یہ سوال ہمارے زہنوں میں اکثر گردش کرتا ہے کہ ہمارے ٹی
وی چینلز خاص طور پرتمام میڈیا چینلز پر ایک ہی طرح کے پروگرامز، ایک ہی
طرح کےڈرامے، کرائم شوز، ٹاک شوز،اینٹرٹینمینٹ کے پروگرام ایک جیسی نوعیت
کے اور ایک ہی طرح کے کیوں ہوتے ہیں؟ کیا ایک دوسرے کی نقالی کرتے ہیں ؟ یا
ان کو یہ معلوم ہے کے ناظرین یعنی عوام اسی طرح کے پروگرامز یا ڈرامے
دیکھنا پسند کرتے ہیں ؟ اگر ہاں تو یہ انھیں کس طرح معلوم ہوتا ہے کہ عوام
کا رجحان کس طرح کے پروگرامز دیکھنے میں زیاہ ہے؟ یہ سب ریٹنگ کے باعث
معلوم ہوتا ہے.
ریٹنگ کا لفظ تو آپنے اکثر میڈیا پر سنا ہی ہوگا لیکن ریٹنگ ہوتی کیا ہے
اور کس طرح کی جاتی ہے اکثر لوگ اس سےانجان ہیں۔ ریٹنگ کو سمجھنے کے لئےسب
سے پہلے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی نجی ٹیلی ویژن کی آمدنی
کا دارومدار اشتہارات پر ہوتا ہے ۔ یہ اشتہارات انھیں حکومت کی طرف سے بھی
ملتے ہیں اور نجی اشتہاری ایجنسیاں بھی اشتہارات دیتی ہیں۔ یہ اشتہاری
ایجنسیاں سروے کی بنیاد پر اشتہارات دیتی ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سروے
کون کرتا ہے ؟ کچھ بڑی اشتہاری ایجنسیاں خود بھی سروے کرتی ہیں جبکہ زیادہ
تر سروے ریٹنگ ایجنسیوں کے جاری کردہ ڈیٹا سے حاصل کرتے ہیں۔
2007ء سے قبل تمام اشتہاری ایجنسیاں گیلیپ کے سروے پربھروسہ کرتی تھیں اور
اسی کے مطابق اشتہارات کی تقسیم کرتی تھیں۔ گیلیپ ایک نجی سروےکمپنی ہے جس
کی پورے ملک کے چند چھوٹے بڑے شہروں میں دفاتر تھے ان کے نمائندے شہروں کے
منتخب علاقوں میں جا جا کر سوال کرتے تھے۔ جس کا پہلے ایک سوال نامہ تیار
کیا جاتا تھا۔ اس طرح کئی شہروں کے کئی علاقوں سے نمونہ بندی کرکے نتیجہ
نکالتے تھے جس کی بنیاد پر اشتیہاری ایجنسیاں اشتہار ات دیتی تھیں۔ یہ
ادارہ اب بھی کام کر تا ہے۔ لیکن ان کا سروے سوال نامہ کی بنیاد پر کیا
جاتا تھا ایسے ادارے جو سروے کرتے ہیں ان کے نتیجے پر عمل کرنے سے پہلے اس
بات کوجاننا بھی ہم ہوتا ہے کہ سروے کے دوران کس طرح کے سوالات اتھائے گئے
تھے ؟ مثال کے طور پر اگر سروے کے مطابق یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ علی ظفر
سب سے زیادہ مقبول ہیں ۔ تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سروے کرتے وقت سوال کیا
منتخب کیا گیا تھا ؟اگر سوال یہ تھا کہ علی ظفر اور عاطف اسلم میں آپ کسے
پسند کرتے ہیں؟ تو نتیجہ کا اعلان بھی یوں ہونا چاہئے کہ علی ظفر عاطف اسلم
سے زیادہ پسند کی جانے والی شخصیت ہے۔لیکن یہ بھی مکمل جواب نہیں ہے ہمیں
مزید یہ دیکھنا ہو گا کہ کس شہر کی کونسی آبادی میں جا کر نمونہ بندی کی
گئی ؟کتنے شہر منتخب کئے گئے اور کون کون سے صوبے سروے میں شامل کئے گئے؟
اور اسی طرح کی مزید معلومات کے بغیر صحیح نتیجہ کو سمجھنا مشکل ہے۔
2007 کے بعد میڈیا لاجک کے پیپلز میٹر متعاف کروائے جس کے بعد "ٹارگٹ ریٹنگ
پوائنٹ" کو معیار تصور کر لیا گیا۔ اور تمام اشتہاری ایجنسیاں اس پر بھروسہ
کرنے لگیں اور اس کے مطابق ہی اشتہارات کی تقسیم ہونے لگی۔ ٹارگٹ ریٹنگ
پوائنٹ کو عام الفاظ میں "ٹی -آر - پی " کہا جاتا ہے۔ 2013 میں سینیٹ میں
ایک رپورٹ پیش کی گئی کہ میڈیا لاجک آخر کس طرح ریٹنگ جاری کرتی ہے؟ اور یہ
کس حد تک درست ہوتی ہے؟ اس رپورٹ کے مطابق میڈیالاجک پاکستان بھر میں موجود
3000 پیپلز میٹر کی بنیاد پر ریٹنگ جاری کرتی اور ٹی آر پی کا اعلان کرتی
ہے ۔ میڈیا لاجک کی طرف سے سینیٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کی تفصیل کچھ یوں
