انسانیت نوحہ کناں ہے

علم وہ عطیہ خداوندی ہے جو آدمی کو آدمیت کے رستے پر گامزن کرتے ہوئے انسانیت کی منزل تک لے جاتا ہے مگر عصر حاضر میں تعلیم یافتہ لوگوں نے انسانیت کو شکست فاش سے دو چار کر دیا جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ کتابیں پڑھنے سے آدمی الفاظ سے تو آشنائی حاصل کر لیتا ہے مگر انسانیت تک کا سفر وہ شعور وادراک سے حاصل کرتا ہے بقول اقبال
خرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ جو مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

اور اس کا ثبوت آج کل میری دھرتی پر اکثر سامنے آرہاہے چشم فلک روزانہ کی بنیاد پر پاکستان میں انسانیت کو خودکشی کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے آدمیت فریاد کرتی سر پیٹتی دیکھائی دے رہی ہے جس کی چند ایک مثالیں میں اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں حضرت انساں کی کار فرمائیوں سے انسانیت منہ چھپا کر روتی بلکتی آہیں بھرتی نظر آتی ہے قارئین کرام میں ان تین طبقات کی بات کروں گا جو اپنے علم و لیاقت کی وجہ سے معاشرے کے بلند ترین مقام پر متمکن ہوتی تھیں اور سب سے زیادہ احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں ان میں سب سے پہلے بات کروں گا معلم کی کہ جسے پیغمبری شعبے کا حامل کہا جاتا تھا اس شعبے سے منسلک کچھ لوگوں نے ناجانے کیوں پیغمبری فرائض کو پس پشت ڈال کر ابلیسی اور چنگیزی اطوار کا جامہ زیب تن کر لیا شعبہ پیغمبری کے بجائے شیطان کی ہمرہی کو اپنی بقاء کا ضامن تصور کر لیا ابھی پچھلے پانچ چھ روز کی بات ہے کہ شیخوپورہ کے نواح میں خانقاہ ڈوگراں میں ایک دینی عالم دین ایک مدرسے کے معلم ایک مذہبی خطیب نے ایسی ظالمانہ تاریخ رقم کی کہ وہاں پر انسانیت کے آنگن میں صف ماتم بچھ گئی جی ہاں خانقاہ ڈوگراں میں ایک مدرسے کے مولوی صاحب نے ایک بیوہ کے پانچ سالہ نور نظر کو محض اس لئے بہیمانہ تشدد کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان سے مار دیا کہ اس معصوم کو سبق یاد نہیں ہوا تھا اسے اس قدر اذیت دی کہ اس معصوم نے گھر جانے کی بجائے خدا کے پاس جانے کا سفر اختیار کر لیا بچے کو سبق یاد نہ ہونا کوئی اتنا بھی بڑا جرم نہیں تھا کہ وہ مولوی صاحب اسے واجب اا لقتل سمجھتے ہوئے جان سے ہی مار دیتے یہی علماء حضرات کہتے ہیں کہ عالم پیغمبروں کے وارث ہیں کیا پیغمبر خدا ﷺ نے دین کی تعلیم دیتے ہوئے نعوذ باﷲ کسی کی جان لی ؟کسی کو سبق یاد نہ ہونے کی پاداش میں تشدد کا نشانہ بنایا ؟نہیں بالکل نہیں بلکہ حضور ﷺ نے دین کی تبلیغ و اشاعت جس شفقت اور رحم دلی سے کی اس کی مثال کاینات میں ملنا ممکن ہی نہیں ،پیارے رسول ﷺ نے تو یتیموں پر شفقت کا حکم دیا تو پھر کیا یہ آج کا مولوی اسی پیغمبر ڑحمت کا وارث ہوا یا شیطان کا نائب ؟