اور جزیات میں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، جیسے درجۂ حرارت ، کمیّت ، رفتار ، مقناطیسیت ، اجزاۓ ترکیبی اور عمر وغیرہ—خاص طور پہ ، دوسرے ستارے اس ستارے سے کہیں زیادہ مختلف نظر آتے ہیں جسے ہم سب سےاچھی طرح جانتے ہیں ، ہمارا اپنا مقامی پڑوسی ستارہ یعنی سورج-

لاتعداد انواع واقسام کے ستارے – ٹمٹماتے ہوۓ ناتواں ننھے کوکبی بونے جیسے آسمانی حشرات الارض ، ہزاروں گنا زیادہ بڑے اور کروڑوں گنا زیادہ چمکدار دیوہیکل ستارے جیسے فلکی روشن منارے ، گھٹتی بڑھتی روشنی والے ستارے جیسے ان میں کوئی سوئچ لگا ہؤا ہو، پھبکتے ہوۓ نومولود ستارے ، اپنی موت اور فلکی قیامت کی طرف رواں دواں قدیم بوڑھے ستارے-

اس کائناتی چڑیا گھر میں اتنی زیادہ مختلف اقسام کے اجرام فلکی---- ! ان بے میل اجرام کے مطالعے سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ ہرایک قسم تاروں کے ایک مختلف ارتقائ مرحلے کی نمائندگی کرتی ہے- اس سے ایک ستارے کی زندگی کے مختلف مراحل کے ٹکڑے جوڑے جا سکتےہیں- ایک ستارے کی پیدائش ے لےکر اسکی جوانی، بڑھاپے اور موت تک- سائنسدانوں کو اسی منطقی طریقے سے کام کرنا ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی ستارے کی پوری زندگی کا مشاہدہ نہیں کر سکتے جو کروڑوں برسوں پر محیط ہوتی ہے-

کائنات کی ایک بہت خوبصورت ویڈیو آخر میں دیۓ گۓ لنک کے ذریعے دیکھیۓ-

ٹونی ڈارنیل کی آواز میں پس منظر میں انگریزی بیان کا ترجمعہ مندرجہ ذیل ہے-

گہرے غور و فکر کے لیۓ ویڈیو دیکھنے سے پہلے یہ ترجمہ پڑھ لینا فائدہ مند ہو گا-

یو ٹیوب ، بیان کا ترجمعہ
Hubble Deep Field: The Most Imp. Image Ever Taken
" کائنات ایک بہت ہی بڑی جگہ ہے- ہم اسے اپنی ودیعت کۓ ہوۓ علم سے جانتے ہیں- اسکی اتھاہ گہرائیوں کو-

ہم جب بھی کسی سیّارگاہ میں جاتے ہیں، فلکیات کاکورس لیتے ہیں یا صرف کسی شفاف رات میں اوپر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں( آیت) تو ہردفعہ ہم یہ سنتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی ہے۔ لیکن صرف یہ جاننا کی کوئ چیز کتنی بڑی ہے اور اس کو تصوّر کرنا دو مختلف چزیں ہیں!

جب ماہرین فلکیات کائنات کے حجم کی بات کرتے ہیں- تو وہ اس کی وضاحت کے لیۓ بڑے بڑے اعداد استعمال کرنا پسند کرتےہیں تاکہ ہر چیز سمجھی جاسکے-یہ بات بالکل قابل فہم ہے ان ماہرین کے لیۓ جو روز مرّہ یہی کام کرتے ہیں-

باقی لوگوں کے لیۓ یہ اعداد اتنے بڑےہیں کہ جب ہم انکو سنتے ہیں تو صرف خالی نظروں سے ان کو تکتےرہ جاتے ہیں- مسۂلہ یہ ہے کہ یہ اعداد ہمارے قابل فہم ہونےکے لیۓ بہت بڑے ہیں-اور فلکیات کامطالعہ اس قسم کے اعداد سے بھرا پڑا ہے-

آخر ہمارے پاس اور بھی تو ضروری کام ہیں اس کے مقابلے میں کہ ہم سوچیں کہ کائنات کتنی بڑی ہے؟ہمارے دماغ بڑے بڑے اعداد کا تصوّر کرنے کے لیۓ نہیںبنے ہیں-جیسے سینتالیس کھرب نوری سال، کائنات کاحجم، یعنی اسکا نصف قطر، یہ عدد کہنے سے کچھ زیادہ پتہ نیں چلتا-

لیکن ایسی تصویریں کھینچی گئ ہیں کہ ہم ایک نظر یں دیکھہ سکیں کہ یہ عدد کتنابڑاہے-1995 میں ہبل دوربین آسمان کے ایک تاریک اور گمنام سے گوشے پہ دس دن تک جمی رہی، نتیجہ ، ایک بہت بڑے کائناتی پیمانے پر یہ شبیھ ہزاروں کہکشاؤں سے بھری ہوئ - تقریبا" تین ہزار کہکشاؤں کا سراغ ملا ، آسمان کے اس چھوٹے سے گوشے میں جو بظاہر مکمل طور پر خالی اور تاریک نظر آتا تھا-

