یہ شہر قائد روز بہ روز نہ جانےکہاں جا رہا ہے بڑی ہی تیز
رفتار سے چلتا جا رہا ہے اس وجہ سے نہ ہمیں اپنے کل کا پتہ ہے اور نہ آج کا
بس یہاں کا رہنے والا ہر شخص اپنی مصروفیات میں اتنا مصروف ہے کہ اسے
دوسروں کے لئے تو مشکل اپنے لئے ہی وقت نہیں ملتا۔ اگر ہم ذرا سا وقت نکال
کر اپنے شہر قائد کی طرف دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہو کہ ہم کہاں جا رہے ہیں
کیا ہمارے ساتھ ساتھ ہمارا شہر بھی صحیح راہ پر گامزن ہے یا نہیں؟ کیا ہم
اس کے بڑھتے مسائل میں سے کسی ایک کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں؟ اگر
میں ہزار مسئلوں کو چھوڑ کر آج صرف ایک مسئلے کو پیش کروں تو یہ ہر گز برا
نہ ہوگا کہ باقی مسائل کو نظرانداز کیوں کیا گیا کیونکہ ہم صرف ایک وقت میں
ایک مسئلے کا حل ہی نکال سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں یہ کہنے میں ہم نے دیر
کردی ہے جتنا ہم نے بچانے میں کی یہ صرف اور صرف قدرت کے بارے میں لکھا جا
رہا ہے کیونکہ اب ہم صرف معذرت ہی کر سکتے ہیں اپنی قدرت سے کیونکہ میں نے
دیکھا کچھ درختوں کو زمیں سے الگ ہوتے اس پر پرندوں کو بے گھر ہوتے ہوئے
لیکن ہمیں فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ انسان نہیں ہیں ناں۔ یہ سب قدرت کے
نظارے ختم کر کے ہم نہ جانے کہاں جا رہے ہیں ہم اس کے بغیر کیسے رہ سکتے
ہیں ایسا نہیں کہ ہم نے آواز نہیں اٹھائی ہم نے آواز اٹھائی تو جواب میں
کچھ مہم بھی چلائی گئی اور پھر آواز کے جواب میں کچھ مان بھی گئے کہ کٹائی
کے بعد کچھ ہزار پودے لگائے بھی جائیں گے لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ
پودوں کو درخت بننے میں کتنا وقت لگے گا شاید اس سے بھی کم وقت ہو ہمارے
پاس لیکن ہمیں اندازہ نہیں کیا وہ ہزاروں پودے ان بڑی شاخوں والے درختوں
جیسا سایہ دے پائیں گے؟ چلو مان لیا وہ آنے والے وقت میں ہماری ضروریات
پوری کریں گے لیکن کیا ہمیں ابھی ضرورت نہیں ہماری عام ضروریات میں سے یہ
بھی ایک ضرورت ہے ہزاروں نئے پودے لگانے کے ساتھ ساتھ پرانے درختوں کو بھی
بچائیں تاکہ ہرا بھرا رہے ہمارا شہر اور پاکستان۔
|