تھی کہ میڈیا لاجک کے قل 400 ملازم ہیں ۔یہ کمپنی 9 بڑے شہروں سے ڈیٹا
اکھٹا کرتی ہے ۔ ان میں صوبہ سندھ سے کراچی ، حیدر آباد اور سکھر ، صوبہ
پنجاب سے لاہور ،فیصل آباد، گجراں والا ، راولپنڈی اسلام آباد شامل ہیں
جبکہ صوبہ خیبر پختون خوا سے صرف پشاور شامل ہے۔ صوبہ بلوچستان کا کوئ حصہ
اس میں شامل نہیں ہے۔ کراچی میں 1300 پیپلز میٹرمختلف مقامات پر نصب کئے
گئے ہیں ۔
لاہور میں 900 ،راولپنڈی اور اسلام آباد میں میں کل 600 میٹر نصب ہیں جبکہ
باقی 6 شہروں میں صرف 200 پیپلز میٹر نصب کئے گئے ہیں جبکہ بلوچستان میں
امن و امان کی کشیدہ صورتِ حال کے پیشِ نظر کوئی پیپلز میٹر نصب نہیں کیا
گیا ۔
پیپلز میٹر ہو یا کوئ اور سروے کا طریقہ ان کے نتائج سیمپل یعنی نمونہ
کہلاتے ہیں یعنی محدود حلقہ کہ رجحانات کو دیکھ کر ایک بڑے گروہ کے رجحانات
کا اندازہ لگایا جاتاہے ۔ اب جب کہ 45 فیصد پیپلز میٹر صرف کراچی میں ہی
نصب ہیں اس سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا ک کیوں تمام نیوز چینلز یا
انٹرٹینمینٹ چینلز کا حدف کراچی ہی کیوں ہوتا ہے؟ زیادہ تر خبریں کراچی کی
ہی منظر عام پر کیوں آتی ہیں؟ اور تمام پروگرام کراچی کی ہی نماندگی کیوں
کرتے ہیں؟ باقی 55 فیصد پیپلزمیٹر بھی پاکستان کے شہری علاقوں میں نصب ہیں
اور شہروں کے بھی وہ علاقے جہا ں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپر کلاس اور مڈل
کلاس طبقہ ہی آباد ہے جبکہ پسماندہ علاقوں یا گائوں دیہاتوں میں کوئ پیپلز
میٹر نصب نہیں کیا گیا ۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کے چونکہ یہ آلہ بہت مہنگا
ہے لہٰذا اس کی تنصیب وہا نہیں کی جاسکتی جہا اس کو نقصان پہنچنے کا زرا
بھی خدشہ ہو۔ لہذا اس بات سے یہ اندازہ لگانہ مشکل نہیں کہ بلدیہ ٹائون یا
لانڈھی کے ناظریں کس طرح کو پروگرامز یا کونسا چینل زیادہ دیکھتے ہیں پیپلز
میٹر یہ نہیں بتا سکتا اسی طرح پاکستان کے چھوٹے شہروں اور گوٹھ دیہاتوں کے
ناظریں کے کیا رجحانات ہیں اس کا بھی اندازہ لگانے کا کوئی انتظام نہیں ۔
اور چونکہ بلوچستان میں ایک بھی میٹر نصب نہیں اس لئے ٹی وی چینلز میں کوئی
پروگرام ایسا نہیں دکھایا جاتا جو بلوچستان کی یا بلوچستان کے کسی شہر کی
نمائندگی کرتا ہو۔ کوئی بڑا سانحہ ہو تو ہو ورنہ بلوچستان کی کوئ معمول کی
خبر کو نیوز بلٹن میں جگہ نہیں ملتی ۔ اس نقطہ پر غور کی جیئےکہ پیپلز میٹر
کی کے ڈیٹا سے ناظرین کے"رجحان " کا اندازہ لگایا جاتا ہے تو جہاں یہ میٹر
نصب نہیں وہا کا ڈیٹا نہیں ملے گا یعنی ان کا رجحانات کو نظر اندا کردیا
جاتا ہے اور جہاں یہ آلہ تعداد میں زیادہ ہے وہا کے ناظرین کو متاثر کرنے
کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس طریقہ کار پر ہمارے زہنوں میں کئی طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں پہلا تو
یہ کہ کل 9 شہروں میں نصب کئے گئے 3000 پیپلز میٹر فی آلہ 700 گھروں کا
احاطہ کرتے ہیں اس لئے پیپلز میٹر کے بتائے گئے رجحان کو پورے ملک کا رجحان
کیوں کر تسلیم کیا جائے ؟ دوسرا سوال یہ کہ یہ کیسے مملن ہے کہ پیپلز میٹر
کو ٹیلی ویژن سے جڑی فریکوینسی سے اندازہ ہو کہ کونسا چینل یا پروگرام
زیادہ دیکھا جا رہا ہے ؟ کیونکہ کیبل آپریٹر اکثر و بیشتر چینلز کی فری
کوینسی تبدیل کرتے رہتے ہیں اور اس طرح کے کئ سوالات جنم لیتے ہیں جن کا
کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔اگر ٹی آر پی کو 100 فیصد درست بھی مان لیا