جس نے پانچ سالہ یتیم کی جان لے لی اور یتیم بھی وہ جو بیوہ ماں کی امیدوں کا واحد محور تھا جو بیوہ ماں کے مستقبل کا اکلوتا سہارا تھا ماں کی آنکھوں میں چمکتی ہوئی بینائی تھی جسے مولوی صاحب نے سبق یاد نہ کرنے پر ایسا سبق دیا کہ وہ اپنے خالق کے پاس جا پہنچا اسے اس قدر تشدد کا نشانہ بنانے کے ایک گھنٹے بعد گھر پیغام بھیج دیا کہ آپ کے بچے کی طبیعت خراب ہے اسے آکر لے جائیں بیوہ ماں جب مدرسے پہنچی تو اپنے لال کو چت لیٹا ہوا پایا جب ماں اپنے لخت جگر کو اٹھانے لگی تو اس کی چیخ نکل گئی کیونکہ اسنے اپنے زندگی کے چراغ کے ملبوس کو پشت سے خون میں لت پت پایا بچے کو اٹھایا تو اسکی گردن ڈھلک چکی تھی ماں کا وہ روشن چراغ بجھ چکا تھا وہ غریب فریاد کرتی بھی تو کس سے کیونکہ علاقے کے سردار مولوی کے بہی خواہ ہیں وہ مولوی کو بچانے کے لئے ماں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ تیرے ساتھ جو ہونا تھا ہو گیا تم معاف کردو مولوی کو کیا ایسے سردار سردار الانبیاء کے امتی کہلانے کے حقدار ہیں جو ایک بیوہ کو انصاف دلانے کی بجائے بیوہ ماں کو مجبور کرنے کی کوشش کریں کہ ہمارا مولوی ہے معاف کر دو قارئین یہاں انسانیت نوحہ کناں نظر آئی مجھے ۔اب بات کرتے ہیں دوسرے معزز شعبے کی جسے مسیحا کا رتبہ دیا اس کے علم نے مگر کیا اسنے اپنے مسیحا ہونے کے مرتبے کی لاج رکھی ؟جی ہاں اس شعبے کے حامل کو لوگ ڈاکٹر یا معالج کہتے ہیں جس کا اخلاق فطری طور پر اتنا بلند ہونا چاہئے کہ انسانیت انکے قصیدے پڑھے ہر آدمی انکو سلام کرے مگر میری دھرتی پر ڈاکٹر اسے کہا جاتا ہے جس کے پیکر میں غرورو نخوت بھری ہوئی ہو جو عام انسان کو کسی جراثیم سے زیادہ اہمیت نہ دے جو اپنے علم کو خدمت انسانی کے لئے وقف کرنے کی بجائے نوٹ چھاپنے والی مشین سے تعبیر کیا جی ہاں یہ میرے معاشرے کے ڈاکٹروں کا حال ہے جن کے رویئے سے انسانیت شرمندہ ہو جاتی ہے اور تیسرا معزز طبقہ یا شعبہ ہے قانون دانوں کا جن کا حقیقت میں کام عدل کی پاسبانی ہے نہ کہ جنگجوپن ۔گذشتہ دنوں یہی دو شعبے مسیحا اور پاسبان عدل لوگ باہم ایسا ٹکرائے ان دونوں شعبوں نے ملکر انسانت پر تمانچوں کی ایسی بوچھاڑ کی کہ اب تک انسانیت انکے تمانچوں سے پڑنے والے نشانوں سے اپنا چہرہ چھپائے پھر رہی ہے سسکیاں لے رہی ہے ،ماتم داری کرتی نظر آرہی ہے خوفزدہ ہے لبادہ انسانی میں ملبوس ان وحشیوں سے جی ہاں قارئین کرام یہ سب ساری دنیا نے حیرت اور دکھ سے منظر دیکھا جب پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ان پڑھے لکھے شعورو ادراک سے نا آشنا لوگوں نے ایک علاج گاہ ایک اسپتال اور ایسے اسپتال کو میدان جنگ بنا دیا جہاں عارضہ قلب کے مریض پنجاب بھر سے علاج کی غرض سے آتے ہیں پہلے کچھ مسیحاؤں نے وکلاء کو تشدد کا نشانہ بنایا جو ایک مسیحا کی کرسی سے فیضیاب ہونے والے کو کسی بھی صورت زیب نہیں دیتا مسیحا تو وہ کہلاتا ہے جو حلیم الطبع ہو جس کی گفتگو سے بیمار سکون محسوس کرے نہ کہ غنڈہ کہ جس کی گفتار سے بیمار خوفزدہ ہو جائے ڈاکٹر شفیق ہوتا ہے نا کہ ہلاکو ۔