آیۓ اسکو ذرا صحیح تناظر میں دیکھتے ہیں- ہم ایک سیارے پہ رہتے ہیں جو ہمارے نظام شمسی میں آٹھہ میں سے ایک ہے- یہ سیا رے ایک کسی قدر غیر نمایاں اور معمولی ستارے(سورج) کے مدار میں گھوم رہے ہیں- جو ہماری کہکشاں کے پانچ سو ہزار ملین ستاروں میں سے ایک ہے، (پھر ایک بہت بڑا عدد!)
یہ پن وھیل کہکشاں ہے- یہ ہماری کہکشاں سے کافی ملتی جلتی ہے- ہبل دوربین سے دکھائی دینے والی کسی کہکشاں کی سب سے واضح ترین تصویر-

روشنی کا ہر نقطہ ایک ستارہ ہے- کچھ ہمارے سورج سے بڑے ہں اور کچھ چھوٹے- بہت سوں کے مدارمیں سیّارے بھی گردش کر رہے ہونگے-اس تصویر کو دیکھتے ہوۓ یہ کہناکہ صرف زمین ہی ساری کائنات میں وہ سیارہ ہے جس پر زندگی ہے کچھ بے معنی سی بات معلوم ہوتی ہے-

زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ہماری طرح کی اور بھی بہت سی زمینیں ہوں-

ہماری کہکشاں ہمارے مقامی گروپ میں ہزاروں میں سے ایک ہے ---- اور کائنات میں ہزار ہا گروپ ہیں!
جب ہم کسی بالکل اندھیری اور صاف رات میں آسمان کو دیکھتے ہیں تو ہم صرف تیس ہزار ستارے دیکھ سکتے ہیں- یہ کہنا آسان ہے کہ بس یہی کچھ ہے ، کائنات کچھ زیادہ بڑی نہیں معلوم ہوتی!

لیکن اب ہم اس کچھ سے زیادہ جانتے ہیں- ہبل سے آسمان کی اتھاہ گہرائی میں ایک نظر(الٹرا ڈیپ فیلڈ) والی تصویر ایک مثال ہے جو کائنات کے عظیم حجم کی ایک جھلک دکھاتی ہے-

ستمبر 2003 میں ہبل نے پھر وہی کیا ، اس دفعہ اس نے آسمان کے ایک اور تاریک گوشے پر گیارہ دنوں تک نظر جما کے رکھی- زیادہ حساس آلات استعمال کیۓ گۓ، اس دفعہ یہ دکھائی دیا، یہ انتہائی اتھاہ گہرائی( الٹرا ڈیپ فیلڈ) کہلاتی ہے-

یہ اب تک دیکھی جانے والی بعید ترین کائنات کی نمائندہ تصویر ہے- اس میں دس ہزار سے زیادہ کہکشائیں ہیں-ہر ایک نقطہ،دھبہ ایک کہکشاں ہے، ہر ایک نقطے میں کروڑوں ستارے(سورج) ہیں اورہر ستارے کے مدار میں کسی سیارے کا امکان موجود ہے اورکسی تہذیب کا امکان بھی-

تو یہ ہمیں نظر آتا ہے جب ہم کسی خالی جگہ کو غور سے دیکھتے ہیں جہاں بظاہر کچھ پھی نہیں دکھائی دیتا!
یہ ہے کہکشاؤں کی تعداد وہاں جہاں کچھ بھی نہیں ہے- یہ تصویر ہے 47 بلین نوری سال کی- تصویر اس بات کی کہ دنیا کتنی حقیر ہے – یہ سب سے اہم ترین تصویر ہے جو انسانیت نے کھینچی ہے-
https://www.youtube.com/watch?v=fgg2tpUVbXQ&feature=related

یاد دھانی
الذین یذکرون اللہ قیاما"وقعودا" وّ علی' جنوبھم و یتفکّرون فی خلق السّموات والارض ج ربّنا ما خلقت ھذا باطلا ج سبحنک فقنا عذابا النّار ہ
جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے رہتے ہیں- (اور وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارےرب تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا- تو پاک ہے پس بچا لے ہمیں آگ کے عذاب سے-

اللہ تعالیٰ نے بار بار کے اعادے اور تکرار کے ساتھہ اپنے علم،قدرت اور حکمت پر آسمان اور زمین کی بناوٹ،رات دن کی آمدورفت،روشنی اورتاریکی کی کیفیت،چاند سورج ستاروں کے حالات سے استدلال کیا ہے-
لہذہ ان کے حالات پر غورفکر کرنا اور ان پر بحث کرنا اور انکا علم حاصل کرنا باعث ثواب اور باعث تقویت و فروغ ایمان ہے-

جو لوگ سایئنس کی مشکل اصطلاحات اورانگریزی زبان سے کم واقفیت رکھتےہیں- طبیعیات کی دقیق زبان اور نیوٹن،آیئن سٹایئن ، شروڈنگر اور اسٹیفن ہاکنگ وغیرہ جیسے سایئنسدانوں کے نظریات و نظری اختلافات سےکم یا عدم واقفیت کے با وجود اس میدان میں دلچسپی رکھتے ہیں- راقم الحروف نے ان لوگوں کے لیۓ موجودہ جدید نظریات و انکشافات کو آسان اردومیں بیان کرنےاوران افراد میں اس باعث ثواب غوروفکر کا رجحان بڑہا نے کے لیۓ ایک چھوٹی سی کوشش کا آغاز کیا ہے-
Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 25 Articles with 46894 views I am a passionate free lance writer. Science , technolgy and religion are my topics. Ihave a Master degree in applied physics. I have a 35 + years exp.. View More