جائے تو بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دیکھنے والا پروگرام معیاری تھا یا نہیں
کیونکہ اس میں ناظرین کی آرا شامل نہیں ہوتی اس سے دیکھنے والوں کے زوق کا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کئی بار ٹی آرپی کے خلاف الزامات بھی لگ چکے ہیں
لیکن ان کا کوئ پختہ ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے کوئی کاروائ نہیں کی جاتی ان
الزامات کے متابق اداروں کے مالکان خریدتے ہیں تاکہ اپنے چینل کی زیادہ سے
زیادہ ریٹنگ دکھا ئی جائے کویونکہ ہی ریٹنگ اشتیہارات کی تقسیم اور اس کی
بہتر قیمت کافیصلہ کرتی ہے۔ تو جب "ٹی آر پی " بتائے گی کہ فلاں چینل کا
فلاں پروگرام سب سے زیادہ ہِٹ ہوگیا ہے تو تمام چینلز اسی طرح کے پروگرامز
بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پیپلز میٹر پر اشتہاری کمپنیوں اور اشتہاری
کمپنیوں پر ٹی وی چینلز کا انحصار ہوتا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہماری ٹی
وی چینلز کو مشتہر چلاتے ہیں انھیں کہ فیصلے حرفِ آخر ہوتے ہیں کبھی کبھی
تو مشتہر فیصلہ کرتا ہے کہ ڈرامے کا ہیرو کون ہوگا اور ہیروئن کون؟
لیکن اب ریٹنگ کے جن پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے کئی بار ریٹنگ
ایجنسیوں کے خلاف کورٹ میں اپیل کی جاچکی ہے۔ اسی طرح رواں سال اگست میں
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے میڈیا لاجک کیس کی
سماعت کے بعد میڈیا لاجک کے سرور کو بند کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا کیونکہ
میڈیا لاجک کے سی سی او سلمان دانش پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے جان بھوجھ
کر ریٹنگ میں ردوبدل کی تھی اور من پسند چینلز کو ریٹنگ دی تھی۔اس طرح کچھ
دن تک یہ پابندی عائد رہی اور اس کا حل یہ نکالا کہ5اکتوبر کو سپریم کورٹ
نے میڈیا لاجک کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے پیمرا کو میڈیا ریٹنگ
ایجنسیوں کو رجسٹر کرنےکے لئے ایک ہفتہ کا وقت دے دیا سپریم کورٹ کا کہنا
تھا کہ جو کمپنی رجسٹریشن نہ کرائےاسے رجسٹر ہونے تک بند کردیا جائے، اس
فیصلہ کے مطابق پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن ''پی بی اے" یا کسی اور
ادارے کو براہ راست ریٹنگ نہیں دے گی، فیصلے کے مطابق احکامات کی خلاف ورزی
ریٹنگ کمپنی فوری طور پر بند کردی جائے گی۔اشتہارات دینے والی کمپنیاں کسی
بھی چینل کو اشتہار دینے میں آزاد ہیں ۔ تمام ریٹنگ ایجنسیاں پیمرا کو
روزانہ ریٹنگ دینے کی پابند ہونگی۔اور پیمرا کمپنیوں کی ریٹنگ کو روزانہ
ویب سائٹ پر آویزاں کرے گا اور ریٹنگ کی بنیاد پر مشتہر کسی کو بھی اشتہار
دینے میں آزاد ہوگا۔ عدالتی حکم نامہ میں یہ بھی کہا گیا کہ پی بی اے
کےممبران ریٹنگ سے متعلق کسی بھی فورم کا حصہ نہیں بن سکتے ۔ اور جو
براڈکاسٹر پی بی اے کے ممبر نہیں وہ بھی ریٹنگ کے اہل ہونگے۔اور اس فیصلے
کے بعد میڈیا لاجک کو ریٹنگ جاری کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ جسے اس سال
16 اگست کو ریٹنگ جاری کرنے سے روک دیا گیا تھا۔عدالت کے ان احکامات سے
اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ میڈیا انڈسٹری میں موجود ریٹنگ کے جِن پر قابو
پانے کی بھرپور کی جارہی ہے ۔ اور یہ کوشش کی جارہی ہے کہ ریٹنگ ایجنسیوں
کی جاری کردہ ریٹنگ حقیقی اور غیر جانبدار ہو ۔ لیکن اس عمل میں کس قدر
کامیابی حاصل ہوسکتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔
|