اور اب بات کرتے ہیں عدل کے پاسبانوں یعنی وکلاء کی جنہوں نے ردعمل کے طور پر دل کے حساس اسپتال پر ہلہ بول دیا گیٹ کو اکھاڑ کر ایسے اسپتال میں گھسے جیسے ٹیپوکے قلعے پر انگریز فوج گیٹ کھلنے پر داخل ہوئیاور اس طرح کا بھرپور حملہ کیا کہ راہ میں جو بھی آیا اس کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دئیے پولیس وین کو جلا ڈالا اجی وکلاء صاحبان اول تو آپ کا اسپتال پر حملہ بنتا ہی نہیں تھا آپ قانون دان لوگ تھے ڈاکٹرز کے غلط روئیے پر ان پر محکمانہ کارروائی کا حق تھا آپ کے پاس پھر آپ نے پی آئی سی کو دشمن کی فوجی چھاؤنی سمجھ کر حملہ کیوں کیا کیا آپ کے اس حملے پر انسانیت آپ کو داد تحسین سے نوازے گی ؟کتنا فخر کرے گی آدمیت آپ پر؟ کیا آپ لوگوں نے حملہ کر کے قانون و عدل کے پرچم کو سر بلند کیا ؟کیا آپ نے اسپتال پر حملہ کر کے عدل و انصاف اور انسانیت کو اپنے پاؤں سے روند نہیں ڈالا ؟وہ مریض جن کی اموات کا سبب بنا آپ کا حملہ کیا انہوں نے کسی وکیل پر حملہ کیا تھا ؟کس جرم بیگناہی کی سزا دی گئی ان مریضوں کو ؟ڈاکٹروں سے پوچھو تو وہ سچے بنتے ہیں وکلاء سے بات کرو تو یہ کہتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں تو پھر جو ان دونوں ہاتھیوں کی زد میں آکر موت کے راہی بن گئے وہی باطل ہوں گے کیا خیال ہے ؟کچھ لوگ اس واقعے کو سیاست کا رنگ دے رہے ہیں کچھ لوگ اس سے اپنی اپنی دوکانداری چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں کچھ عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کے جرم کا ذمہ دار وزیر اعظم کو گردانتے ہیں ۔ خدارا کوئی بھی ذمہ دار ہے اسے سزا سے بچنا نہیں چاہیئے عمران اب پاکستان کے وزیر اعظم ہیں صرف حسان نیازی کے ماموں نہیں اگر حسان مجرم ہے تو ریاست مدینہ کے داعی اسے بھی سزا دیں میں تو فقط اتنا کہوں گا کہ جن لوگوں کی موت کا سبب بنے ہیں یہ تمام ڈگریوں کے حامل جہلاء ان لوگوں کے قتل کے جرم میں ان جہلاء کو سزا لازمی ہو ۔اور آخر میں یہی کہوں گا کہ ان تینوں شعبوں دین کے معلمین ، مسیحان قوم اور ان پاسبان عدل کو باور کروائیں کہ جبہ و دستار کی عظمت کیا ہے ،مسیحا کے سفید کوٹ کی عفت کیا ہے اور پاسبان عدل کو بھی بتایا جائے کہ کالے کوٹ کی حرمت کیا ہے راہنمائی کرنے والے خود بھٹک چکے ہیں جس پر انسانیت نوحہ کناں ہے
 

M.H BABAR
About the Author: M.H BABAR Read More Articles by M.H BABAR: 83 Articles with 73024 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.